خواہشیں ناتمام رہ جائیں تو، رب بہت یاد آتا ہے

Praying

Praying

تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ
چلنے والے انسان کے دونوں پیروں میں کتنا فرق ہوتا ہے ایک آگے ہوتا ہے تو دوسرا پیچھے ہوتا ہے لیکن نہ تو آگے والے کو غرور ہوتا ہے اور نہ پیچھے والے کی توہین ہوتی ہے ۔ کیوں ؟ کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ پل بھر میں یہ بدلنے والے ہیں تو غرور کس بات کا اور کیسی توہین ۔ صاحبو! اگر اس زندگی میں کچھ کھونا پڑے تو یہ دو باتیں یاد رکھیئے گا ۔ ایک تو یہ کہ جو کھویا ہے اس کا غم نہیں کرنا اور جو پایا ہے وہ کسی سے کم نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جو پاس نہیں ہے وہ ایک خواب ہے اور جو پاس ہے وہ لاجواب ہے اور اسی پر خدا کا شکر بجا لائیں ۔ مگر صاحبو! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظر اور نصیب کا کچھ ایسا اتفاق ہے کہ نظر کو وہی چیز پسند آتی ہے جو نصیب میں نہیںہوتی اور نصیب میں لکھی ہوئی چیز نظر نہیں آتی اسے ہی زندگی کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق عطا کر رکھا ہے اور جو عطا نہیں کیا وہ جب اس انسان کوحقیقت میں ضرورت ہو گی تب عطا کرے گا ۔ یہ انسان نہیں جانتا کہ کہ جو اس کے پاس نہیںہے وہ کس وقت حقیقت میں اس کی ضرورت ہے یہ صرف وہی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے اور وہ انصاف سے ہی عطا کرتا ہے۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں ”مجھے اللہ کے انصاف پر اس دن بہت یقین آیا جب میں نے امیر اور غریب کا اِک جیسا کفن اور ایک ہی جیسی قبر دیکھی ” مگر ہم ”نادان ”انسان سمجھ نہیں رکھتے اور اپنے اپنے الفاط میں زہر اگلتے رہتے ہیں کیوں کی انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کا زہر اس کے الفاظ میں چھپا ہوتا ہے ۔ہمیں اپنے پیارے آقا حضرت محمد ۖ کی سنتوں پر عمل کرنا ہو گا تاکہ ہم اپنے اللہ کو راضی کر سکیں اور لوگوںکو متاثر کرنے والے فیشنوں کو چھوڑنا ہو گا ۔صاحبو فیصلہ کریں کہ اللہ کو راضی کرنا ہے یا لوگوں کو متاثر کرنا ہے ۔ یاد رکھیں لوگ کبھی بھی آپ سے متاثر اورخوش نہیں ہوں گے مگر اللہ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے اپنے بندے کو نیک بنانے کے لئے ، اپنے بندے کو معاف کرنے کے لئے مگر ہمیںتو بندگی آتی ہی نہیں ۔ہم تو اللہ کو اس وقت یاد کرتے ہیں جب ہر طرف ے مایوس ہو جاتے ہیں ، خوشی کے وقت ہمیں اللہ یاد نہیں ہوتا اگر اللہ یاد آتا ہے تو غمی اور مصیبت کے وقت ۔
کبھی آنسو، کبھی سجدے ،کبھی ہاتھوں کا اٹھ جانا
خواہشیں ناتمام رہ جائیں تو ،رب بہت یاد آتا ہے

خواجہ حسن بصری (رحمةاللہ علیہ) نے بصرہ میں ایک غلام خریدا، وہ غلام بھی ولی اللہ ، صاحب نسبت اور تہجد گزار تھا ۔ حسن بصری نے اس غلام سے پوچھا کہ اے غلام ! تیرا نام کیا ہے ؟اس نے کہا حضور !غلاموں کا کوئی نام نہیں ہوتا ، مالک جس نام سے چاہے پکارے ،آپ نے فرمایا اے غلام ! تجھے کیسا لباس پسند ہے ؟ اس نے کہا حضور ! غلاموں کا کوئی کباس نہیں ہوتا جو مالک چاہے پہنا دے وہی اس کا لباس ہوتا ہے ، پھر انہوں نے پوچھا اے غلام ! تو کیا کھانا پسند کرتا ہے ؟ غلام نے کہا حضور غلام کا کوئی کھانا نہیں ہوتا جو مالک چاہے کھلا دے وہی اس کا کھانا ہوتا ہے ۔خواجہ حسن بصری چیخ مار کر بیہوش ہوگئے جب ہوش آیا تو فرمایا اے غلام !میں تجھ کو آزاد کرتا ہوں ،میں نے تجھے پیسے سے خریدا تھا مگر اب تجھ کوپیسے نہیں دینا ہے، میں تجھ کو مفت میں آزاد کرتا ہوں۔ غلام نے پوچھا کس نعمت کے بدلے آپ مجھے آزاد کر رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا تم نے ہم کو اللہ کی بندگی سکھا دی۔

ALLAH

ALLAH

خدا کی بندگی تو بادشاہ کے وزیر نے بھی کی جو بادشاہ کی نوکری چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گیا ، وہ وزیر بہت دین دار اور عقلمند تھالیکن اچانک نوکری چھوڑ جانے پر بادشاہ پریشان تھا ۔ ایک دن بادشاہ اس کے پاس گیا اور پوچھنے لگا کہ تم نے نوکری کیوں چھوڑ دی ؟وزیر نے کہا پانچ باتوں کی وجہ سے میں نے شاہی نوکری چھوڑ دی ۔بادشاہ نے وہ پانچ اسباب دریافت کیئے تو وزیر نے کہا : ایک تو آپ بیٹھے رہتے ہیں اور میں آپ کی خدمت میں کھڑا رہتا ہوں لیکن اب خدا کی بندگی کرتا ہوں تو نماز میں بیٹھنے کا حکم بھی ہے ۔دوسری وجہ یہ کہ آپ تو بیٹھے کھاتے رہتے ہیں اور میں کھڑا آپ کو دیکھتا رہتا ہوں مگر اب ایسا رزاق مل گیا ہے جو مجھ کو کھلاتا ہے لیکن خود کھانے سے پاک ہے ۔تیسری وجہ یہ کہ آپ سوتے رہتے اور میں پہرہ دیا کرتا اب میں ایسے بادشاہ کی غلامی میں ہوں کہ میں خود سوتا رہتا ہوں اور وہ میری نگہبانی کرتا ہے۔

چوتھی وجہ یہ کہ میں ڈرتا تھا کہ آپ مر گئے تو آپ کے دشمن مجھے تکلیف دیں گے اب ایسی ہستی کی خدمت میں ہوں جو ہمیشہ قائم رہے گا اس لئے مجھے کسی کا خوف نہیں ۔پانچویں وجہ یہ کہ میں ڈرتا تھا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو آپ نہیں بخشیں گے، اب مالک ایسا رحمدل ہے کہ دن میں سو مرتبہ بھی گیاہ کروں تو وہ توبہ کرنے سے بخش دیتا ہے ۔تو صاحبو ! خود کو اللہ کی بندگی میں سونپ دو اپنے اللہ سے اور پیارے آقا حضرت محمد سے سچی محبت کرو ۔ کیسی سچی محبت بھلا ؟ ایسی سچی محبت کہ جب انسان گہری نیند میں ہو اور اس کے کانوں میں اذان کی آواز آئے اور وہ اپنی نیند کو چھوڑ کر نماز پڑھنے کھڑا ہو جائے۔

اپنی زندگی کو ایسا بنائو کہ اپنا رہنما اللہ کو بنائو ، رہنمائی قرآن پاک سے لو ،طرز زندگی اسلام والی اپنائو، اپنی شخصیت کو آقائے دو جہاں حضرت محمد کی سنتوں میں ڈھالو، پابندی روزہ کی حالت والی کرو، حلف کلمہ کا اٹھائو ، ورزش نماز والی کرو،سیرو سیاحت حج جیسی کرو ،فیصلہ صبر کے ساتھ کرو ،شوق درود پاک پڑھنے کا رکھو اور اپنی حفاظت صدقہ دے کر و۔

Muhammad Shehzad Aslam

Muhammad Shehzad Aslam

تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ