تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی میل جول، محبت، دوستی، سب ایک عجیب و غریب طلسماتی جذبہ مانا جاتا ہے اگر یہ طاقت بن جائے تو فقیر کو بادشاہ سے ٹکر لینے کا حوصلہ دیتی ہے اور اگر یہ کمزوری بن جائے تو زر و جواہرات اور ناز و نعم میں پلے شہزادے کو جنگلوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ محبت کبھی نہیں مرتی، دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی، کبھی یہ بارش کی طرح برستی ہے تو کبھی صحرا کی تپتہ ریت میں پھول بھی کھلا دیتی ہے۔ محبت و دوستی وہ لطیف احساس ہے جو ہر خاندان میں موجود ہے، کسی نے کیا خوب الفاظوں کا پیراہن کہا ہے کہ ” پتہ نہیں لوگ نفرت کرنے کے لئے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں مجھے تو محبت کے لئے بھی زندگی مختصر لگتی ہے۔” بے مثال کردار کی مالک عورت پر آج مختلف حربوں کے ذریعہ ظلم و تشدد کیا جاتا ہے ۔ اسے کہیں مادرِ رحم میں ہلاک کیا جاتا ہے تو کہیں پیدائش پر اسے منحوس قرار دینے کی بے ہودہ رسوم بھی سماج میں رائج ہے۔ بیٹ کی پیدائش پر باپ سے لے کر دادا، دادی اور ہر کوئی ناراض دکھائی دیتے ہیں جبکہ محسنِ انسانیت سرور کائنات ۖ کا ارشادِ پاک یہ ہے کہ جس شخص کی دو بیٹیاں ہیں اگر وہ ان کی تعلیم و تربیت اچھی طرح کرے شادی کر دے تو وہ جنتی ہے۔ آپ ۖ نے بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے۔کاش! لوگ یہ سب کچھ سمجھ لیں تو ان کی زندگی بھی خوشیوں اور شادمانیوں سے لبریز ہو جائے۔ بیٹی خدا کی رحمت ہوتی ہے ،مگر آج مسلم معاشرہ کا حال اس کے برعکس ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر خوشی منانے کے بجائے گھر کے افراد بالخصوص خواتین کے چہروں پر ناراضگی کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔ سماج میں بیٹی کو ایک بوجھ تصور کیا جا رہا ہے۔ بیٹی خدا کی رحمت ہے جس گھر میں بیٹی نہ ہو اس گھر کی مثال ویران کدہ سے کیا جاا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی پیدائش پر گھر میں رحمت و برکت اللہ رب العزت نازل کرتے ہیں۔
”خالد بن ولید کا یہ قول کس قدر سچی ہے کہ جب موت پکی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اور جب موت مقدر ہو جائے تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔ خدا کی عطاء کردہ زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مَر ہیں سکتا۔ ”بس یہی بات ذہن میں بٹھا لی جائے تو زندگی کے کافی غم دور ہو جائیں گے اور لوگ بے راہ روی چھوڑ کر اصل اور حقیقی کے زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔بس! معاملہ ہے صرف سمجھنے اور سمجھانے کا۔ اب جس کی جیسی سوچ؟ عورتوں کا کام ہر چیز کی صفائی کرنا ہوتا ہے۔ گھر کی ہر چیز صاف رکھنا وہ اپنا اوّلین فرض سمجھتی ہیں اور اس کو نبھانے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتیں۔ اپنے آپ کو سنوارنا، بچوں کو سجانا، صاف ستھرا رکھنا اور اپنے شوہر کی ہر ضرورت کو پورا کرنا ، ہر روز کا معمول ہے۔
Democracy
اپنے ہال و کچن کی اور صحن کی دیکھ بھال کرتے کبھی نہیں تھکتیں۔اپنے خاندان و رشتہ دار، پڑوسیوں کے حقوق اور سہیلیوں کی دل جوڑی، بچوں کی ہر فرمائش کے مطابق ان کی ہر چیز کی تمان کو پورا کرنے میں کبھی نہیں تھکتی۔ ہر کام کو بڑی خوش دلی سے پورا کرتی ہیں۔اپنے شوہر اور دیگر لوگوں کی پسندیدہ ڈش بنا کر کھلانے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ تو اس کا بدلہ انہٰں کیا مل رہا ہے۔ خود آپ ہی سوچیئے، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ آپ بیٹے ہیں تو ماں کی کتنی خدمت کر رہے ہیں؟ اگر بیٹی ہیں تو ماں کی کتنی فرمانبرداری کر رہی ہیں؟ اگر شوہر ہیں تو خدمت کے بدل آپ کتنی توجہ کر رہے ہیں؟ اگر آپ ساس ہیں تو آپ کی بہو کی خدمت کے بدل کتنی ممتا اُن پر لٹا رہی ہیں، اگر آپ سُسر ہیں تو کتنا رحم و کرم ان پر کر رہے ہیں اور اگر آپو دیور ہیں تو آپ کی بھابھی کا کتنا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر آپ نند ہیں تو کتنا بھابھی کے ساتھ ان کے سکھ دکھ میں ساتھ دے رہی ہیں، اگر آپ جیٹھ ہیں تو کیا آپ اپنے بڑے ہونے کا فرض ادا کر رہے ہیں؟ اگر آپ جیٹھانی ہیں تو کتنا آپ کی چھوٹی بہن سمجھ کر ان کی غلطیوں کو دَر گزر کر رہی ہیں۔ اگر آپ دیورانی ہیں تو کتنا باجی باجی کہہ کر ان کا باجہ تو نہیں بجوا رہی ہیں کیونکہ ایک خاندان میں اگر رہنا ہے تو آپ کا دل دریا ہونا پڑھے گا ورنہ روز روز جھگڑے اس گھر کا مقدر بن جائے گا۔ کاش! ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنا حق ادا کرے تو معاشرہ ہی سدھر جائے۔ ملک میں جمہوریت رائج ہے مگر آج بھی عورتوں کو اُن کا اصل مقام میسر نہیں، ووٹ ہر دور میں عوام ہی دیا کرتے ہیں اُن میں خواتین کا بھی ایک بڑا کردار رہتا ہے مگر کیا جائے کہ اُن کے درد کو سمجھ کر مسائل کو حل کرکے داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
فیصلہ تو ہو چکا ہے، دیکھنا اب بس یہ ہے کس کو بہتر مانتے ہیں، کس کو رَد کرتے ہیں لوگ وقت کی ہر چال کو پڑھ کر، دیا کرتے ہیں ووٹ اس طرح نظم جمہوری کی مدد کرتے ہیں لوگ
یہ بات تو واضح ہے کہ مسلمانوں کی قومی زندگی کو حقیقی خطروں کا سامنا ہے۔ ایک مشکوک اور بے یقین مستقبل کی طرف ملت کا سفر جاری و ساری تو ہے مگر کب کہاں کیا ہو جائے اس سے نہ وہ واقف ہیں اور نہ ہم۔ آئے دن کی سرد و گرم فضا، گہرے اور دورس نتائج کے حامل بڑے واقعات رہنمائوں کے شعور و ذہن پر کوئی نتیجہ خیز اور مفید اثر نہ ڈال سکے بلکہ ہر بڑے واقعہ کے بعد ان کا شعور اور ذہن پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدگیوں اور الجھنوں میں گرفتار نظر آتا ہے۔ فکر و فہم کے سانچوں کو تو عملی اور حقیقی شکلوں سے توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہے، پھر بھی یہ دیکھنے میں ضرور آتا ہے کہ مستقبل قریب کے لئے کوئی نیا سانچہ ہی تیار نہیں کیا گیا جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
عوام ہو ں یا کوئی اور اپنی اپنی زندگی میں ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق فیصلے ضرور کرتے ہیں اب فتح و شکست میں سے کوئی ایک ہی چیز ہی مقدر کا حصہ بن سکتی ہے۔ فتح مل جائے تو عوام الناس کی سمت سنور جائے۔ شاعری کی زبان میں مختصر کرتا ہوں کہ:
شکست و فتح مقدر ہے وَلے ائے میر! مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
ہماری پہلی بد قسمتی تو یہی رہی ہے کہ ہم فطرتاً جذباتی واقعی ہوئے ہیں مختلف عوامل اور اسباب کی بدولت ہمارے فکر و ذہن پر خوابوں کی گرفت ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے، اس مضمون میں کئی طرح کے مسائل کی نشاندہی کر دی گئی ہے، سیاسی بھی، خواتین کی بھی، اورکئی دوسرے بھی مگر پڑھنے کے باوجود ایسا لگتا ہے سب کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے مگر ایک بات تو سچ ہے کہ کوئی خواہ حقیقت سے آنکھیں چُرا کر خودکو بھی اور اہلیانِ وطن کو بھی تضحیک کا باعث بنا رہے ہیں۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ:جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔