عورت اس لفظ کا مطلب ہی پردہ ہے عورت کا اصل زیور حیا ہوتا ہے، غریب ہو یا امیر،خوبصورت ہو یا بدصورت،حیا کے بغیر عورت کچھ بھی نہیں،باپردہ خواتین میں انتہاء مقدس حسن نظر آتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دیکھنے والوں کی نگاہوں میں بھی پاکیزگی آ جاتی ہے عورت کو ”مستور” یعنی چھپی ہوء چیز کہا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو کشش اور حسن پوشیدگی میں ہوتا ہے،اور اگر کھلی نظر آنے والی شے میں خوبصورتی ہو بھی تو چند بار دیکھنے کے بعد وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے،انسان حسین سے حسین منظر بھی چند بار دیکھتا ہے اور اس کے بعد وہ منظر اپنا حسن اپنی اہمیت کھو دیتا ہے،اسلام نے خواتین کی عصمت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کو حجاب کا حکم دیا ہے تاکہ حجاب میں ایک طرف اس کا حسن و رعناء برقرار رہے تو ساتھ میں وہ ہوس زدہ نظروں کے زخموں سے بھی محفوظ رہے۔
عورت کی مثال اس بند مٹھی کی طرح ہے جو اگر وہ بند ہے (یعنی باپردہ) تو ہیرے، جواہرات، سونا، چاندی کی طرح اس کی بیش بہا قیمت ہے لیکن اگر وہ مٹھی کی طرح کھل جائے (بے پردہ ہوجائے) تو وہ بے وقعت پتھر اور کنکریوں کی مانند ہے جس کی کوئی عزت اور قیمت نہیں?،باحیا عورت غیرت مند مرد کی نشانی ہوتی ہے اس کی بے پردگی میں مرد برابر کا شریک ہے۔
اسلام نے خواتین کی فلاح و کامیابی کے لیے جو بھی تعلیمات پیش کی ہیں وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور اس نے ان تعلیمات سے ان تمام ذرائع کا سد باب کیا ہے جس سے معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی پھیل سکتی ہے اسی لیے اسلام میں عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے بے حجابانہ جانے سے منع کیا گیا، انسان کی عقل سلیم بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے!باغیرت خواتین نے اس حکم کی تعمیل کی اور دور نبوی سے چودہویں صدی ہجری کے نصف تک انہوں نے بشمول چہرے کے پردہ کیا،سورۃ الاحزاب (آیت 95)میں فرمان الہی ہے ”اے پیغمبر اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں (جب وہ راستے میں نکلیں تو)اپنی چادروں کے گھونگھٹ اپنے اوپر ڈال لیا کریں،اس سے امید ہے کہ وہ پہنچان لی جائیں اور ان کو کوء تکلیف نہ دی جائے گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ”رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو جن اعلی اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا،ان میں سے ایک نہایت بلند مرتبہ اور گراں قدر وصف ”حیا” ہے جسے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ایمان کا ”جز” اور اسکی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے،اہل ایمان کے لیے تو حکم کا لفظ ہی پردے کو واجب قرار دینے کے لیے کافی ہے،اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کرنا واجب ہے۔
مستجب نہیں یاد رکھیے،مستجب وہ عمل ہے جسے کرنے سے ثواب ہو اور نہ کرنے سے گناہ نہ ہو،جبکہ واجب وہ عمل ہے جسے ترک کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور عذاب الہی کا مستحق ٹھہرتا ہے، سورۃ الا حزاب (آیت 35) میں فرمان الہی ہے: اور جب پیغمبر کی بیبیوں سے کوء سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو، اس سے تمہارے دل اور ان کے دل شیطان کے وسوسوں سے خوب پاک رہیں گے، یہ آیت اس امر کی بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا! عورت کا پردہ کرنا شہید کے خون سے بھی افضل ہے،جب مسلمان بہنوں کو پردے کے بارے میں کہا جائے تو کہتی ہیں کہ پردہ کرنا ضروری تو نہیں ہے پردہ تو دل کا ہوتا ہے۔
انسان کی آنکھوں میں حیا ہو، نیت صاف ہو، تو کوئی کچھ کہہ ہی نہیں سکتا جب ایسی باتیں سنتی ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے کیا ہماری اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں (نعوذ بااللہ) حیا نہ تھی، یا انکی نیت صاف نہ تھی، یہی ہستیاں تو ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں،حدیث بنوی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہے ”بدن میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو تمام جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو تمام جسم خراب ہو جاتا ہے،خبردار!وہ دل ہے ” (بخاری و مسلم)یعنی دل میں جو کچھ ہو اس کا اثر جسم پر مرتب ہوتا ہے اگر دل میں پردہ ہے تو پھر اس کو باہر بھی نظر آنا چاہیے، ورنہ آپ اپنے دعویٰ میں سچی نہیں،اور بعض کہتی ہیں ہم تو پردہ کرنا چاہتی ہیں مگر گھر والے اور والدین نہیں کرنے دیتے اور والدین کی نافرمانی کرنا بھی گناہ ہے تو جان لیجیے کہ والدین کی اطاعت کرنا اس وقت واجب ہے جب انکی بات شرعی حکم کے خلاف نہ ہو اگر شرعی حکم کے خلاف ہو تو ان کی اطاعت بھی جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارک ہے:اللہ کی تابعداری کے خلاف کسی مخلوق کی تابعداری نہ کرو (بخاری و مسلم)اور کچھ صرف موسمی پردہ کرتی ہیں جب سردی کا موسم ہوا تو پردہ کر لیا اور جب گرمی آء تو چھوڑ دیا کہ گرمی میں حجاب نہیں پہنا جاتا تو میری بہنوں اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے،کہہ دیجیے کہ جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے کاش وہ سمجھ لیتے”(فرمان الہی) ہم سے دنیا کی گرمی برداشت نہیں ہوتی تو جہنم کی آگ کیسے برداشت ہوگی؟حدیث مبارک ہے:اور کچھ بہنیں اس ڈر سے پردہ نہیں کرتی کہ بعد میں چھوڑ نہ دوں اگر یہی سوچ ہو تو کوء بندہ نیکی نہ کر سکے، نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے،اخلاق کے ساتھ عمل کیا جائے اور اللہ سے استقامت کی دعا کرتے رہیں تو اللہ استقامت عطا فرما دیتے ہیں۔
بعض بہنوں کے پردہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین کہتے ہیں پردہ کرو گی تو کوء شادی نہیں کرے گا،جو مرد پردہ کی وجہ سے شادی نہیں کرے گا وہ اللہ کے احکامات کا پابند نہیں ہوگا جو اللہ کے احکامات کا پابند نہیں وہ اچھا شوہر ثابت نہیں ہو سکتا جس گھر کی بنیاد گناہ پر ہو وہ دنیا و آخرت کی بربادی سے بچ نہیں سکتے یہ سب شیطانی خیالات ہیں اللہ نے قرآن میں پردہ کا حکم دیا ہے،اے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تم اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں اپنے منہ پہ جھکا لیا کریں ”آج کی عورت گوشت کی دکان لگتی ہے اور باہر کھڑے کچھ لوگ دکان پر کھڑے کتوں کی طرح ہیں کہ جیسے ہی گوشت نظر آیا رالیں ٹپکانا شروع،آج کی عورت کے پھٹے کپڑوں سے اس کی غربت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ جسم دیکھنے کی سوچ ہوتی ہے۔
آج اگر ایک پاو گوشت لیں تو شاپنگ بیگ میں بند کر کے لے جاتے ہیں لیکن پچاس کلو کی عورت بغیر پردے کے بازاروں میں گھومتی ہے کیا یہی ہے آج کا جدید معاشرہ؟کھانا تو پاکیزہ ہو اور پکانے والی چاہے جیسی بھی ہو؟ جدید معاشرے کا عجیب فلسفہ ہے لوگ اپنی گاڑیوں کو تو ڈھانپ کر رکھتے ہیں تا کہ دھول مٹی سے بچا سکیں مگر افسوس اپنی عورتوں کو بے پردہ گھومنے دیتے ہیں چاہے ان پر کتنی ہی گندی نظریں کیوں نہ پڑیں،آج عورت خود اتنی بے حِس ہو چکی ہے کہ جو بھی پردے کی بات کرے اسکے خلاف سڑکوں پر نکل آتی ہے جبکہ ایک ایک روپے کی ٹافیوں،جوتوں حتی کہ مردوں کی شیو کرنے کے سامان تک کے ساتھ بکنے پر کوء احتجاج نہیں کرتی،بلکہ اسے روشن خیالی کی علامت سمجھتی ہے آج بکنے والی ہر چیز کے ساتھ عورت کی حیاء اور مرد کی غیرت بھی بِک رہی ہے۔
فی زمانہ برقعہ اتنا دلکش و دلفریب ہے کہ اس کے اوپر ایک اور برقعہ اوڑھنے کی ضرورت ہے!
بے پردہ نظر آئیں کل جو چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑھ گیا! پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا! (اکبر اِلہ آبادی)
پردہ عورت کے چہرے پر ہوتا ہے اگر چہرے پر نہیں تو سمجھ لیجیے کہ عقل پہ پڑا ہوا ہے،اگر جسم کی نمائش کرنا ماڈرن و ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے تو پھر جانور انسانوں سے بہت زیادہ ماڈرن و ترقی یافتہ ہیں پہلے شرم کی وجہ سے پردہ کیا جاتا تھا، اور اب پردہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے بس ہم ایک ہی فکر میں ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کاش کہ جتنی فکر ہمیں لوگوں کی ہے اتنی ہم اپنے رب کی کرتے کہ ہمارے اس عمل کو دیکھ کر ہمارا رب کیا کہے گا تو آج ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن چکا ہوتا! مرد اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے یا نہ کرے عورت کے لیے اسلام پردے کا حکم دیتا ہے اور عورت پردہ کرے یا نہ کرے اسلام مرد کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے اسلام جو حکم دیتا ہے اس میں ‘میں ‘ اور ‘وہ’ کا بہانہ نہیں چلتا،عورت کردار کے بغیر باسی روٹی ہوتی ہے جسے کوء کھانا پسند نہیں کرتا سب اسے چھان بورے میں دے دیتے ہیں، ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ لڑکیاں اپنے نسوانی وقار کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں کسی لڑکی کے لیے اس سے بڑھ کر ذلت کی کیا بات ہوگی کہ کوء مرد محض اپنے وقت کو رنگین بنانے کے لیے اسے استعمال کررہا ہو مرد جس لڑکی کو اپنی عزت بنا کے لے جانا چاہتا ہو اسے لے کر کبھی ہوٹلوں یا پارکوں میں نہیں گھومتا اس کے لیے باعزت راستہ اختیار کرتا ہے:
نیکی کی تم تصویر ہو،عفت کی تم تدبیر ہو! ہو دین کی تم پاسباں،ایمان سلامت تم سے ہے!