بستی علی گڑھ میں وڈیرے اور زمینداروں کا راج تھا وہاں کے کسان ان وڈیروں کے قرضوں کے تلے دبے ہوئے تھے ان کسانوں کی سال بھر کی محنت ان زمینداروں کی نظر ہو جاتی اور وہ پھر سے اس قرضے اور اس کے سود کے سائے میں چلے جاتے تھے بستی علی گڑھ میں مختلف قوموں کے لوگ بستے تھے مگر ان میں فیقا موچی تھوڑا بہت چالاک تھا اس کی گائوں میں کریانہ کی دکان تھی جس کی بدولت اکثر وبیشترتر اس کا شہر کا چکر لگتا رہتا تھا لیکن فیقا بھی ان کے قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔
فیقا کا ایک بیٹا تھا اکثر اوقات زمینداروں میں یہ رواج عام ہوتا ہے کہ قرض داروں کے بچوں کو ملازم رکھا جاتا ہے بستی علی گڑھ میں بھی یہ رواج عام تھا فیقا اپنی چالاکی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو شہر میں رکھ کر پڑھانا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس جاگیرانہ نظام سے تنگ آچکا تھا اس چال میں وہ کامیاب ہوگیا اور فیقا خود زمیندار بننے کے خواب دیکھنے لگ فیقا نے کوششں کر کے اپنے بیٹے کو ولایت بھیج دیا اور سائنس دان بنانے کے خواب دیکھنے لگا۔۔۔۔۔بیٹے کے ساتھ خط وکتابت میں مختلف تجربات اور وائرس کے بارے تبادلہ خیال کرتا دراصل فیقا کا لالچ بڑھ گیا تھا وہ بڑا انسان یعنی بستی کا نمبر دار بننے کے خواب دیکھنے لگا ۔۔۔
ایک دن فیقا کی نظر اپنے بیٹے کے کچھ نوٹس پر پڑی جس پر مختلف وائرس کا ذکر تھا چنانچہ فیقا ان کی افادیت سے نا واقف تھا اس نے کچھ فارمولے تیار کرنے کی کوشش کی حالانکہ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہو ں گے اور اس نے یہ تیار کردہ فارمولے کریانہ کے ساما ن میں شامل کر دیئے شہر کا گائوں سے فاصلہ بھی بہت زیادہ تھا۔۔
ساری بستی کو کھانے پینے کی چیز یں بھی اسی سے لیتی تھی جب فارمولے گائوں والوں نے استعمال کئے تو گائوں میں چھوت کی وباء پھیلنے لگی فیقا کو شک ہو گیا اور وہ عقل مندی کا مزاع کرتے ہوئے گائوں سے شہر کی طرف بھاگا گائوں میں سب کو چھوت کی بیماری لگ گئی اور چند دن کے اندر بستی علی گڑھ اس چھوت کی بیماری سے نست و تابود ہو گی ایک ماہ بعد جب فیقا شہر سے گائوں کی طرف آیا تو بستی علی گڑھ کو بڑا ویران پایا سب وڈیرے و زمیندار ڈھیر ہوچکے تھے وہ جہاں چاہتا جاتا کھبی کسی وڈیرے کے گھر میں کھبی کسی زمیندار کی بیٹھک پر حتی کہ اسی اثنا ء میں ایک ماہ گزر گیا وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا اور اپنی عقل مندی پر اپنے آپ کی تعریف کرتا مگر انسان معاشرتی حیوان ہے جو اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا ۔۔۔۔
فیقا کو سب کچھ مل گیا جو وہ چاہتا تھا مگر اس وقت اس کی عقل مندی کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں تھا وقت گزرتا گیا اور وہ اپنے آپ سے بھی خوف زادہ ہوگیا اور دیوانگی کی حالت میں مرگیا ۔ چند سالوں کے بعد ایک قافلے کا گزر ہوا جن میں چند عقل واے انسان بھی موجود تھے جب انہوں نے بستی علی گڑھ کی یہ حالت دیکھی تو اس بستی کی اصلی وجہ جاننے میں مشغول ہوگئے ان کی رپورٹ کے مطابق بستی کا آخری انسان بہت عقل مند تھا اس لئے وہ تنہائی سے مرہ باقی سب کسی وائرس سے۔۔