لاہور (اقبال کھوکھر) ادارہ ِ کلاس (سنٹر فار لیگل ایڈ اسسٹنس اینڈ سیٹلمنٹ) نے عورت فائونڈیشن کے صنفی مساوات پروگرام کے ماتحت امریکی عوام اور ادارہ براے بین الاقوامی ترقی (یو۔ایس۔ایڈ) کے تعاون سے ایک روزہ مشاورتی مکالمہ کا انعقاد 17 مارچ 2016 کو کیا گیا۔
اِس مکالمہ میں حکومتی اداروں ، تعلیمی اداروں، وکلاء، ڈاکٹروں اور صنفی تشدد سے متاثرہ خواتین کی بحالی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شرکت کی۔ادارہِ کلاس کے نیشنل ڈائیریکٹر جناب جوزف فرانسس نے اپنے اِستقبالیہ کلمات میں کہا کہ ہمیں اپنے معاشرے میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشددکی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا ہم اس مشاورتی مکالمہ کا مقصد ایسے تمام اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور اُن تمام چیلنجز کی شناخت کرنا ہے جن کا ہمیں صنفی تشدد کے مقدمات میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فوزیہ وقار چیئر پرسن پنجاب کمیشن آف دی سٹیٹس آف وومن نے کہا کہ عورتوں کے خلاف تشدد کی تدارک کے لیے اسمبلی نے بِل پاس کر دیا ہے۔ جس میں عورتوں کے خلاف ہونے والے ہر قسم کے تشدد کو سامنے لایا جائے گا اور اِس بِل کی بدولت عورتوں کی بروقت انصاف کی فراہمی ممکن ہو گی۔ آئی ۔اے ۔ رحمان (جنرل سیکریٹری انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان)نے پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے خلاف بنائے گئے قوانین کی مکمل طور پر نفاذ کی ضرورت پر زور دیا اُنہوں نے کہا کہ ملک میں عورتوں کو فیصلہ سازی کا حق دینے کی ضرورت ہے۔
پنجاب صوبائی اسمبلی کے ممبر سردار رمیش سنگھ اروڑ ا نے کہا کہ پپنجاب حکومت نے عورت کی ترقی و بحالی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں اور ہمارا قانون اور ہماری ریاست عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں اور اِسی سے متعلقہ عورتوں کے حقوق کی فراہمی کے لیے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کو کم عمری کی شادی، اور ہندئو عورتوں کے جبراً تبدیلیء مذہب کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
شرکاء مقررین نے کہا کہ اقلیتی عورتوں کے جبراً شادی اور تبدیلیِ مذہب کے مقدمات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ اس کی وجہ متاثرہ خاندان کے ممبران کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی کمی اور قانونی کارکنوں کا عدم تعاون ہے۔تاہم اقلیتی عورتوں اور ان کے خاندانوں کے مکمل تحفظ کے لیے قانون سازی اشد ضروری ہے۔محمد تحسین (ساوئتھ ایشین پارٹنر شِپ) کے چیف ایگزیکیٹو نے کہا کہ پاکستان کی سوِل سوسائٹی کا روایتی مرکزِ نگاہ انسانی حقوق کی بحالی ہے۔ اِس بات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تمام تنظمیں معاشرتی اور معاشی لحاظ سے سوِل سوسائٹی اور حکومت کے بنائے گئے قوانین کی عملداری کے لیے کام کر رہی ہیں۔
مِس دُرِشہوار(آل پاکستان وویمن ایسوسی ایشن) نے کہا کہ بہت سے عناصر عورتوں کے حقوق کے ادنی تحفظ کے ذمہ دار ہیں جِن میں تعلیم کی کمی، فرسودہ نظام ، قوانین کی نفاذ کی کمی اور پیچیدہ عدالتی نظام ہے۔ ما ہ پارہ شکیل ڈائریکٹر ۔GEP نے اپنے اِختتامی کلمات میں کہا کہ عورتیں اپنے حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ابھی وقت ہے کہ سوِل سوسائٹی، متعلقہ سٹیک ہولڈر ز کے ساتھ مشترکہ تعاون سے عورتوں کو انصاف کی مکمل فراہمی کے لیے کوشاں رہیں۔ نورین اختر پروجیکٹ کوارڈینیٹر (CLAAS ) نے یو۔ایس۔ایڈ کے نمائندگان،مقررین ، سٹیک ہولڈرز اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔