جہاد اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے جس کی فرضیت اور اہمیت قرآن کریم اور احادیث نبوی سے واضح ہے۔ جہاد ایک جامع لفظ ہے جو وسیع مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے علمائے دین اور فقہا نے جہاد کی بہت سی اقسام کو تسلیم کیا ہے۔ مثلا جہاد با لنفس، جہاد بالمال، جہاد بالعلم، جہاد اکبر، جہاد اصغر، وغیرہ وغیرہ جہاں تک جہاد اصغر یعنی جہاد بالسیف کا تعلق ہے علمائے دین اور فقہا نے جہاد کی اس قسم کو جو قرآنی اصطلاح میں قتال کہلاتی ہے خاص حالات اور شرائط کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، بدقسمتی سے امت مسلمہ میں امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ جہاد کا یہ غلط مفہوم راہ پکڑ گیا کہ اسلام کو بزریعہ جنگ یا بزور شمشیر پھیلانا جہاد ہے۔ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے کہ جو پہلے تلوار اٹھا ئیں اور ان کو قتل کرنے کا حکم ہیں جو پہلے قتل کریں یہ حکم ہرگز نہیں دیا۔
کہ اپنی اپنی ٹو لیاں بنا کر معصوم اور بے گناہ لوگوں پر حملہ کیا جائے۔ ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی ضرورت پڑتی تھی اس لئے کہ اس وقت دعوت اسلام کا جواب دلائل اور براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا، لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا، بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں اس لئے اس زمانہ میں خدا تعالی نے چاہا ہے کہ سیف(تلوار ) کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفین کو پست کیا جائے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ قلمی اسلحہ پہن کر سائینس اور علمی ترقی کے میدا ِ کارزار میں اترا جائے اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت سے کرشمہ دکھایا جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ اے مسلمانوں ! اپنی خود حفاظتی کے لئے تیار رہو اور خوب تیاری کرو۔
ہر ایسے دشمن کے خلاف جو تم پر کسی بھی طرح سے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ہر قسم کے میدان میں اپنے سواروں کے ذریعے اور پیادوں کے زریعے ان سے مقابلہ کے لئے ایسے تیار رہو کہ ان پر دور دور تک تمہارا رعب پڑ جائے اور کسی کو جرات نہ ہو کہ ایسی تیار قوم پر حملے کا تصور کر سکے وہ صرف تمہارے ہی دشمن نہیں، بلکہ پہلے اللہ کے دشمن ہیں۔ پس تم اپنے دشمنوں سے غافل رہ سکتے ہو لیکن خدا، اپنے دشمنوں سے غافل نہیں رہا کرتا۔(سورة انفال :آیت 61)یہ ہیں اسلامی جہاد کو تسلیم کرنے اس پر عمل کا فیصلہ کرنے کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داریاں جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں۔ سو جاننا چاہیے کہ قرآن شریف یونہی لڑائی کا حکم نہیں فرماتا۔ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا خدا تو قرآن شریف میں یہ بھی فرماتا ہے کہ لَااکراہ فی الدین، یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے۔
Palestine
اسلام کی لڑائیاں تین قسم کی ہیں (ا)دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری (٢)بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون ( ٣ ) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحمتوں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔ آج کی جہادی تنظیمیں اس لئے بھی ہر جگہ بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہیں کہ وہ ان اقسام اور قرآنی اصول جہاد پر پورا نہیں اترتیں۔ فلسطین، کشمیر، افغانستان اور دیگر جگہوں پر جاری جہاد میں ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کامیابی ہوتی نظر نہیں آتی، اب تک سوائے کشت و خون کے کچھ حاصل نہیں ہو۔جہاں تک اسلام کے تصور جہاد کا تعلق ہے، سب سے کامل تعریف سورة حج کی اس آیت میں اللہ تعالی نے پیش فرمائی ہے۔ اُذِنَ لِلَّذِینَ یُقٰتَلُونَ بِاَنّھُم ظُلِمُوا۔(سورة الحج: 40)ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ لڑنے والوں کے خلاف تلوار اٹھائیں، یعنی ان کے خلاف تلوار اٹھائیں۔
جنہوں نے بلا وجہ پہل کی ہے اور وہ مظلوم ہیں جہاد کی اس سے زیادہ کامل اور خوبصورت تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔ اس تعریف کو اگر ہم موجودہ صورت حال پر اطلاق کرکے دیکھیں تو ہرگز اسلامی معنوں میں یہ جہاد نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے۔ ہر سیاسی لڑائی خواہ وہ مسلمان اور غیر مسلم مخالف کے درمیان ہو یا مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہو وہ جہاد نہیں بن جایا کرتی۔ درحقیقت بعض لوگ حق کی لڑائی کو جہاد سمجھ لیتے ہیں اور چونکہ ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ میں حق پر ہوں اس لئے وہ اعلان کر دیتا ہے کہ یہ لڑائی خدا کے نام پر ہے، سچائی کی خاطر ہے، اس لئے جہاد ہے۔ یہ جہاد کی ایک ثانوی تعریف تو ہو گی مگر اسلامی اصطلاح میں جس کو جہاد کہا جاتا ہے اس کی تعریف اس صورتحال پر صادق نہیں آتی۔ ایک مسلما ن ملک کی دوسرے مسلمان ملک سے لڑائیاں ہوتی ہیں۔
کالوں کی گوروں سے، ہر قسم کی لڑائیاں دنیا میں ہو رہی ہیں، ہوتی چلی آئیں ہیں، ہوتی رہیں گی اور جب بھی دو فریق متصادم ہوں تو ظاہر بات ہے کہ اگر ایک فریق سو فیصدی حق پر نہیں تو زیادہ تر حق پر ضرور ہوگا اور یہ ممکن نہیں ہے کہ کبھی دونوں کا برابر قصور ہو یا دونوں برابر سچے ہوں با لعموم ایک فریق مظلوم ہوتا ہے اور ایک ظالم ہوتا ہے۔ پس ہر مظلوم کی لڑائی کو جہاد نہیں کہا جاتا۔ اس مظلوم کی لڑائی کو جہاد کہا جاتا ہے جسے خدا کا نام لینے سے روکا جا رہا ہو، جس پر مذہبی تشدد کیا جا رہا ہو۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے انہوں نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ اَلّا اَن یَقُو لُوا رَبُّنا اللہ سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا رب ہے اگر فریق مخالف پہل کر چکا ہو۔
Allha
تلوار اس نے اٹھائی ہو نہ کہ مسلمانوں نے اور مسلمانوں کا جرم اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ وہ اللہ کو اپنا رب قرار دیتے ہوں اور غیر اللہ کو رب تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوں تو پھر اس لڑائی کا نام جہاد ہے۔ عراق ایران جنگ، کویت اور عراق کی جنگ کو بھی جہاد کا نام دیا گیا تھا۔ پس خوامخواہ جاہلانہ طور پر اسلام کی مقدس اصطلا حوں کو بے محل استعمال کر کے مسلمان اسلام کی مزید بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔ ساری دنیا میں اسلام سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور قومیں تمسخر کرتی ہیں اور یہ اپنی بے وقوفی میں سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں لیکن عوام الناس کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں آخر بار بار اپنے راہنمائوں کے اس دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور غیر معمولی قربانیاں ان جنگوں میں پیش کرتے ہیں جو درحقیقت جہاد نہیں لیکن انہیں جہاد قرار دیا جا رہا ہے۔
اگر اس صورتحال کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغربی قومیں جہاد کے اس غلط استعمال کی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں مغرب نے مسلمانوں سے گزشتہ کئی سو سالوں میں جو سلوک کیا ہے اس سلوک کی تاریخ مسلمانوں کو یہ یقین دلا چکی ہے کہان کی مسلمانوں سے نفرت مذہبی بنا پر ہے اور اسلام کا نام خواہ یہ لیں یا نہ لیں لیکن یہ مسلمان قوموں کی ترقی دیکھ نہیں سکتے اور مسلمان قوموں کے آگے بڑھنے کے خوف سے یہ ہمیشہ ایسے اقدام کرتے ہیں جن سے ان کی طاقت پارہ پارہ ہوجائے اور اندرونی طور پر کمزور ہوجائیں۔ جب اس قسم کی لڑائیاں ہوتی ہیں تو امریکہ برطانیہ اور مسلمان حکومتوں یا کبھی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے درمیاں خفیہ معاہدے ہو جاتے ہیں اور ان معاہدوں کا فائدہ بلواسطہ یا بلا واسطہ یہود کو پہنچ رہا ہوتا ہے۔
Islam
پس عالم اسلام سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم، اسلام کے دائیمی اور عالمی اصولوں کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے، یہ سب جنگ و جدل کو چھوڑ دیں اور علوم و فنون کی طرف توجہ دیں بہت ہو گئیں نعرے بازیوں کی سیاست کرتے، کتنی صدیاں تو بیت گئیں ہیں، نعرے لگاتے شعرو شاعری کرتے ہم ایک دوسرے پر جھپٹتے رہے اور کچھ نہ کر سکے۔ دوسری قومیں ہر شعبہ میں ترقی کرتی چلی گئیں سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر پہلو سے فتح یاب ہوتی رہی۔ اور وہ آزمودہ ہتھیار ان کے ہاتھ میں مسلمانوں کے خلاف کارگر ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جتنے مسلمان ممالک ہیں یہ اسلحہ سازی میں ہر اس ملک کے محتاج ہیں جن کے خلاف مسلمان جہاد کا اعلان کرتے ہیں جن مغربی یا مشرقی قوموں کو مشرک اور خدا سے دور اور خدا کے دشمن اور بت پرست اور ظالم اور سفاک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ ان سے لڑنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے مگر پھر راکٹ مانگنے کے لئے بھی ان ہی کی طرف ہاتھ بڑھائے جاتے ہیں اور سمندری اور ہوائی جنگی جہاز مانگنے کے لئے بھی ان کی طرف ہی دیکھا جاتا ہے توپیں بھی ان سے مانگی جاتی ہیں ہر قسم کا دوسرا اسلحہ بھی ان سے طلب کیا جاتا ہے سادگی کی حد ہے۔ مگر اس سادگی اور جہالت کی انتہا یہ ہے کہ جن کو دشمن قرار دیتے ہو جن کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کی تلقین ہے کہ ہم تمہارے خون کا آخری قطرہ تک چوس جائیں گے ان ہی سے مخا طب ہو کر کہتے ہو کہ ہم نہتے ہیں ہمیں اور ہتھیار دو کہ تمہاری گردنیں اڑائیں اس سے بڑی جہالت کیا ہو سکتی ہے۔ ایسی قوموں کی تو پھر خدا مدد نہیں کیا کرتا۔ پس مسلمان طالب علموں کے جزبات سے کھیل کر، ان کو گلیوں میں لڑوا کر ،خود کش حملوں میں مروا کر ان کو جنت کے خواب مت دکھائیں۔
ان کی علم کی تباہی کے سامان پیدا نہ کریںان کی عزتوں کی تباہی کے سامان نہ کریں اب تک یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے مسلمان نسلوں کو جوش دلاتے ہیں اور وہ بیچارے گلیوں میں نکلتے ہیں اور اسلا م کی محبت کے نام پر ان کو رسو اور زلیل کیا جاتا ہے، ان کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ان سب جہادی تنظیموں کو ایک جگہ اکٹھا کریں اور سلیقہ سکھائیں تعلیم دیں، کسی کے بھی جزبات سے مت کھیلیں انہیں بتائیں کہ قوموں میں اپنا کوئی مقام پیدا کرنا ہے تو علم و فضل کی دنیا میں مقام بنائیں۔ اس لئے کہ دنیا اور آخرت کی نجات کا اصل زریعہ یہ ہی ہے۔