پاکستان میں تقریبا ہر طبقہ ہی استحصال کا شکار ہے۔ پنجاب کا غریب مزارعہ ہو یا سندھ کا ہاری یا پھر بلوچستان کا مظلوم بلوچی اور خیبر پختون خواہ کا غیور اور غریب پٹھان۔ اقلیتی برادری ہویا عورتوں کی اکثریت یا پھر نوجوان بے روزگار طبقہ۔۔الغرض ہر کوئی بر ی طرح استحصال کا شکار ہے۔ پھر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہے۔۔
ابھی حال ہی میں گوجرانولہ میں انتہائی دلخراش اور افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک غریب دیہاتی طالبہ کو بے دردی کے ساتھ زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ مجرم گرفتار ہوا مگر بااثر ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کے مجرموں کی رہائی پر مٹھائی تقسیم کی گئی ۔ جو متعلقہ تھانے کی پولیس نے بھی کھائ۔ایسی بے بسی ، یہ لاچارگی اور انصاف کا ایسا خون ہوتا دیکھ کر دہائی دینے والی طالبہ برداشت نہ کر پائی اور خود کو آگ لگا لی ۔اور پھر آگ سلگتی رہی اور ناانصافی ظلم و زیادتی کا بھوت شعلوں کے ساتھ ناچتا رہا۔۔
آخر بے گناہ طالبہ جان کی بازی ہار گئی اور اس کرپٹ خود غرض معاشرہ سے ایک انسانی جان کا وجود ختم ہوگیا۔اس دھرتی سے ایک اور عورت کا بوجھ کم ہوا۔ لیکن ایک سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ایک مجبور غریب اور لاچار اور بے بس لڑکی کے ساتھ ایسی ظلم زیادتی اور کھلواڑ کرنے کا حق کسی کو ہے کس نے یہ حق دیا ہے اور کیوں ۔؟؟
Women
خواتین کے جزبات اور احساسات کے ساتھ اس طرح سے کھیلنے کی اجازت تو اسلام بھی نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کسی کی جان نہ چلی جائے۔ زندگی کا خاتمہ ہونے پر یا میڈیا کے دباو پر انصاف کا تھکا ہوا عمل شروع ہوتا ہے۔ اب تو وزیر اعلی صاحب بھی نوٹس لے رہے ہیں اور تھانے کا عملہ بھی معتل ہوچکا ہے ۔۔ یہ انصاف اور قانون کی جیت کا کیسا عمل ہے۔ کیا اس مظلوم طلبہ کی قبر کو اکھاڑ کر اس کی لاش کو باہر نکال کر اسے یہ خوشخبری دی جائے گی کہ لو تمہیں انصاف مل گیا ہے ۔۔۔آخر اس بچاری کو کیسے بتا یا جائے کہ دیکھو بی بی تمہیں انصاف مل گیا ہے ۔ تم کامیاب ہوگئی ہو ۔ تمہاری فتح ہوئی ہے ۔ کیا ہم اس اصول کو تسلیم کر لیں کے مرنے کے بعد انصاف حاصل کرنا ہی کامیابی ہے ۔؟؟
ایک اور افسوس ناک عمل یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں علماء کرام خواتین کا استحصال روکنے کی بجائے ۔خواتین کے جزبات اور احساسات کی پرواہ کیئے بغیر ایسے فیصلے صادر کر رہے ہیں جس سے عورتوں میں نفسیاتی مسائل بڑھ سکتے ہیں ۔ ایسے اندہناک حالات پر علماء کیوں خاموش ہو جاتے ہیں ۔۔ کیوں آواز نہیں اٹھاتے ۔ آواز اٹھانا تو دور کی بات عورت کو زیادتی ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کو لانے کا کہا جاتا ہے ۔ جو یہ ثابت کریں کے عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی ہے ۔ وہ معاشرہ جو پہلے ہی عورت کو پاوں کی جوتی سمجھتا ہے کیا اس کی گواہی کے لئے عدالتوں کا رخ کرے گا۔اس لیئے اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان حالات میں علماء کرام کا کردار انتہائی مایوس کن ہے اور تو اور اب علماء کرام نے مردوں کودوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی رائے کو بھی اہمیت دینا ضروری قرار نہیں دیا۔
مرد جب اور جس سے چاہیے شادی کر سکتا ہے اور اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسلام بھی اگر مرد کو شادی کی اجازت دیتا ہے تو ساتھ ہی ایک واضح شرط بھی لگاتا ہے کہ اگر تم انصاف کرو تو ہی دوبارہ شادی کرنا۔ مگر اس دوسرے حصے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ انصاف میں سب سے پہلے تو یہ اصول ہے کہ اپنی بیوی سے اجازت لی جائے۔ پھر آنے والی دوسری عورت کو وہی اہمیت دی جائے تو پہلی کو دے رکھی تھی ۔ نہ کم نہ زیادہ۔۔ حیرت ہوتی ہے کہ بے راہ روی کا شکار مردوں کو لگام ڈالنے کی بجائے خواتین پر ہی بے جا پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ علماء کرام کیوں ناکارہ بے کار نشئی نکھٹو آوارہ محنت سے جی چرانے والے اور گندی زہنیت رکھنے والے مردوںکے خلاف کوئی فتوی صادر نہیں کرتے ۔ سارا ملبہ ایک بچاری عورت پر ہی کیوں گرتا ہے۔ سارا الزام عورت پر ہی کیوں آتا ہے ۔۔ ڈاکہ چوری قتل گینگ وار میں کتنے فیصد عورتیں ملوث ہیں اور کتنے فی صد مرد ہیں ۔؟؟ کیا معاشرے میں جرائم پیشہ افراد میں مردوں کی ایک کثیر تعداد شامل نہیں ہے ۔؟؟؟ یہ سب وہ تلخ حقیقتیں ہیں جن سے نظریں چرا کر مرد حضرات عورت کو اپنا غلام اور باندی بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی پابندیوں میں بھی جکڑنا چاہتے ہیں۔ جس معاشرہ کی ایسی سوچ ہوگی اور عورت کا استحصال اسی طرح جاری رہے گا وہ معاشرہ کبھی بھی نہ صرف یہ کہ ترقی کی منزلیں طے نہیںکرسکتا بلکہ خدانخواسطہ ناکامی نا انصافی قتل و غارت خود سوزی خود کشی جیسے افسوس ناک واقعات اس معاشرے میں پنپتے ہی رہیں گے۔