مجھے عورت اور دولت نے کہیں کا. . . !!

Wealth

Wealth

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

ایک دن اچانک گھر کے مین دروازے کی گھنٹی بجی تومیںنے جا کر دیکھا کہ باریش اور خوبصورت چہرے والے ایک صاحب سر پر سفید عمامہ پہنے کھڑے ہیں، اُنہیں میں تو فوری طور پر پہچان نہ سکامگر اُنہوں نے فوراََ مجھے پہچان کر میرے نام کے ساتھ مخاطب کیا جیسے ہی اِ ن کی آواز میری سماعت سے ٹکرا ئی جو آج بھی ویسے ہی تھی جیسے کہ 30سال پہلے تھی، میں پہنچان گیا۔ میرے سا منے میرا یار جگری دوست کھڑاہے میں لپک کر اِس کے اتنے قریب ہوگیاجیسے قوسین۔ہم بغل گیر ہوگئے کافی دیر تک ایسے ہی رہے۔ پھر ذراسنبھلے، تو میںنے اُسے اندر ڈرائینگ روم میں بیٹھایا ۔ اِس دوران اُس سے میں نے کہا کہ یار تم تو یکدم ہی بدل گئے ہو میں نے تو تمہیںتمہاری آواز سے پہنچاناہے لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ عمراورحالات کے ساتھ اِنسان کا ظاہری حلیہ تو چاہئے جتنا بدل جا ئے مگر اِس کی آواز اور بولنے کا انداز کبھی نہیں بدلتا ہے میں بتاتا چلوں کہ یہ میرا جگری دوست عبدالحق بلوچ ہے جو30سال پہلے لندن چلاگیاتھا مگراَب جو ایک لمباعرصہ لندن میں گزار کر اپنے دیس پاکستان واپس آگیاہے اور اِن دِنوں شہر کراچی میں مستقیل سکونت اختیار کرچکاہے ۔اِس کی یوں اچانک آمد کی مجھے کو ئی خبر نہ تھی اِس کی وجہ یہ تھی کہ میں بھی اپنی ذمہ داریوں میں کچھ ایسا مصروف ہواہوں کہ پچھلے چند سالوں سے سِوائے اپنی فیملی اور چند قریبی عزیزوں کے اورکسی سے رابطہ بھی نہیں ہوپاتاہے۔ اِس لئے عبدالحق بلوچ کے گھروالوں سے بھی میرا رابطہ منقطع رہاہے اِسی لئے مجھے اِس کی لندن سے وطن واپسی سے متعلق آگاہی نہ ہوسکی۔

بہرحال،باتوںہی باتوں میں عبدالحق نے مجھے اپنے اچانک لندن سے پاکستان آنے کی وجہ کچھ اِس انداز اور لہجے میں بتا ئی کہ میں کیا جو بھی سُنے گا وہ بھی ششسدر رہ جا ئے گااِس نے کہا کہ ” اَزل سے ہر زما نے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میںعورت اور دولت سے متعلق ایک غلط کلیہ اور نظریہ رائج ہے کہ عورت اور دولت صغیرہ اور کبیریٰ گناہوں اور بُرائیوں کی بنیاد ہیں مگر میرا خیال یہ ہے کہ ایسا نہیںہے اگر نشہ شراب میںہوتا تو ناچتی بوتل، یکدم اِسی طرح عورت اور دولت میںکو ئی برا ئی نہیں ہے یہ ہمارا اِن کا استعمال ہے کہ ہم اِنہیں کیسے ؟ اور کن مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آج سے لگ بھگ کوئی پچاس سال پہلے میں نے جس گھر انے میں آنکھ کھولی وہ قدیم روایات کا امین تھا،جہاں ہر بڑے چھوٹے پر لازم تھا کہ وہ ایک دوسرے کے مرتبے اور رتبے کا احترام رکھے گا، باالفرض اگر کسی سے کو ئی غلطی ہوجاتی تو بات بڑوں تک پہنچتی تو گھر کے بڑوں کی پنچایت میں صلاح صفائی اور سزاو جزا کے فیصلے ہوتے، سزاوار کو کئی دِنوں تک گھرانے کے اندر ہوتے ہوئے بھی ظاہراور باطنی لحاظ سے گمنا می کی سی زندگی گزارنی پڑتی تھی دراصل یہ بھی تربیت کاہی ایک عمل تھا ۔

مگرآج جب میں یورپ کی اپنی30سال کی زندگی کا سوچتا ہوں تو مجھے بھی دوسروں کی طرح اپنا دامن پاکیزہ اور با اخلاق زندگی سے خالی نظر آتا اگر میں پہلے ہی دن عورت کی خوبصورتی اور دولت کی چمک سے بہک جاتا، مجھ پراللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ اِس نے مجھے وہاں کی غلیظ اور بدبودار زندگی سے بچایا؛ میری دنیا اور آخرت کو سنوارامیں اِس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ آج لندن اور یورپ سے دوررہنے والوں کووہاں کی زندگی میں جتنی چمک اور رانائیاں دِکھا ئی دیتی ہیں یہ سب آنکھ کا فریب ہے وہاں کچھ نہیں ہے یہاں دنیا کی ساری اخلاقی بُرائیاں مخمل میں لپیٹ کر خوبصورت بنا کر پیش کی جا تی ہیں۔

غرضیکہ، وہاں کی زندگی اور اخلاقی پستی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے گوبر پر چاندی کا ورق چڑھا کر اِسے حسین بنا کر دنیا کو دکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہاںکے لوگوں کی زندگی تیسری دنیا کے لوگوں کے مقابلے میں کئی گنازیادہ اُصول پسند ، ملاوٹ سے پاک ایک صاف اور شفاف زندگی ہے۔ مگر درحقیقت مدر پدرآزاد یورپ کے آزاد خیال لبرل معاشرے میں تمام اخلاقی اور سماجی برائیوں کو سجا کر خوشبولگا کرہر عمرکے اِنسانوں کے لئے خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتاہے جو اُس معاشرے میںرہ کر اُس آزاد خیال معاشرے کی بے راہ روی اور برائیوںسے بچ گیااور اپنی نسل کو بچاگیا آج وہ اللہ کے کسی ولی سے کم نہیں ہے۔

عبدالحق نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ..!! اور ایک مرتبہ پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے بولا، یار لندن کی چکا چوند زندگی میںبہک تو میںبھی جا تا جب مجھے پہلی بار تنخواہ ملی تھی اور میں خوشی سے پاگل ہوئے جارہاتھا اور اِس عالمِ خوشی میں، میں پہلی مرتبہ مئے خا نے جا نے کے لئے گھر سے نکالاتھا۔ ابھی میرے قدم اُس جا نب بڑھ رہے تھے مگر اللہ کا خوف، ضمیر کی ا یک آواز( اور والدین کی وہ ساری نصیحتیں تھیں جو اُنہوں نے مجھے وطن سے لندن روانگی کے وقت کیں تھیں)یہ سب مجھے بوجھل کئے جا تی تھیں مگر ایک جوا نی اور مدرپدر آزادی کا خمار تھا کہ مجھے مسلسل مئے خا نے کی جا نب بڑھنے کو اُکسا ئے جارہاتھا ۔ یار! ابھی میں مئے خا نے سے چند ہی قدم دور تھا کہ ایک بزرگ نے پیچھے سے مجھے بازوسے پکڑ ا اور میں رک گیا۔ پھر وہ باریش بزرگ مخاطب ہوئے کہ ’‘ نو جوان کس گمرا ہی کے دروازے کی جانب جارہے ہو، کسی شریف خاندان کے چشم و چراغ معلوم دیتے ہوئے“ بس یہی ایک لمحہ تھا کہ ا للہ نے مجھے وہاں رہ کر بھی ہر اُس برائی سے بچایا جو لندن میں برائی تو ہے مگر وہاں رہنے والے اِسے برا ئی تصورہی نہیں کرتے ہیں ہمارے بعض نوجوان یہاںآکرسب کچھ بھول بھال کر پہلے ہی روزمئے خانوں اور جواکے اڈوں کا رخ کرتے ہیںاور پھریہ بہکتے بہکتے اتنا بہک جا تے ہیںکہ اِنہیں شراب و شباب سب کچھ حلال اور جائز لگنے لگتا ہے ۔

تاہم، جن بزرگ نے مجھے پہلے دن شراب خا نے میں داخلے سے روکا تھا اُنہوں نے میری ہر قدم پر رہنمائی کی ؛ پھر بعد میں اُنہوں نے مجھ سے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی کی۔ آج اپنی اُسی پہلی و آخری نیک سیرت بیوی اور اپنی تین چھوٹی بیٹیوں کی برکت سے میرے پاس دولت بھی ہے تو عزت بھی ہے آج اگر میںیہ کہوں کہ ” مجھے عورت اور دولت نے کہیںکا تو چھوڑا“ ورنہ تو دنیا کے مردوں اور معاشروں میں یہی مشہور ہے کہ ” مجھے عورت اور دولت نے کہیںکا نہیں چھوڑا“ یہ محاوہ اور یہ جملہ میں نے غلط ثابت کردیاہے یہ تو اِنسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ برا ئی میںرہ کر خود کو سنبھالے یا خود کو تباہ کرلے۔ اگر میںخود کو سنبھالنا نہیںچاہتا تو میرے سُسر جی لاکھ مجھے سمجھاناچاہتے میںاُن کی ایک نہ سُنتا مگر چونکہ ہر اِنسان کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے جو ہر عمر کے اِنسان کے اندر قبر کی آغوش میںجانے تک بچہ ہی رہتاہے بس اُسے جس نے سمجھا لیا وہی دنیا اور آخرت میںسُرخرو ہوگیاورنہ ؟ نہ اِدھر کا رہانہ اُدھرکارہے گا“ عبدالحق نے بتایاکہ آج میری بیٹیاں بڑی ہورہی ہیں ویسے تو وہاں کا معاشرہ بیٹیوںتو بیٹیوںبلکہ بیٹوںکے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے سو میںاپنی پاک سرزمین پاکستان میں آگیاہوںاَب میری خواہش ہے کہ یہاں میںاپنی بیٹیوں کی مذہبی تعلیمات کے مطابق پروش اور تربیت کروں گا اورآئندہ اپنی پاکستا نی قوم کے بچوں کواپنی بیٹیوں کی صورت میں پڑھی لکھی اور باشعور مائیںدوں “ میںعبدالحق کی باتیں سُن رہاتھا اور سوچ رہاتھا کہ یہ کتنا عظیم انسا ن ہے جو لند ن کی چکاچوند زندگی کو ٹھوکر مار آگیاہے اور اپنے دیس میں اپنی باقی زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہا ہے۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

azamazimazam@gmail.com