غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی، قبیلہ اولیاء کے سرخیل

Ghaus-ul-Azam Shaikh Abdul Qadir Jilani

Ghaus-ul-Azam Shaikh Abdul Qadir Jilani

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
حضور سیدنا غوث الاعظم ، شہباز لا مکانی ، قندیل نورانی ، عکسِ آیات ِ قرآنی ، محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعا لی عنہ کی سیرت طیبہ ، افکار و نظریات اور احوال و علم و حکمت کے حوالے سے دنیا بھر کے مشاہیر ِ اسلام ، سکالرز ، دانشورانِ اُمت مسلمہ اور اہل ِ قلم نے اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سوچ و فکر کے ذریعے قلم اُٹھایا ہے اور ”سیرت غوث الاعظم ” کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر علم و حکمت اور دانائی و فراست ، فہم و شعور اور تصوف کے موتی اور ہیرے و جواہرات کی صورت میں ”افکار ِ غوث الاعظم ” اُمت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر بنا نے کی کوشش کی ہے تا کہ اُمت مسلمہ آپ کے افکار ِ عالیہ کو من کے دریچوں اور سو چوں کے روزنوں میں راسخ کر کے اپنی کھوئی ہوئی منزل کا سُراغ پا سکے ، جناب ِ صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی رحمة اللہ علیہ نے محبوب ِ سبحانی حضور شیخ عبد القادر جیلانی رضی الہ تعا لی عنہ کی پاکیزہ اور نظافت و لطافت کے پیکر میں گوندھی شفاف شخصیت کے حوالے سے ایک یاد گار مضمون اپنی معتبر کتاب ”تاریخ کی مُراد ” میں رقم کیا ہے وہ فر ماتے ہیں ”اولیاء وصوفیا ء کی پوری جماعت میں سب سے زیادہ محبوبیت اور شہرت جس مردِ خدا کے حصے میں آئی ہے وہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ ہیں ، کیا عوام اور کیا خواص دو نوں طبقوں میں آپ کو یکساں اور لا زوال عزت حاصل ہے آپ کو زمانے بھر کے علماء اور صلحاء نے جو مختلف القاب دیئے ہیں ان میں ایک معروف لقب ”محی الدین ” ہے بلاشبہ اس لقب کی قبائے زیبا آپ کی قامت رعنا پر راست آئی ہے شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام کا قول ہے”۔

آپ کا وجود اسلام کے لیے ایک بادِبہاری تھاجس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی جس زمانے میں آپ وارد بغداد ہوئے یہ وہ دور تھا جب بغداد کی فضا پر علم کی خشکی کا لیپ چڑھا ہوا تھا بحث و مناظرہ کا بازار گرم تھا ، نئے نئے فرقے وجود میں آرہے تھے اور نئے نکتے بر آمد ہو رہے تھے ، ہر شخص کتاب خواں تھا مگر صاحب ِ کتاب سے نسبت کی فکر نہ تھی ، الفاظ و حروف کا ایک ذخیرہ تھا جس میں ہر ایک گم تھا کسی کو سُراغِ زندگی پانی کا شوق نہ تھا ، لغت ہائے حجازی کے قارون بہت تھے مگر گدائے کوئے حجاز کوئی نہ تھا، ہر طرف کتا بوں کے انبار لگے ہو ئے تھے لیکن دل کا ورق اُلٹنے کی کسی کو توفیق نہ تھی ،مناظرے کی محفلیں طلوع صبح تک رہتیں مگر شب تار زیست محروم سحر تھی مسند ِ تدریس پر ترش رو معلم فروکش تھے جب کہ ضرورت نہاں خانہ دل میں اتر جانے والے مرد ِ خلیق کی تھی ، محراب و منبر پر شعلہ جان قابض تھے جبکہ اہلِ بغداد شیریں مقال واعظ کے منتظر تھے اسی کشیدہ و کبیدہ ماحول سے با لآ خر امام غزالی تنگ آکر جامعہ نظامیہ کو خیر با د کہتے ہوئے شہر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ تھیک وہی سال تھا کہ امام غزالی علم کی کرسی فخر چھوڑتے ہیں اور شیخ جیلانی مسند فقر پر جلوہ افروز ہوتے ہیں امام غزالی نے جس منصب کو خوشی خوشی چھوڑا لوگ گھُل گھُل کر اس کی آرزو کرتے ہیں صرف 34سال کی عمر میں امام غزالی بغداد کی جامعہ نظامیہ کے سر براہ مقرر ہوتے ہیں یہ ایک عالم کے لیے سب سے خوبصورت لمحہ اعزاز اور سب سے بڑا نقطہ کمال تھا امام کے ایک معاصر عبد الغافر فارسی کے بقول ”ان کی علمی صلاحیت کے سامنے امراء وزراء تو کیا بارگا ہ ِ خلافت کی شان و شوکت ماند پر گئی تھی”۔

تاریخ کی کتا بوں کی اگر ورق گردانی کی جائے تو پڑھنے والے کو معلوم ہو تا ہے کہ ایک دن آفتاب غروب ہو چکا تھا ، چاند کی روشنی پورے طور پر زمین کے اوپر پھیل چکی تھی ایک خوبصورت نوجوان دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک چاند کی چاندنی میں اُس کی نگاہ دریا کی لہروں میں تیرتے ہوئے ایک خوبصورت سیب پر پڑی قریب آتے ہی جھٹ سے اُس نوجوان نے وہ سیب اُٹھا لیا اور بھوک کی شدت نے اُسے مجبور کر دیا کہ وہ اُس سیب کو آناََ فا ناََ کھالے تاکہ اپنی بھوک کی شدت کو کم کر سکے گھر کی جانب روانہ ہوتے ہی اُس نوجوان کے ضمیر نے اُسے جھنجھوڑنا شروع کر دیا کہ وہ سیب جو اُس نے بغیر تحقیق کے کھا یا ہے نہ جانے وہ کس کی ملکیت تھا اور میں نے تو بغیر تحقیق کے کھایا ہے کسی سی پوچھ کر نہیں کھایا لہذا یہ مجھ پر اُس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک اس کے مالک سے معافی نہیں مانگ لی جاتی ، اسی بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں کروٹیں بدلتے رات گزاری اور صبح سویرے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی وہ نوجوان سیب کے مالک کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ،جہاں سے وہ تیرتا ہوا سیب آرہا تھا اُسی جانب پاکیزہ جذبوں ، نیک ارادوں اور صالح نیت کا حامل نوجوان چلا جا رہا تھا تاکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے جس جگہ سے اُس سیب نے تیرنا شروع کیا تھا وہ نوجوان اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا آخر کار اُس نوجوان کو ایک باغ نظر آیا اور اُس باغ میں نور کے سانچے میں ڈھلی خوبصورت نورانی شخصیت نظر آئی نوجوان نے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ سلام عرض کیا ، بزرگ شخصیت نے مشفقانہ انداز سے سلام کا جواب دیا اور دعائوں سے نوازا دوران ِ گفتگو اُس نوجوان کو معلوم ہوا کہ اس باغ کے مالک یہی نورانی صورت والے بزرگ ہی ہیں چنانچہ اُس نوجوان نے بلا تا خیر طویل مسافت طے کرنے کے بعد اپنی حاضری کا مقصد بیان کیا اور ساتھ ہی اس سیب کی قیمت بھی دریافت کی تاکہ وہ قیمت ادا کر کے اپنے دِل کا بوجھ ہلکا کر سکیں اور اطمینان ِ قلب کی لذت سے بہرہ مند ہو سکیں۔

Ghaus-ul-Azam Shaikh Abdul Qadir Jilani

Ghaus-ul-Azam Shaikh Abdul Qadir Jilani

نور کے پیکر میں ڈھلی اِس نورانی ،دور اندیش اور مردم شناس شخصیت نے اندازہ لگا لیا کہ ”سیب کی قیمت پوچھنے والا کوئی عام شخص نہیں ہے ” جواب دیا کہ بیٹا اِس سیب کی قیمت اتنی ہے کہ تم اس کی ادائیگی نہیں کر سکو گے ”لیکن دوسری طرف نوجوان ہر طرح کی قیمت ادا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا تو بھر پور اصرار پر مالک نے کہا کہ بیٹا اس سیب کی قیمت کی ادائیگی کی ایک ہی صورت ہے کہ تم ایک سال تک باغ کی رکھوالی کروگے نوجوان نے باغ کی رکھوالی شروع کر دی پورے دوسال گزرنے کے باوجود پھر بھی نو جوان کو باغ کے مالک نے گھر جانے کی اجازت نہ دی جب چند سال اور گزر گئے تو ایک دن نورانی صورت والے بزرگ نے کہا کہ ”بیٹا اب میں تم کو تمہاری پرخلوص محنت کا اجر اپنی بیٹی سے شادی کی صورت میں دینا چاہتا ہوں کیا تم مری بیٹی سے شادی پر رضامند ہو؟ میری بیٹی آنکھوں سے اندھی ہے ، دونوں ہاتھوں سے لولی اور کانوں سے بہری ہے ، دونوں پیروں سے لنگڑی اور زبان سے گونگی ہے۔

بلا اجازت سیب کھانے اور اُس کی معافی کے لیے طویل مسافت طے کرنے والے اُس نیک سیرت نوجوان نے بلا توقف ”ہاں ” کہہ دی اور رضامندی کا اظہار کر دیا اور وقت مقررہ پر اُس نوجوان کی شادی ہو گئی تو بزرگ نے فرمایا کہ” بیٹا اب یہ گھر ، باغ اور کل جائیداد میری نہیں بلکہ تمہاری ہے ” نوجوان جب گھر کے اندر داخل ہوا تویہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا ،گویا وہ دنیا کی سجی سجائی دُلہن نہیں بلکہ جنت کی کسی حُور کو دیکھ رہا تھا ، چاند جیسا چہرہ ، چشم غزالاں ، شیریں زباں ، ہر عضو موزوں اور متناسب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیک سیرت نوجوان نے اپنے مالک کے بیان اور حقیقت حال میں زبر دست تضاد پایا تو فوراََ کمرے سے باہر نکل آیا اور رات الگ گزاری ، صبح ہوتے ہی نوجوان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات والی صورتحال بیان کرڈالی اور عرض کیا کہ آپ نے جو حلیہ بتایا تھا میں نے گھر کے اندر جس مجسمہ حسن و جمال کو دیکھا اس میں تو بڑا فرق ہے ، آخر یہ راز کیا ہے؟۔

مالک نے بہت ہی نرم اور شیریں لہجہ میں جواب دیا ”بیٹا میں نے جو کچھ کہا تھا اور تم نے جو کچھ دیکھا ، حقیقت میں دونوں ہی سچ ہیں ،بات یہ ہے کہ اُس لڑکی نے کبھی بھی خلاف شریعت بات نہیں کی اس لیے وہ گونگی ہے ۔۔۔۔اپنے کانوں سے کوئی فحش گفتگو نہیں سنی اس لیے وہ بہری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی بھی اپنی آنکھوں سے کسی غیر محرم کو نہیں دیکھا اس لیے وہ اندھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا اس لیے وہ لولی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی بھی جانب معصیت اپنے پیروں سے چل کر نہیں گئی اس لیے وہ لنگڑی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس مقدس ، نیک سیرت ، سیرت ِ عائشہ و فاطمہ رضی اللہ عنھما کے سانچے میں ڈھلی خاتون کا نام فاطمہ اُم الخیر بنتِ عبد اللہ صومعی تھا اور اُس پاکیزہ سیرت ، رزقِ حلال کھانے والے نوجوان کا نام سید ابو صالح موسیٰ بن عبد اللہ تھا لہذا بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ جب ماں سیرت عائشہ و فاطمہ کے سانچے میں ڈھلی ہو اور باپ محض بلا اجازت ایک سیب کھانے کی پاداش میں لمبی مسافت طے کر کے طویل ترین ”نوکری ” سر انجام دے تو پھر اُنہیں مقدس خاتون اور پاک باطن نوجوان کی ازدواجی زندگی کے چمن لالہ زار سے ایک خوبصورت اور عطر بیز پھول کھِلا جس نے اپنی خوشبوئے روحانیت و معرفت سے سارے عالم کومہکا دیا جو غوثیت و قطبیت کا تاجدار بن کر آسمان ولایت پر آفتاب مہتاب کی طرح جگمگایا جسے دنیا میں غوث ِ صمدانی ، قندیل نورانی ، شہباز لا مکانی حضور شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانا اور پہچانا جا رہا ہے روحانی دنیا میں آپ کو غوث ِ اعظم کے نام سے بھی پکا را جاتا ہے۔

Dome of Sheikh Abdul Qadir Jilani

Dome of Sheikh Abdul Qadir Jilani

حضور غوث ِ اعظم کی ولادت
حضور غوث ِ اعظم کی ولادت کے حوالے سے متعدد روایات بیان کی گئی ہیں جن میں معتبر روایت یہی ہے کہ حضور غوث ِ اعظم یکم رمضان المبارک جمعة المبارک 470ہجری بمطابق 1075ء میںگیلان میں پیدا ہوئے ایک روایت یکم رمضان المبارک 471ہجری بوقت ِشب کِتم عدم سے منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوئے ، پہلی روایت کا ماخذ شیخ ابو نصر صالح کا بیان ہے اور انہی کے بیان کی سند لے کر علامہ ابنِ جوزی نے اپنی تصنیف ”المنظم ” میں اور شریف مرتضیٰ زبیدی نے ”تاج العروس ” ”شرح قاموس ” میں آپ کا سالِ ولادت 470ہجری تحریر کیا ہے اور دوسری روایت کے مستند راوی شیخ ابو الفضل احمد بن صالح شافعی جیلی ہیں دو نوں تاریخوں کے حق میں بکثرت روایات ہیں اگرچہ ہماری تحقیق کے مطابق کثرت ِ آراء دوسری روایت یعنی ٰ 471ہجری کے حق میں ہے گیلان کو عرب کے لوگ مُعرب بنا کر جیلان بھی کہتے ہیں یہ طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے جو ملک عجم میں واقع ہے اسی علاقہ میں نیف نام کے ایک قصبہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی یہ علاقہ بغداد مقدس سے سات میل کی دوری پر ہے علامہ امام ابو الحسن الشطنوفی نے اپنی تصنیف ”بہجة ُ الاسرار ” میں اس علاقہ کا ذکر کیا ہے۔

بغداد مقدس اور مدائن کے قریب بھی جیل یا گیل نام کے دو قصبے پائے جاتے ہیں لیکن ان دو نوں قصبوں کو حضرت غوث ِ اعظم کا مولد باور کرنا درست نہیں کیونکہ یہ ملک عراق سے متعلق ہیں اور حضرت غوثِ اعظم کا عجمی ہونا متحقق ہے اور امام یافعی المتوفی 768 ھ اپنی تصنیف ”مرآ ة الجنان و عبرة الیقظان ” میں لکھتے ہیں کہ ” حضور غوث الاعظم سے جب کسی نے آپ کے سال ِ ولادت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا مجھ کو صحیح طور پر تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس سال میں بغداد آیا تھا اسی سال شیخ ابو محمد رزق اللہ ابن عبد الوہاب تمیمی کا وصال مبارک ہوا اور یہ 488ھ تھا اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی ”اس حساب سے آپ کا سنِ ولادت 470ھ ہوا اس کے بعد امام یافعی نے شیخ ابو الفضل احمد بن صالح جیلی کا قول نقل کیا ہے کہ ”حضرت کی ولادت 471ھ میں ہوئی اور آپ 488 ھ میں بغداد تشریف لائے تھے امام یافعی نے حضور غوث الاعظم کے اس قول سے کہ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی یہ سمجھا کہ آپ اٹھارہ سال پورے فر ما چکے تھے اور شیخ ابو الفضل نے یہ سمجھا کہ ابھی آپ اٹھارہ سال ہی میں تھے 470ھ اور 471ھ میں وجہ اختلاف بھی یہی ہے جو درج بالا سطور میں بیان کی گئی ہے اور اسی اختلاف کی بنیاد پر بعد کے مورخین میں سے کسی نے امام یافعی کے قول کے مطابق اور کسی نے شیخ ابو الفضل احمد کے خیال کے مطابق حضور غوث الاعظم کا سنِ ولادت متعین کیا ہے۔

اس طرح کسی نے اپنی ریسرچ کے مطابق ولادت کی تاریخ لفظ عشق سے نکالی ہے اسے بھی ہم درست تسلیم کر لیتے ہیں اور جس کسی نے لفظ عاشق کو مادہ تاریخ قرار دیا ہے اسے بھی صحیح مانا جاتا ہے اور یہ بات بھی کس قدر دلچسپ اورحیران کُن ہے کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اس قدر احترام تھا کہ حضور شیخ عبد القادر گیلانی رمضان بھر دن میں سورج غروب ہونے تک قطعی دودھ نہیں پیتے تھے، ایک مرتبہ مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے 29شعبان کو چاند کی رویت نہ ہوسکی لوگ تردد میں تھے ، لیکن اس مادر زاد ولی نے صبح دودھ نہیں پیا ، با لآ خر تحقیق سے معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان المبارک ہے آپ مادر زاد ولی تھے آپ کی امی جان اُم الخیر فاطمہ کبار خواتین عارفات و صالحات سے تھیں انہیں کشف کی نعمت حاصل تھی عجب بات یہ ہے کہ جب حضور سیدنا غوث الاعظم متولد ہوئے تو آپ کی امی جان کی عمر ساٹھ سال تھیں جسے سنِ ایاس سے تعبیر کرتے ہیں اس عمر میں پیدائش کا نظام فطرتاََ مو قوف ہو جاتا ہے بس اللہ تبارک و تعا لیٰ ہی کی قدرت ہے کہ اُس نے اس عمر میں اُمت کی راہنمائی کے لیے اپنے ایک خاص بندہ کو جیلان یا گیلان کی دھرتی پر پیدا فر مایا۔

Ghaus-ul-Azam

Ghaus-ul-Azam

اسم مبارک
اسم ِ گرامی عبد القادر تھا،کُنیت آپ کی ابو محمد تھی ، آپ کو محیٰ الدین ، محبوبِ سبحانی ، غوث الثقلین اور غوث اعظم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے آپ کے والد گرامی کا اسم ِ مبارک سید ابو موسیٰ صالح جنگی دوست ۔۔۔۔جنگی دوست کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے بے پناہ شیدائی تھے اور نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے مردِ دلیر تھے ، حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ کا اسم ِ گرامی فاطمہ اور کُنیت اُم لخیر تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ اپنی کُنیت کی زندہ اور عظیم مثال تھیں جبکہ لقب اُمَتہُ الجبار تھا ، سرکارِ بغداد نجیب الطرفین سید ہیں والد ماجد کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی ہیں آپ کا معزز سلسلہ نسب والد گرامی کی طرف سے گیارا واسطوں سے اور بواسطہ والدہ محترمہ چودہ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ تک پہنچتا ہے والد گرامی کی طرف سے حضور غوثِ اعظم شیخ عبد القادر گیلانی بن سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سید ابو عبد اللہ بن سید یحیٰ الزاہد بن سید محمد بن سید دائود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبد اللہ بن سید موسیٰ الجون بن سید عبد اللہ المحض بن سید امام حسن بن سید امام حسن المجتبیٰ بن سیدنا شیر ِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ ہے (النجوم الزھرہ ، ص 371،جلد 5)۔

والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا نسب سیدہ اُم الخیر فاطمہ بنتِ السید عبد اللہ صومعی الزاہد بن سید ابو جمال الدین محمد بن الامام السید محمود بن الامام سید ابو العطا ء عبد اللہ بن امام سید کمال الدین عیسیٰ بن امام السید علائو الدین محمد الجواد بن امام سید علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام سید نا جعفر صادق بن سیدنا امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب شیر ِ خدا رضی اللہ عنھم اجمعین (سفینة الاولیاء مصنف داراشکوہ ص، 43)۔

حلیہ مبارک حضرت سیدنا غوث الاعظم
حضرت سیدنا غوث الاعظم نحیف البدن ، قد میانہ ، سینہ مبارک فراخ ، ریش مبارک دراز اور حسن و جمال میں اضافہ کا باعث ، دور و نزدیک میں سماعت یکساں ، کلام سرعت تاثیر و قبولیت کا جامع ،جمال با کمال ، ایسا کہ سنگ دل بھی دیکھتا تو اتنا نرم ہو جاتا اور اس پر خشوع و خضوع کی کیفیت نما یا ں ہوتی ، چہرے کو گھیرے ہوئے ، رنگ گندم گوں ، دونوں ابرو ملے ہوئے ، ابرو بلند ، بدن نازک ،ایسے جیسے گلاب کے پھول کی پنکھڑی ہو ، پیشانی کشادہ اور اُس پر کبھی بھی خفگی یا اظہار ِ ناراضی کے باعث بل نہیں دیکھے گئے ، لب شگفتہ ،جیسے صندل کی ڈلی ، چہرہ روشن و تابندہ ،ایسا جیسے نور کا ہالہ ہو ، ذی وقار ، نرم گفتار ، کم گو اہل علم میں ہمیشہ ممتاز اور منفرد تھے آپ کو دیکھنے والے پر رُعب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ، جلال و جمال کی کیفیتوں سے مزین تھے ، شرم و حیا کا پیکر ، نظافت و لطافت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ، چلتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے بادِ صبا کا ایک خوشگوار جھونکا ، آپ کی ذات روحانیت کے جھلستے صحرا میں پیاسی انسانیت کے لیے ”آبِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی تھی جہاں سے رو حانیت اور علم کے پیاسے علم و حکمت کے کٹورے سیر ہو کر پیتے۔

Ramzan Kareem

Ramzan Kareem

حضور غوث پاک کا بچپن
حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ ”پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تما م مہینوں میںآپ دودھ پیتے تھے لیکن جوں ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آتا آپ دن کو سورج غروب ہونے تک دودھ کی بالکل رغبت نہیں فرماتے تھے خواہ کتنی ہی دودھ پلانے کی کوشش کی جاتی ہر بار آپ کی والدہ محترمہ آپ کو دودھ پلانے میں ناکام رہتیں
غوثِ اعظم متقی ہر آن میں
چھوڑا ماں کا دودھ بھی رمضان میں

آپ کا بچپن نہایت پا کیزہ تھا ،بچپن ہی سے اللہ تعا لیٰ نے اپنے اس برگزیدہ بندے پر اپنی روحانی و نورانی نوازشات اور فیو ضاتِ الہیہ کی بارش کا نزول شروع کیا ہوا تھاچنانچہ حضور غوث پاک اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فر ماتے ہیں کہ ” عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی کہ لہو و لعب سے باز رہو ، جسے سن کر میں رک جایا کرتا تھا اور اپنے گردوپیش پرجو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا نہ دکھائی دیتا تھا جس سے مجھے وحشت سی معلوم ہوتی تھی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش میں چھپ جایا کرتا تھا ، اب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکر مجھے متنبہ کر دیتی ہے کہ تم کو اس لیے نہیں پیدا کیا کہ تم سویا کرو ” ایک اور جگہ آپ فر ماتے ہیں کہ ” بچپن کے زمانہ میں غیر آبادی میں کھیل رہا تھا بتقاضائے طفلی ایک گائے کی دُم پکڑ کر کھینچ لی فوراََ اس نے کلام کیا !” عبد القادر ! تم اس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو ” میںنے فوراَاسے چھوڑ دیا اور دِل کے اوپر ایک ہیبت سی طاری ہو گئی”۔

اور آپ کا یہ واقعہ بھی بہت عجیب ہے کہ جب آپ چار سال کی عمر کوپہنچے تو آپ کے والد محترم سیدنا شیخ ابو صالح موسیٰ آپ کو رسم ِ بسم اللہ خوانی کی ادائیگی کے لیے ایک مکتب میں لے گئے اور اُستاد کے سامنے آپ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اُستاد نے کہا ! پڑھو بیٹے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم ” آپ نے ”بسم اللہ ”شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ ”الم ” سے لے کر مکمل اٹھارہ پارے زبانی پڑھ ڈالے اُستاد نے حیرت سے پوچھا کہ یہ سب تم نے کیسے پڑھا اور یاد کیا ؟ فرمایا !والدہ محترمہ اٹھارہ پاروں کی حافظہ ہیں اور اکثر و بیشتر وہ اِن پاروں کی تلاوت کرتی رہتی ہیں جب میں شکم مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ پارے سنتے مجھے یاد ہوگئے تھے ” اور آج اس بات کو سائنس بھی ثابت کر چکی ہے کہ ماحول انسانی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے امریکہ کے سائنس دانوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے 30حاملہ عورتوں کا چنائو کیا ، 15عورتوں کوبچوں کی ولادت تک ایسے ماحول میں رکھا گیاجہاں پر 24گھنٹے میوزک بجتا رہتا تھا اور 15عورتوں کو ایسا ماحول فراہم گیا جہاں پر 24گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہتی تھی اب جب بچوں کی ولادت ہو ئی تو جیسا کہ رونا بچوں کی فطرت میں شامل ہے مگر جب وہ مائیں جن کو دوراں حمل قرآن پاک کی تلاوت سنائی جاتی تھی اب رونے والے بچوں کو قرآ ن پاک کی تلاوت سنا دی جاتی تو وہ رونا بند کردیتے تھے اور جن مائوں کو موسیقی کا ماحول مہیا کیا گیا تھا اب اُن کے بچے جب روتے تو اُن کا دِل موسیقی سے بہلایا جاتا تو وہ رونے والے بچے خوش ہو جایا کرتے تھے اس سے ثابت ہوا کہ ماحول اثر انداز ہوا کرتا ہے اور وہ بچے جن کی پیشانی پر اللہ تعا لیٰ بچپن ہی سے ولایت نقش کر دے وہ تو اور زیادہ ماحول کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

Islam

Islam

جن کی والدہ محترمہ اُ ٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے چلتے پھرتے قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائیں بلند فر مانے والی ہوں اور جن کے والد محترم اس قدر حساس اور پاکیزہ سیرت کے حامل ہوں تو پھر اُن کی گود سے غوثِ اعظم ایسی شخصیات ہی جنم لیتی ہیں کیونکہ مان جس قدر عظیم ہوتی ہے بیٹا بھی اُس قدر عظمت کی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے ماں اگر راستی بی بی تھی تو بیٹا بھی ”سلطان العارفین ” ماں اگر زاہدہ تھی تو بیٹا بھی ”گنجِ شکر ”ماں اگر تہجد گزار تھی تو بیٹا بھی ”داتا گنج بخش ”ماں اگر عابدہ تھی تو بیٹا بھی ”نوشو گنج بخش ” ماں اگر سیرت عائشہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی تو بیٹا بھی ”مجدد الف ثانی ” ماں نے اگراپنے آپ کو سیرت فاطمہ کے پیکر میں ڈھالا ہوا تھا تو بیٹا بھی ”معین الدین اجمیری ” تھا مقدس اور نور کے سانچے میں ڈھلی حضرت بی بی فاطمہ جیسی ماں اگر طیبہ ، طاہرہ ، صادقہ ،آمنہ تھی تو پھر اُن کی مقدس ، پاکیزہ اور مطہر گود مبارک سے بیٹا بھی امام عالی مقام ایسا پیدا ہوتا ہے جو میدان ِ کرب و بلا میں بہتر پاکیزہ تن شہید کرا کے اور خود مرتبہ شہادت پر فائز ہونے کے بعد نیزے کی انی پر بھی قرآن ِ پاک کی تلاوت سنا رہا ہوتا ہے۔

حصول ِ علم کے لیے بغداد مقدس روانگی
حضرت غوث الاعظم نے اپنے آبائی قصبے جیلان ہی میں قرآن پاک ختم کر لیا تھا اور چند ایک دینی کتابیں بھی پڑھ ڈالی تھی اور والد محترم حضرت ابو صاح موسی ٰ جنگی دوست کے وصال کے بعد آپ نے گھر کے امور میں اپنے آپ کو مصروف کر لیا تھا اور گھریلو امور سے فراغت کے بعد آپ کو جتنا وقت بھی میسر آتا آپ اپنی امی جان کی خدمت بجا لاتے تھے اور ہمیشہ امی جان کے نورانی اور مصفیٰ و مزکیٰ چہرے کو پیار سے دیکھا کرتے تھے کیونکہ آپ نے یہ حدیث مبارکہ سُن رکھی تھی کہ ”ماں کے چہرے کو ایک دفعہ پیار سے دیکھنا مبرور حج اور عمرہ کا ثواب ملتاہے ”زندگی کے روزو شب اسی طرح گزرتے رہے ایک دن آپ 9ذی الحجہ یوم ِ عرفہ کو اپنی زمین پر کام کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو اُس جگہ آپ نے ہاتف غیبی کی طرف سے ایک آواز سُنی بلکہ بعض نے لکھا ہے کہ آپ اپنے بیل کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھے اور اس پر قابو پالیا تو وہ زبانِ حال سے یوں گو یا ہوا ”ےَا عَبدَ القَادِرِ مَا لِھَذَاخُلِقتَ”اے عبد القادر تو اس کام کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے ” جب یہ خوبصورت آواز حضور غوث الاعظم کے کانوں میں پڑی تو آپ اسی وقت واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے اور سیدھے مکان کی چھت پر تشریف لے گئے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی وقت آپ کی نظروں کے سامنے سے حجابات اُٹھا دیے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے میدان ِ عرفات ہے اور آپ کھلی آنکھوں کے ساتھ روح پرور اجتماع دیکھ رہے ہیں اس واقعہ کے بعد آپ کے لیے مزید کام کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ آپ کسی اور مقصد کے لیے اس دنیا میں پیدا کیے گئے تھے آپ کی ابتدائی حالت محنت ، مشقت ، ریاضت و مجاہدات میں گزری آپ فر ماتے ہیں ”مجھ پر ایسی ایسی سختیاں گزری ہیں اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا جب مجھ پر سختیوں کا ہجوم ہوتا تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور اس آیت کریمہ کا ورد کرنے لگتا ”فَاِنَ مَعَ العُسرِ ےُسرَا اِنَ مَعَ العُسرِ ےُسرَا ”بیشک سختی کے بعد آسانی ہے بیشک سختی کے بعد آسانی ہے ”تو مجھے تمام تکلیفیں بھول جاتیں اور سکون محسوس ہونے لگتا
گزر کر دشت و صحرا سے یہاں گلزار آتے ہیں
کہ شاخِ گُل میں پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں

ALLAH

ALLAH

ایک دن آپ نے اپنی والدہ محترمہ کی بار گاہ میں عرض کردیا کہ میںاللہ تبارک و تعالیٰ کے دین ِ مبین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور جس کے لیے علم دین سیکھنا ضروری ہے اور اِن دنوں بغداد علوم دینیہ کے مرکز کی حیثیت سے مشہور ہے اس کے علاوہ اور کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں میں دینی علوم کے حصول کی پیاس بجھا سکوں ، آپ کی والدہ صاحبہ نے جب آپ کا یہ جذبہ شوق دیکھا تو آپ کو بخوشی اجازت دے دی گئی حالانکہ ایک ماں کے لیے اپنے لختِ جگر کو اس طرح دیار غیر میں بھیجنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر آپ کی امی جان نے بہت بڑی قربانی دے کر آپ کو نیک تمنائوں اور دُعائوں کے ساتھ رُخصت کیا اور الوداع کہتے ہوئے آپ کی امی جان نے ایک نصیحت بھی کی جو اکثر مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے سے جُدا کرتے وقت کرتی ہیں فر مایا ”بیٹا جھوٹ کبھی بھی نہ بولنا اور سچ کا دامن ہمیشہ پکڑے رہنا ”اور جاتے وقت زادِ راہ کے طور پر 40دیناربھی آپ کی قمیض کے اندر سی دیے ، دورانِ سفر آپ کے قافلہ کو ڈاکوئوں نے گھیر لیا اور قافلہ میں موجود ہر شخص کو لُوٹ لیا گیا جب ایک ڈاکو آپ کے پاس آیا اور پوچھا آپ کے پاس کیا ہے ؟تو آپ نے اپنی امی جان کی نصیحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بے ساختہ فر مایا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں، تلاشی کے دوران آپ کی قمیض میں سلے ہوئے چالیس دینار مل گئے تو اس واقعہ پر ڈاکو آپ کو اپنے سردار ڈاکو کے پاس لے آیا اور سارا واقعہ سنا دیا۔

واقعہ سُن کر سردار ڈاکو نے کہا کہ ”آپ جھوٹ بول کر اپنے چالیس دینار بچا سکتے تھے مگر آپ نے سچ بول کر اپنے چالیس دینار گنوا دیے ہیں ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کونسی بات تھی جس کی وجہ سے آپ نے سچ کا دامن نہیں چھوڑا ؟تو سچائی کا پیکراور حصولِ علم کے جذبات سے سرشار کم عمر یہ چھوٹا سا بچہ بول پڑا اور کہا کہ ” میری امی جان نے مجھے الوداع کہتے ہوئے فر مایا تھا کہ بیٹا کبھی بھی جھوٹ مت بولنااور سچ کا دامن ہمیشہ تھامے رہنا ” یہ روح افزا اور دلوں کو جھنجھوڑنے والی بات سُن کر سردار ڈاکو کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ڈاکوئوں کے حصار میں بھی ماں کے فرمان پر عمل کر رہا ہے اورایک میں ہوں جواپنے رب کے فرمان کی تعمیل نہیں کر رہا اور ناجائز طور پر معصوم لوگوں کولُوٹ کھسوٹ کے ذریعے تنگ کر رہا ہوں بس اسی چیز نے اس کے دل پر چوٹ کی اور اس کے ویران دِل کی دنیا جگمگانے لگی اور اُسی وقت اُس نے اپنے گزشتہ گناہوں کی دنیا سے تائب ہونے کا فیصلہ کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام ڈاکوئوں نے اپنے سردار ڈاکو کی پیروی کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے رب تعالیٰ کے حضور معافی مانگ لی اور آپ کے دستِ حق پرست پر تائب ہونے والا یہ پہلا قافلہ تھا اور اُسی طرح یہ سلسلہ چل پڑا۔

لوگوں نے آپ سے دریافت کیا آپ کو اپنے مقامِ ولایت کا کب پتہ چلا ؟ آپ نے فر مایا جب میں مدرسہ میں کلاس میں جاتا تو ایک شخص آواز دیتا ”افسحو ا لولی اللہ ” اللہ کے ولی کے لیے جگہ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔اس وقت میں دس سال کی عمر کا تھا نیز غائب سے فرشتے لوگوں میں یوں اعلان کیا کرتے ۔۔۔۔۔۔”سیکون لہ شان عظیم یعطیفلا یمنع و یتمکن فلا یعجب و یقرب فلا یمکشہ ”لوگو !عنقریب اسے شانِ عظیم عطا کی جائے گی بلا روک ٹوک اسے مراتب سے نوازا جائے گا بلا حجاب قربت کی منازل پائے گا بغیر کسی تردد کے”۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی