کاش 65 مسلمان ملکوں کے حکمران بھی ریلی نکالتے

Charlie Hebdo Attack

Charlie Hebdo Attack

تحریر : میر افسر امان
پیرس میں فرانس کے ہفتہ وار جریدے چارلی ایبڈو پر حملے کے خلاف دنیا کے چالیس صلیبی ملکوں کے سربراہوںنے ریلی نکالی۔ اس ریلی میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ٹھیک ہے دہشت گردی چاہے کسی بھی مذہب کے افراد کریں وہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ بس دہشت گرد ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کرنے والوں کے نام اسلامی تھے جس کی وجہ سے ان کی شنا خت اسلام کے نام سے ہوئی۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے شکار ہونے والوں سے ہمدردی کرتے ہیں۔ اتوار کو پیرس میں لاکھوں افراد نے احتجاجی مارچ میں شرکت کی۔یہ احتجاج پیرس میں توہین آمیز خاکہ شائع کرنے والے ہفت روزہ چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے، جس میں ١٢ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔دو افراد نے نقاب پہنے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ فرار ہوتے ہوئے پولیس سے جھڑپ کے دوران دو اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔سیکورٹی اداروں نے فوراً سرچ آپریشن شروع کر دیا اور متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ اُدھر فرانس کے صدر نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اس فرانسیسی ہفت روزہ رسالے نے ٢٠١٣ء میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی کارٹون شائع کیے تھے۔جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدیدر دِ عمل کا اظہار کیا تھا۔مذکورہ رسالے کے دفتر پر ٢٠١١ء میں بھی ایسی ہی حملے کی کوشش کی گئی تھی۔

نہ جانے صلیبیوں کو کب سمجھ آئی گی کہ اللہ کے سارے پیغمبر سب دنیا کے لیے قابل احترام ہیں۔ اسلام میں تو پیغمبروں کو ماننے کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔کجا کہ کوئی ان کی شان میںگستاخی کرے۔ رشدی نام کے ملعون نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف زبان بازی کی اور کتاب چھاپی جس پر امام خمینی نے اس کے قتل کا فتوا جاری کیا تھا جو آج تک ایگزسٹ کرتا ہے۔ اس کو مسلم سوسائٹی سے خارج کر دیا گیا ہے اب تک چھپ کر زندگی گزار رہا ہے۔ اس طرح بنگال کی تسلیمہ نسرین نے بھی ایسی ہی گستاخی کی تھی ۔ ا س کو بھی مسلمان سوسائٹی سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ملالہ نے جب ان دونوں کے لیے اپنی کتاب میںکچھ کلمات لکھے تو وہ بھی اسلامی سوسائٹی میں ناپسندیدہ ٹھیری ہے۔ اسی حرکت کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اس سے نفرت کرتی ہے۔ چاہے صلیبیوں نے اسے نوبیل انعام سے ہی کیوں نہ نواز دیا ہو۔ صلیبی اپنی آزاد سوسائٹی میں ایسے لوگوں پر گرفت نہیں کرتی۔ اس لیے آ ئے دن یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں۔ آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری دنیا کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بناکر بھیجے گئے تھے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں نفرت اور اشتعال پھیلانا ہر گز آزادی اظہار خیال نہیںبلکہ مجرمانہ فعل ہے۔یورپ میں یہودیوں سے متعلق ہولو کاسٹ پر بات کر نا جرم اور قابل سزا ہے ۔ جب کہ اس میں مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ کیا مسلمانوں کو ہی اتنا کم تر سمجھ لیا گیا ہے کہ آئے دن اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جائیں۔ صلیبیوں کو یاد رکھنا چاہیے کی ڈیڑھ ارب مسلمانوں نے نہ پہلے ایسی گستاخی کو برداشت کیا ہے نہ آیندہ برداشت کرے گی۔ مسلمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا آخری دم تک پیچھا کرے گی انہیں چین سے نہیں رہنے دی گی۔

اس کے ساتھ ساتھ مختلف سمتوں سے اخبارات میں یہ خبریں بھی لگ رہیں ہیں کہ کہیں یہ بھی ١١٩ والی چال تو نہیں ہے۔ جس کی آج تک تحقیقات سامنے نہ آ سکیں۔اس واقعہ کے وقت بش نے کہا تھا کہ صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پھراس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے جادوگر یہودیصلیبی میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا میں کوئی بھی ناروا حرکت ہوتی ہے تو اسے مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ نیٹ پر بھی مسلمانوں کے خلاف مواد ڈال دیاگیا ہے ۔ وکی مسلم کے نام سے ایک پوسٹ نیٹ پر تھی۔اب نہ جانے کس نے ہٹا دی۔ اس کے ٦٠ صفحے کے فوٹو اسٹیٹ میرے پاس موجود ہیں جس میں کہیں بھی دنیا میں کچھ بھی ہوا ہو، کسی نے بھی کیا ہو، اسے مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ یورپ میں حجاب کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ مساجد پر حملے ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ عدالت کے اندر چاقو کے وار کر کے ایک حجاب پہنے مسلم خاتون کو ظلم کے ساتھ ایک صلیبی وحشی نے شہید کر دیا تھا ۔ کیا آزادی سے اپنی اپنی مذہبتہذیب پر عمل کرنے کا حق چھیننا بے انصافی نہیں؟ کیا صلیبی اسی کو تہذیب یافتہ سوسائٹی کہتے ہیں؟کیا ہی اچھا ہو کہ تمام دنیا اس بات پر متفق ہو جائے کہ کسی کی بھی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی اور دل آزاری کو ممنوع قرار دیا جائے۔

Islamic Countries

Islamic Countries

اسلامی ممالک کی تنظیم کو چاہیے کہ وہ دوسرے مذاہب کے سرکردہ لوگوں سے مل کر کوئی ایسی دستاویز تیار کریں جس میں ایک دوسرے کے عقائد اور پیغمبروں کے باہمی احترام پر مبنی ہو۔ اس مسودے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے اور اسے منظور کرایا جائے۔ کیا دنیا چین سے نہیںرہنا چاہتی؟ کیا دنیا میں انصاف صرف ترقی یافتہ قوموں کے لیے ہے کمزور قوموں کے لیے نہیں؟کیا اقوام متحدہ صرف صیلیبیوں کی لونڈی ہے یا سب کے لیے برابری کا احساس رکھتی ہے؟ اگر انصاف ہے تو سب کے لیے ہے۔ اسلام دشمن رسالے، جس نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ناروا خاکے چھاپ کرگستاخی کی اس کی مہذب دنیا کو اس کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ اس کے رد عمل میں اس پر حملہ ہوا۔ ١٢ افراد ہلاک ہوئے جو ایک دہشت گردی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ درست ہے۔

ان ہلاکتوں پر ان سے یکجہتی کے لیے جو چالیس ملکوں کے سربراہوں کی زیر قیادت لاکھوں نے ریلی نکالی وہ بھی درست ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ وہ اقوام متحدہ سے اس بات کامطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیوں کی گئی؟ اس کا جوب دیا جائے اور آیندہ گستاخی نہ کی جائے۔ کاش ڈیڑھ ارب آبادی والے ٦٥مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اپنے پیغبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ریلی نکالتے! اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام سے اظہار یک جہتی ہوتا۔ مل بیٹھ کر اس کی پلاننگ کرتے۔ اور دنیا پر واضع کرتے کہ ہم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے۔

ہم کبھی بھی ایسی گستاخی اور توہین آمیز خاکے برداشت نہیں کریں گے۔ اگر ایسی حرکتیں نہ روکی گئیں تو پھر ایسے گستاخی کرنے والوں کو نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کو بھر پور احتجاج کرنا چاہیے۔ قانون کا احترام ہونا چاہیے۔ تیش میں آکر کسی کی جان نہ لینی چاہیے۔ یہی ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ قرآن کہتا ہے کسی ایک انسان کی جان لینا ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں مذمتی قرداد پیش کی گئی جسے اکژیت سے منظور کر لیا گیا۔

اس قرارداد کو یورپی ممالک کے سفارت خانوں اور اقوام متحدہ کوبھیجا جائت گا۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے ایسے واقعات روکنے کی درخواست کی گئی۔ قومی اسمبلی کے ارکین نے شاہ راہ دستور پر ایک ریلی بھی نکالی گئی۔ جماعت اسلامی اور دینی جماعتوں کی طرف سے ملک بھر میں بھر پور احتجاج بھی کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی میں سیکڑوں جگہوں پر مظاہرے ہوئے۔ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے فرانس کے کونصل خانے کو پر امن طور پور قرارداد پیش نہ کرنے دی۔ یہاں بھی لاہور جیسے ایک گلو نے سادہ کپڑوں میں مظاہریں پرڈاریکٹ فاہر کئے جس کو الیکٹرونک میڈیا نے اسکرین پر دکھایا۔ لوواٹر کینن استعمال کی گئی۔آنسو گیس استعمال بھی کی گئی۔ جس سے دو صحافی شدید زخمی ہوئے۔ کئی کارکن بھی زخمی ہوئے۔درجنوں کورکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com