تحریر : ساجد حبیب میمن عورت کا پردہ کرنا یا حجاب پہننا اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔ حجاب عورت کے لئے تحفظ بھی ہے اور خوبصورتی بھی۔حجاب پہن کر خواتین ہر شعبہ میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا رہی ہیں، خواتین بطور ائیر ہوسٹس، پائلٹس، ڈاکٹرز، انجنئیرز، ٹیچرز، سوشل ورکررز، سیاست دان، سپورٹس گرلز اور دیگر پیشوں میں حجاب کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کررہی ہیں لیکن پاکستان سمیت لبرلزم اور سیکولرزم کے غلبہ کا شکار معاشروں میں ایک مخصوص طبقہ عورت کے حجاب کو ایک فضول اور مضاحقہ خیز فعل قرار دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حجاب کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمان عورتوں کو حجاب ترک کرنے، جدید مغربی طرزِ لباس اور طرزِ زندگی اپنانے کی ترکیب دی جارہی ہے۔
یہ ایک مخصوص مغربی ایجنڈا کے تحت ہو رہا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی ہر مذہبی ذمہ داری سے دور رکھنا ہے۔ درحقیقت اسلام نے عورت کو پردہ یا حجاب کا حکم بڑی حکمت کے ساتھ دیا ہے۔ حجاب میں ملبوس عورت گلی، محلے، بازار، مارکیٹ اور عوامی جگہ پر غیر مردوں کی نظروں سے محفوظ رہتی ہے۔ لبرلزم اور سیکولرزم کے فریب میں پرورش پانے والے میرے دوستوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں حجاب بارے کیا احکامات ہیں۔ قرآنِ کریم میں عورت اور مرد، دونوں کے لئے پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی بناوٹ کو ڈھانپنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کی آیت ملاحظہ کریں ”آپ مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے ۔اور مومنہ عورتوں سے بھی دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کر یں اوراپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اوراپنی زیبائش کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے ، شوہر کے آبا ئ، اپنے بیٹوں، شوہر کے بیٹوں، اپنے بھائیوں ،بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں اپنی ہم صنف عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ا ن بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ چلتے ہوئے اپنے پائوں زور سے نہ رکھیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے ۔اور اے مومنو سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو امید ہے کہ تم فلاح پائو گے (سورہ نور :٠٣،١٣)۔
Hazrat Mohammad PBUH
پھر ارشاد ہے ”اے نبی! اپنی ازواج اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں ۔ یہ امر ان کی شناخت کے لیے احتیاط کے قریب تر ہو گا پھرکوئی انہیں اذیت نہیں دے گا ۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے” (سورہ احزاب :٩٥)۔ حجاب کا مفہوم وسیع ہے ۔ یعنی مرد اور عورت کے صرف جسمائی اعضاء کو چھپانے کا نام حجاب نہیں بلکہ حجاب تو آنکھوں، کانوں، زبان، ہاتھ پائوں حتیٰ کہ دل کا بھی ہے۔ تاکہ یہ انسانی اعضاء بے ہودگی نہ پھیلائیں۔ ”نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو”( سورہ احزاب : ٢٣ )۔ میک اپ، بن سنور کا بازار یاباہر کسی جگہ جاناممنوع ،زینت صرف شوہروں کے لیے ہونی چاہیے ۔ہاں محرموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں۔” اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محرموں کے لئے” (سورہ نور:١٣) ۔ چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثل پاؤں زور سے مارنا پا زیب یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پید اہو پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں ۔ ارشاد ِرب العزت ہے ” اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش ظاہر نہ ہونے دیں”(نور:١٣)۔
قرآن پاک کی آیات حجاب کی فرضیت اور اہمیت کو جاگر کرتی ہیں اور اسلام میں حجاب کو غیرضروری سمجھنے یا ترک کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ لبرلز اورانکے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بدلتی ہوئی تہذیب اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق حجاب عورت کی معاشی و معاشرتی ترقی اور روز مرہ معمولات میں رکاوٹ ہے۔ ایسے لوگ یہ بات محض اپنے ذاتی مفروضوں اور لبرل سوچ کی بناء پر کرتے ہیں، حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ زندگی کی ہر شعبے میں دیکھ لیں حجاب پہننے والی خواتین اتنی ہی مستعدی اور ذمہ داری سے فرائض نبھا رہی ہیں جتنا کہ وہ عورتیں جو حجاب نہیں پہنتی۔
آپ کسی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں، آپ کو بہت سی خواتین ڈاکٹرز حجاب کے ساتھ اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے نظر آئیں گی حالانکہ یہ شعبہ ایسا ہے جس میں بے پردگی کا سب سے زیادہ خدشہ رہتا ہے، انجنئیرنگ کے شعبہ میں بھی خواتین حجاب کے ساتھ کام کر رہی ہیں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں نصف کے قریب خواتین حجاب میں ملبوس مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں۔
Hijaab Students
کالجز اور یونیورسٹیز میں خواتین تدریسی عملہ اور طالبات کی اکثریت حجاب کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں میں مسلمان خواتین حجاب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ابتہاج محمد ایک امریکی مسلمان ایتھلیٹ ہیں جو رواں برس اولمپکس مقابلوں میں حجاب پہن کر میدان میں اتریں گی۔ وہ 2013 میں تلوار بازی کی ورلڈ چیمپئین شپ میں کانسی کا تمغہ جیت چکی ہیں۔ مصرسے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون تائیکوانڈو چیمپئین ہدایا ملاک حجاب پہننے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں جنھوں نے ایک بین الاقوامی تائیکوانڈو مقابلہ ”ورلڈ تائیکوانڈو گرینڈ پری 2015 ”میں ہلکے وزن کے مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کیا ہے اور اس سال ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے موسم گرما کے اولمپکس کھیلوں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔
مصر سے ہی تعلق رکھنے والی دالیہ مگاہد وائٹ ہائوس میں امریکی صدر باراک اوبامہ کی ایڈوائزر ہیں اور حجاب پہنتی ہیں۔ خطہ عرب سے تعلق رکھنی والی اور آئرن وومین کے نام سے مشہور توکل کرمان نوبل انعام یافتہ صحافی، سیاست دان اور سماجی کارکن ہیں اور حجاب کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ کیرولون واکر امریکی مسلمان خاتون جج ہیں جو نہ صرف حجاب پہنتی ہیں بلکہ انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بائبل پر حلف لینے سے انکار کیا اور قرآن مجید پر حلف اٹھایا۔سلمہ بنت حزاب العتیبی سعودی عرب کی پہلی خاتون کونسلر ہیں اور وہ مکمل حجاب کے ساتھ اپنا فرض ادا کر رہی ہیں۔ حجاب پہننے والی مسلمان خاتون نادیہ حسین بی بی سی پر مسلسل گیارہ ہفتے تک جاری رہنے والا بیکنگ کا مقابلہ گریٹ برٹش بیک آف 2015 کا خطاب اپنے نام کر چکی ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں جن سے اس بات کی مکمل نفی ہوتی ہے کہ حجاب مسلمان خواتین کے لئے امورِ زندگی کی انجام دہی میں رکاوٹ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حجاب مسلمان خواتین کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ سہولت ہے، بے پردوہ عورتوں کوتمام معاشروں میں طرح طرح کی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں تمام مسلمان خواتین سے درخواست کرنا ہوں کہ وہ لبرلزم اور روشن خیالی کے دھوکے میں نہ آئیں، اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو ترک نہ کریں اور حجاب کو اپنی زینت بنائیں ۔ اس سے دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔
Sajid Habib Memon
تحریر : ساجد حبیب میمن موبائل: 0321-9292108 ای میل: sadae.haq77@gmail.com