میں اس موضوع پر کبھی بھی قلم نہ اٹھاتا اگر مادر پدر آزاد پاکستان کے خواہشمند پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ میں بانی ء پاکستان کی ہرزہ سرائی کی تحریر نہ چھپتی۔پیرزادہ ہے ،کوئی قلمقار ہے اور اس نے اپنی قلمی موشگافیوں کا شکار اس بار قاید اعظم محمد علی جناح کو بنایا ہے۔ ہمارے ہاں کتے بلیوں انسداد مظالم برحیوانات کے محکمے تو موجود ہیں، قوانین تو ہیں مگر اس مملکت خداد اد میں پاکستان کے بانی کے تحفظ کے لئے کوئی قانون نہیں ہے جس کا جی چاہتا ہے اٹھتا ہے اول فول بک دیتا ہے ۔جس کا جو جی چاہتا ہے بیٹھے بٹھائے ہانک دیتا ہے۔ہم پڑھے پڑھائے اسباق کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں مشکل سے یاد کرتے ہیں اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ آپ نے پڑھا جو کتابوں میں لکھا سب غلط تھا۔
دو قومی نظریہ غلط تھا پاکستان معاشی ضرورتوں کے لئے بنایا گیا پاکستان گوروں نے بنایا پاکستان کے ہیرو محمد علی جناح نہ تھے پاکستان تو تو فلاں نے بنایا اور فلاں کے اشارے پر بنا۔در اصل لوگ نئی نسل کو کنفیوز کرنا چاہتے ہیںپریشان کر دینا چاہتے ہیں۔اب تو اس قسم کی گنجلیں بجارتیں رپھڑ اور پھڈے ڈالنے کے لئے ایجینسیاں بنائی جاتی ہیں ادارے کھڑے کئے جاتے ہیں اور انہیں فی زمانہ این جی او کا نام دیا جاتا ہے ایسی ہی این جی اوز ایسے ہی ادارے ہماری نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔اب تو پتہ چلا ہے دنیاوی خدائوں نے طے کر لیا ہے اور کروڑوں ڈالرز کا فنڈ بھی مختص کر دیا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو بدلنے کے لئے اپنی جان لڑا دو اور تو اور تحفظ ختم نبوت کے لئے جو قوانین پاس کئے گئے ہیں انہیں بھی ختم کر دیا جائے۔گویا اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے کے قانون کو سرے سے ختم کر دیا جائے۔اور طویل جد وجہد کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے قانون کو بھی بدلا جائے۔
ان بڑے احداف کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی اساس پرچوٹ لگائی جا رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے قلمی مسخرے جانتے یا نہ جانتے ہوئے ان طاقتوں کے آلہ ء کار بن رہے ہیں جو پاکستان کے وجود کو سرے سے مٹانا چاہتے ہیں۔قاید اعظم محمد علی جناح کو آزاد خیال ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہمارے سامنے قاید کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی پاکستان بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے بار ہا کہا کہ پاکستان کو کسی نئے آئین اور قانون کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاکستان کا آئین اور قانون تیرہ سو سال پہلے بن چکا ہے۔
مجھے قاید کی زندگی کے ان واقعات کا تو علم ہے جو میں نے کتابوں میں پڑھے ہیں لیکن اس سے زیادہ میں ان شخصیات سے بلمشافہ بلکہ عرصے تک ساتھ رہنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں جنہوں نے قاید کو قریب سے دیکھا ہے میری مراد شجاعت علی صدیقی اور جناب انجینئر رفیع سے ہے جن کا حال ہی میں کراچی میں انتقال ہوا ہے اور جو برادر شیر بہادر خان(پی ٹی آئی ایبٹ آباد) کے سسر بھی تھے۔ساری گواہیاں ایک طرف سارے مشاہدے سائیڈ پر اگر مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کی ضرورت نہ تھی توہندوئوں سے الگ کیوں ہوئے؟لفظ پاکستان کو نئے ملک کے لئے کیوں منتحب کیا؟ پاک ستاں، پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔پھر پاکستان کی آزادی کے لئے ٢٧ ویں رمضان کا کیوں انتحاب کیا گیا؟ لگتا یوں ہے کہ یہ سب کچھ ہماری اس نسل کے ذہن میں راسخ ہونے کے بعد نئے قاعدے اور قوانین پڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے تا کہ انہیں ایک کنفیوزڈ نسل بنا دیا جائے۔میں اپنے کالموں میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ جب بھی کوئی اس قسم کی شرارت ہوتی ہے تو اس کے پیچھے پاکستان دشمن قادیانی لابی ہوتی ہے جو کافر قرار دیے جانے کے بعد زخمی ہو کر پاکستان کے وجود کو ڈسنے کے درپے ہے۔
یہ تو دنیا کے سامنے آ چکا ہے کہ توہین رسالت کے قوانین کے خاتمے کے لئے قادیانی اسرائیل کی مدد لینے تل ابیب تک گئے ہیں اور ایک معروف کالم نگار نے تو اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ قادیانیوں کی ملاقاتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے ان کا پہلا حدف دو قومی نظریے کا خاتمہ ہے دوسرا توہین رسالت کے قانون کی منسوخی اور تیسرا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کافر قرار دیے جانے کی منسوخی۔ چڑیاں اڑانے والے اہل قلم تو پہلے ہی پاکستان کی نظریاتی اساس پر چوٹیں لگا چکے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایسے لبرل پاکستان کی ایک بڑی جماعت میں آ گھسے تھے جہاں خود پارٹی کے سربراہ نے ان کی سرکوبی کی۔معترض کو دکھ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ کا جواب کلمہ ء طیبہ کیوں ہے؟اور یہ نعرہ کبھی نہیں لگاتھا۔اس پر پارٹی چیئرمین نے مجلس عاملہ میں ان صاحب کی تشفی کردی اور بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسلام کے لئے بنا ہے اور اللہ نے ہمیں موقع دیا تو یہ ملک پاکستان ریاست مدینہ کی دوسری تصویر بنے گا جس کسی نے رہنا ہے رہے جس کا اس پر یقین نہیں ہے اسے اپنا راستہ ناپنا چاہئیے۔
Quaid-e-Azam
وہ شخص آج کل مرسوں مرسوں پارٹی میں دیکھا جاتا ہے۔اب آپ اس کالم کے محرر کی روشنی میں اگر عمران خان کا نیا نام تجویز کریں تو مولوی عمران خان ہو گا۔ قاید اعظم کی بد قسمتی یہ ہے کہ علماء سوء کے ایک طبقے نے انہیں کافر اعظم کہا اور کئی لوگوں نے انہیں انگریز کا ایجینٹ یہی حال پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے ساتھ کیا گیا۔جمائمہ کے سابق شوہر ہونے کے ناطے وہ یہودیوں کے ایجینٹ ٹھہرے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے پر طالبان خان پکارے گئے۔ہرزہ سرائی کرنے والے نے قاید کو مولوی قاید اعظم کہہ کر اسلام شعائر کی توہین کی ہے۔مولوی ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے مولا والے مولوی ہوتے ہیں انگریز دور میں پڑھے لکھے مسلامن کو مولوی اور ہندو کو منشی کہا جاتا ہے۔ہمارے ہاں مولوی انوارالحق ،سراجالحق اب بھی پائے جاتے ہیں،مولوی ذیشان الحق سب بغیر داڑھی کے ہیں(راولپنڈی میں مقیم ہیں)۔ہمارے ہاں اب اسلامی عقاید کا مذاق اڑانا عام ہو گیا ہے جسے اسلام سے نفرت ہے وہ اتنا بزدل ہے اسلام کو تو کہہہ نہیں سکتا بیچارے مولوی کو رگڑا لگائے رہتا ہے۔ جسے شراب کی حاجت ہوتی ہے وہ حلوے کا ذکر کر کے حرام کو حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
موصوف کا خیال ہے کہ انہوں لاء میںداخلے کے وقت اپنے نام کے سامنے سے محمد علی ہٹوا دیا،انہیں قاید اعظم کی بہن کے الفاظ یاد نہیں کہ بھائی نے لنکنز ان میں داخلہ ہی اس وجہ سے لیا کہ اس کی دیوار پر کندہ تھا کہ محمدۖ اس دنیا کے بڑے قانون ساز تھے۔اس ٢٣ مارچ کو پاکستان کے برے اخبار نے جب لوگ یوم پاکستان کے حوالے سے پڑھنا چاہتے تھے ایک غیر معروف لکھاری کے کالم کو شائی کر کے بہت سے دلوں کو مجروح کیا ہے۔یہ وہ دن تھا جس دن نئی نسل کو ایک حوصلہ دینے کی بات ہونا چاہئے تھی اس دن حکومت کے اعلی عہدے دار وں سے لے کر عام آدمی منٹو پارک میں ہونے والے اجتماع عظیم کی یاد تازہ کر رہا تھا ایک انتہائی بھونڈہ کالم چھاپ کر سچی بات ہے پاکستان سے کسی محبت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
پاکستان کو توڑنے اس کے قاید کے بارے میں گھٹیا گفتگو کرنے والے کئی آئے اور چلے گئے قوم کو ان کے نام بھی یاد نہیں کافر اعظم کہنے والے کا تو مجھے بھی نام یاد نہیں مگر اللہ کے احکامات کے نفاذ کے لئے کوشش کرنے والے محمد علی جناح علامہ محمد اقبال چودھری رحمت علی سب ہمارے دلوں میں ہیں نئی نسل اس قسم کے روندئوں کے بہلاوے میں نہیں آتی۔٢٣ مارچ ہمارے پرکھوں کی عظیم جد و جہد کے آغاز کی یاد دلاتا ہے۔ان عظیم لوگوں کی جو زبان رنگ نسل سے ہٹ کر لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان کا نعرہ لگائے نکلے اور پھر انہوں نے سات سال کی جد و جہد کے بعد پاکستان حاصل کر لیا۔اس کے حصول کے لئے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں اگر قاید اعظم مولا والے نہ تھے تو ایک ہی زبان بولنے والے سکھوں نے اپنے نیزے کی انہیوں پر پنجابی مسلمانوں کو کیوں لیا مشرقی پنجاب کے اندھے کنویں کیوں جوان موتوں کے امین بن گئے۔اردو بولنے والے پنجابی بولنے والے اور تو اور لوگوں نے سرحد میں بھی کسی گاندھی کی نہ سنی۔داڑھی رکھنا سنت ہے ثواب ہے میں سمجھتا ہوں بغیر داڑھی کے بہت سے مولانائوں میں ایک مولانا قاید اعظم رحمت اللہ علیہ بھی تھے۔اللہ ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنا دے آمین۔(آج کا کالم ختم کیا تو اپنے معزز مہمان جو لاہور سے عمرے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا یاسر پیر زادہ جن کے کالم پر تبصرہ ہوا ہے جناب عطائالحق قاسمی کے فرزند ہیں۔ان کے والد صاحب اسی دن ہلال امتیاز سے نوازے گئے ہیں۔23 مارچ کے دن یہ کالک بھی انہی کے گھرانے کو نصیب ہوئی۔کتنی بڑی حقیقت سوء ہے سید فاروق حیدر مودودی اور یاسر پیر زادہ )