تحریر:امتیاز علی شاکر: لاہور تنگیِ حالات نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس سال قربانی نہ کی جائے پرمولوی صاحب کے بیان نے قربانی ابراہیم علیہ اسلام کی یاد تازہ کی تو دل سے آواز آئی کہ سارا سال تیرے معاملات چل سکتے ہیں تو پھر سنت ابراہیمی کیوں پوری نہیں ہو سکتی ؟بچوں کی عیدی، کپڑوں، جوتوں کا بجٹ لے کر بکرا خریدنے بکرا منڈی پہنچے جہاں ہزاروں کی تعدادامیں بکرے دیکھ کر دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ سارے بکرے خرید کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں پر جیب نے فوری طور پر دل کی خواہش کو رد کرتے ہوئے صدا دی تیرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اس لئے صرف ایک بکرا خریدنے کی کوشش کر۔ سو ہم نے باقی تمام خواہش کے قبرستان میں ایک اور خواہش دفن کردی۔ ایک بکرا خریدنے کی کوشش کرنے میں مصروف ہوگئے۔
مولوں صاحب نے فرمایا تھاکہ قربانی کیلئے صحت مند ،بے داغ اور سب سے خوبصورت جانور کا انتخاب کرنا چاہئے ۔منڈی میں موجود بکروں میں سب سے خوبصورت بکرے کی قیمت 3لاکھ سے اُوپرنکلی جبکہ اپنی جیب میں تو بمشکل 15ہزارتھے سو ہم نے سب سے خوبصورت بکرا خریدنے کی تمنا بھی وہیں دفن کردی جہاں سارے بکرے خریدنے کی تھی اوراپنے بجٹ کے مطابق بکرا خریدنے کا ارادہ کرتے ہوئے تلاش شروع کردی ۔تقریبا ساری منڈی گھومنے کے بعد ایک ایسا بکرا ملا جو بجٹ کے قریب تھا پروہ بھی قریب تھا بجٹ میں نہ تھا ۔بکرے کے مالک کو منانے کی بہت کوشش کی کہ وہ بکرا 15ہزار میں دے دے پر وہ اپنے بکرے کو 18ہزار سے کم فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔
بہت اسراپر بولا بھائی آپ بکرے سے پوچھ لو وہ 15ہزار میں قربان ہونے پر تیار ہے تو لے جائو ورنہ میں تیرے ساتھ مزید بحث نہیں کرسکتا ۔بکرے والے سے سوال کیا جب تم انسان ہوکر میری بات نہیں سمجھ سکتے تو بے چارہ بے زبان بکرا کہاں سمجھے گا؟بولا بھائی قربان تو بکرے نے ہی ہونا ہے پھر بھی اُسے بولنے کا کوئی حق نہیںاتنی دیرمیں بکرا یوں بولا،مییںمییںمیییں، جیسے مجھے مخاطب کرکے کہہ رہا ہو ۔ارے ابھی عید میں چند دن باقی ہیں 15ہزار میں قربان ہونے کی حامی بھر بھی لوں تب بھی تیرے لئے مشکل ہوجائے گی کیونکہ تیرے پاس صرف 15ہزار ہیں جومیرے مالک کودینے کے بعد تو کنگال ہوجائے گا جبکہ میرا ایک دن کا معمولی سا چارہ بھی آج کل تین سے چار سو روپے کا ملے گا۔اور تم اپنی حالت دیکھو،تمہیں دیکھ کرتو لگتا ہے کہ یہ 15ہزار بھی کسی سے مانگ کرلائے ہو۔
Bakra Eid Qurbani
بکرے کی بات سن کراپنی حالت پر غور کیاتو واقع ہی میری حالت بہت بُری ہوچکی تھی جانور منڈی میں دھکے کھاتے تین چار گھنٹے گزر چکے تھے ۔کپڑوں جوتوں پر بے حد گرد جم چکی تھی سر میں ہاتھ پھیرا تو بالوں میں سے گرد دھویں کی مانند اُڑنے لگی ۔ بکرے سے التجاء کی اورکہا بکرا بھائی مجھے سنت ابراہیمی پر عمل کرنا ہے اور میرے پاس صرف 15ہزار ہیں ساری منڈی گھوم لی تیری قیمت سے کم قیمت والا کوئی بکرا نہیں ملااس لئے تیری بڑی بڑی مہربانی ہوگی تو 15ہزار میں مان جا۔بکرا بولا پہلے تو میں تیرا بھائی نہیں ہوں اور تو اپنے بھائی کی قربانی کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو بکرا منڈی کیالینے آیا ہےَ؟جااپنے گھر عید پر اپنے بھائی کی قربانی کرکے سنت ابراہیمی پر عمل کر،میں منڈی میں سب سے کم قیمت بکرا ہوں اس لئے مجھے غریب سمجھ کر قربان کرنا چاہتے ہو؟جائو جائو اب تم چاہئے 18کی بجائے 20ہزار بھی دو تب بھی تیرے ساتھ نہیں جائوں گا،جاکسی اور بکرے سے بات کر اور ہاں سن آئندہ کسی بکرے کو بھائی مت کہنا ورنہ سارے بکرے میری طرح شریف نہیں ہوتے ۔میں نے بکرے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے اب بھائی نہیں کہوں گاتم مان جائو۔
بکرا بولا معاف کیا پرتم ایک بار مجھے بھائی کہہ چکے ہو اس لئے میں تمارے ساتھ نہیں جائوں گا ،تم انسان اپنے بھائیوں کے ساتھ بکروں سے بھی بُرا سلوک کرتے ہو،انسانوں کی دنیا میں انسان کی کوئی قیمت نہیں پر میں بکرا ہوں اور میری ایک قیمت ہے ،دیکھواپنے آپ کو کیا تم نے کبھی اتنے اخلاق کے ساتھ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بات کی ہے جتنی میرے مالک اور میرے ساتھ کررہے ہو؟بکرے کی حقائق پر مبنی باتیں سن کر میرے اندر سکت نہ رہی کہ میں مزید بکرا تلاش کرتا سو چُپکے سے گھر چلا آیا۔ بکرے کی سچی باتیں سن کر پیدا ہونے والا احساس شرمندگی شاید کبھی ختم نہ ہوپائے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے کی قدر نہیں کرتے اور اپنے بھائیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔پہلے قربانی عید پر چاروں طرف جانوروں کاخون دیکھ کرہم خوش ہواکرتے تھے کہ مسلمانوں نے بڑی قربانیاں کی ہیں پر اب تو سارا سال ہی خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں وہ بھی انسانی خون کی۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بے شمار نعمتیں پیدا فرمائی جس کو ساری مخلوقات سے افضل بناکر دنیا میں بھیجا اور اشرالمخلوقات کا شرف بخشا وہ انسان اپنی اصلیت کو بھول کر جانوروں کی طرح زندگی بسر کررہا ہے یہاں تک کہ اب تو بکرے بھی انسان کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ بکرے ہیں انسان نہیں۔افضل ہونے کے باوجود انسان کی کوئی قدروقیمت نہیں اور بکروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
بکروں کی قدر وقیمت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ کاش میں بھی بکرا ہوتا تو میری بھی کوئی قیمت ہوتی ،قربانی عید پر مجھے بھی کوئی خریدنے آتا ۔انسان کا تو فروخت ہونا بھی ممکن نہیں ،عمرگزری گلے میں برائے فروخت کا کارڈ لٹکائے پھرتے ہیں پر بجائے قیمت ملنے کہ لوگ پوچھتے ہیں ،تمہیں خریدنے کا کیا فائدہ پہلے اپنی روٹی پوری نہیں ہورہی تو تمہیں کہاں سے کھلائیں گے؟اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی عید کی خوشیاں حقیقی طور پر منانے کی توفیق و طاقت عطا فرماے ،اہل وطن کو راقم کی طرف سے دل کی گہرائیوں سے عید کی حقیقی خوشیاںمبارک ہوں۔عید کے مبارک موقع پر اپنے اردگردبسنے والوں خاص طور غریبوں اور مسکینوں کو اپنی خوشیوں میں شامل رکھئے گاتاکہ کل روزقیامت اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ شرمندہ نہ پڑے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر: لاہور imtiazali470@gmail.com