تحریر : راشد علی راشد اعوان خواہشات کے معاملے میں انسان بنیادی طور پر حریص ہے،عمر کے جس حصے میں بھی ہو خواہشات غالب نہ بھی آئیں مگر خواہشات ہر انسان کی ہوتی ہیں،میرے مرشد سائیں اور میرا نکتہ نظر اس معاملے میں ایک ہے،مرشد سائیں کا کہنا ہے کہ انسان کی بے تکی سی خواہشات اگر دم توڑ جائیں تو اسے زندگی میں وہ کچھ بھی مل جائے جو اس کی سوچ کے کسی کونے میں بھی نہ ہو گا،بابا جی ( اشفاق احمد)بتاتے ہیں کہ انہیں ان کے بابوں نے یہ بتایا ہے کہ اگر آپ اپنی خواہشوں کو، اپنی تمناؤں کو، اپنی آرزؤں کو ذرا سا روک سکیں جس طرح آپ اپنے پیارے “ڈوگی” کو کہتے ہیں، “تم ذرا باہر دہلیز پر ٹھہرو، میں اپنا کام کرتا ہوں پھر میں تمھیں لے کر چلوں گا” تو خواہشات کو بھی سنگلی ڈال کر چلیں اور خواہشات کو جب تک آپ پیار نہیں کریں گے، اسے نچائیں گے نہیں، اس کو گلستان کی سیر نہیں کروائیں گے وہ چمٹ جائیں گی آپ سے، لاتعلقی، آپ اور آپ کی تمناؤں کے درمیان سنگلی ہوتی ہے اور ایک عجیب طرح کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح خواہش کے اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چاہیے اس کو کھلائیں، ساتھ رکھیں، لیکن اس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔
فطرتی طور پر انسان اگر ایک خواہش کوحاصل کرلیتا ہے تو اس سے اس کی مزید خواہشوں کی آگ بھڑکتی ہے اور یہ الاؤ مزید تیز ہوجاتا ہے چنانچہ انسان دن بھر اور زندگی بھر خواہشات کا اسیر اور قیدی بن کر دوڑ دھوپ میں مصروف رہتا ہے اور پھر اپنی خواہشات کے حصول کے لئے دوسروں کا حق مارنا، جھوٹ بولنا، خوشامد کرنا، ضمیر فروشی اور دھوکہ دینایہ سب کچھ جائز سمجھنے لگتا ہے کیونکہ اس کا نفس اسے یہی ترغیب دیتا اور یہی بات اس کے ذہن میں بٹھا دیتا ہے، یوں انسان اپنے خالق یا اپنے رب کا بندہ بننے کی بجائے نفس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے،اگر ہم اپنے معاشرے میں گردو پیش پر نظر دوڑائیں اور کھلی آنکھوں دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں سارا فساد حرص و ہوس کی وجہ سے ہے، انسان بھی حرص و ہوس کا شکار ہو کر ظلم و ستم کرتے، قتل و غارت جیسے گناہوں کا ارتکاب کرتے، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے اور طاقتور قومیں اور ممالک بھی حرص و ہوس کا شکار ہو کر دوسری اقوام کو محکوم بناتے اور دوسرے ممالک پر غلبہ حاصل کرتے ہیں
اسی لئے انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر قوموں ملکوں کی اجتماعی زندگی تک فساد کی جڑ حرص و ہوس ہے، رضائے الٰہی، حب الٰہی اور قرب الٰہی کی خواہش انسان کو سب سے پہلے حرص و ہوس سے نجات دلاتی ہے اور اس کے قلب و ذہن میں یہ بات راسخ کر دیتی ہے کہ ہر شے من جانب اللہ ہے، ہر شے کا مالک میرا رب ہے، وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے دولت دے، جسے چاہے غلبہ دے، جسے چاہے شہرت دے،میرے مرشد سائیں کا فرمانا ہے کہخواہشات کا حد سے بڑھ جانا بے سکونی اور بے چینی کو جنم دیتا ہے’ خواہشات اور وسائل میں توازن نہ رہے تو زندگی غیرمتوازن ہونے لگتی ہے،ہماری میری اور خواجہ وجاہت صدیقی اور شاہ صاحب( ابوانس صاحب)کیساتھ عموماً مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی ہے
Desire
انسانی خواہشات کے بارے میں شاہ صاحب کا نکتہ نظربھی کمال کا ہے کہ انسان کی خواہشات کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی’ کسی کی خواہش رہتی ہے کہ مال ودولت جائیداد جتنی زیادہ ہوں زندگی میں آسانی ہوگی’ اولاد’ بیٹے بیٹیاں فرمانبردار نیک ہوں’ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں’ غم یا مصیبتیں بالکل نہ ہوں،مگر اپنے بارے میں ان کا فرمانا ہے کہ شاید وہ دنیا کہ ان چندا اشخاص میں سے ہونگے جنہیں کوئی دنیاوی خواہش نہیں حتیٰ کہ انہوں نے کبھی سائیکل لینے یا ایک سائیکل کا مالک ہونے کی بھی خواہش دل میں نہیں رکھی،،میرے نزدیک خواہشات کا حد سے بڑھ جانا بے سکونی اور بے چینی کو جنم دیتا ہے’ خواہشات اور وسائل میں توازن نہ رہے تو زندگی غیرمتوازن ہونے لگتی ہے، خواہشات کی شدت حد سے تجاوز کرجائے تو حرص بن جاتی ہے اور حرص انسان کی شخصیت کو بدبودار اور بدصورت بنادیتی ہے۔ہم میں سے بعض افراد کی تمنائوں کا محور ساری زندگی ان کی اپنی ہی ذات رہتی ہے، ان کی ہر سوچ اور خواہش ”میں” سے شروع ہوکر ”میں” پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔
اسی طرح خواہشات کا حریص انسان بسا اوقات اپنی خواہشات کے آگے بے بس اور یہی خواہشات اسے بہتسی پریشانیوں میں ڈال دیتی ہیں، ان ہی خواہشات میں ایک عام فہم میں کہا جانے والا لفظ کاش بھی ہم سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جیسے کاش ہمیں وہ مل جاتا،کاش ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟؟ کہا جاتا ہے کہ انسان نفس کا غلام ہے اور اس میں سو فیصد سچائی ہے اور وہ انسان جواپنے نفس پر قابو پالے وہ کامیاب ترین انسان ہوتا ہے
خواہشات کے معاملے میں انسانی فطرت بھی عجیب تر ہے کہا جاتا ہے کہ جب حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ کہ فلاں درخت کے پاس نہ جانا اور اتنی تنبیہ کے بعد بھی ان پر خواہشات غالب آ گئیں اور وہ نہ صرعف اس درخت کے پاس گئے بلکہ اسی درخت کا پھل بھی کھایا اور اپنی اسی خواہش کے احترام میں انہیں سزا بھی ملی،الغرض انسان فطرتی طور پر حریص اور خواہشات کا غلام ہے ،پس جس نے اپنے نفس کو بچایا وہ فلاح پا گیا۔