کہا جا رہا ہے کہ عورت مارچ 2020 کے مستقبل میں بڑے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ عورت مارچ کیا تھا اورشرکانے اپنے مسائل کس انداز میں عوام الناس و ارباب اختیار تک پہنچائے، اس سے قریباََ سب آگاہ ہیں۔ منظم اندازمیں اس کا انعقاد کرنے والے منتظمین نے اپنے ایجنڈے کے مطابق توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ دو فریق، جنہیں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔بدقسمتی سے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آئے،راقم اس قبل اظہار کرچکا کہ یہ منتظمین و شرکاپر منحصر ہے کہ وہ اپنے مسائل کس انداز میں ارباب اختیار تک پہنچاتے اور عوام میں ان کا تاثر کیساجاتا ہے۔
اس بار توقع تھی کہ عوت مارچ کے شرکا اپنے پوسٹرز میں ذومعنی اور متنازع اشتہار بازی سے گریز کریں گے۔ لیکن عور ت مارچ کی اکثریت نے مایوس کیا۔ ممکن ہے کہ ایسا مجھے محسوس ہوا ہو، تاہم یہ میری ذاتی رائے ہے۔عورت مارچ کے شرکا کی اکثریت اَپر کلاس (اشرافیہ)سے تعلق رکھنے والے نظر آئے، مجھے ان کی ذاتی زندگی کا تو علم نہیں لیکن اس بات سے 90فیصد آگاہ ہوں کہ اشرافیہ کے محلات میں کام کرنے والی بچیوں کو برائے نام تنخواہ دی جاتی ہے، اُترن کپڑے اور کچن کا جھوٹا سالن ان کا مقدر ہوتا ہے،تمام دن ”بی بی، بابا ’‘ کو سنبھالنے والی بچیاں خود تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔عورت مارچ کے شرکا بخوبی جانتے ہیں کہ گھروں میں کام کرنے والی ملازماؤں کا کیا ’تنخواہ‘ ملتی ہے، فیکٹریوں، کارخانوں میں ایک مزدور کو کیا مراعات دی جاتی ہیں؟۔ زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ، ایک دن کی چھٹی کرنے پر پانچ سو روپے کتوتی، دو گھنٹے کی تاخیر پر آدھے دن کی اجرت روک دینا،بیماری پر علاج نہ کرانا، بلکہ زیادہ چھٹیاں کرنے پر لات مار کر محل سے نکال دینا، کیا کسی کے گھر کو کم تنخواہ ملنے سے اس پُرآشوب مہنگے دور میں خوشحالی مل سکتی۔ اب عورت کے بچے تعلیم حاصل کریں یا پیٹ کا جہنم بھریں، گیراج، بھٹہ خانوں و فیکٹریوں میں ”استاد“ کی مارکھانے پر خود پر روئے یا قسمت پر۔
جیسے جیسے چھوٹی بچیاں بڑھتی عمر کے فطری عمل سے گزرتی ہیں، جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، صحت کی سہولیات ڈسپرین، پیناڈول کی دو گولی دے دینا ہی سخاوت ہے۔ جوان ہونے کے بعد ان بچیوں کی شادیوں و گھر بسانے میں اشرافیہ کا کتنا حصہ ہوتا ہے، اس سے بھی کوئی بے خبر نہیں۔ یہ بچیاں دیہاتوں میں گوبر کے گارے سے دیوار پر ’اوپلے‘ تھوپیں یا شہر میں بنے محلات کی شیشے کی دیواروں کو مخمل کے کپڑوں سے صا ف کرتے کرتے جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھ دیں، ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ بہت بڑا طبقاتی فرق ہے۔ جسے دور کرنے اور گھریلو ملازمین کی آزادی و حقوق پر بات نہیں کی جاتی۔صرف کھوکھلے نعرے، دکھاوا اور نمود نمائش ہی کی جاتی ہے۔
جب کسی بچی کے ساتھ تشدد و زیادتی کا واقعہ سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے کہ اُس معصوم بچی پر تشدد کرنے والی خود ایک عورت ہی ہوتی ہے، جو غریب والدین سے چند پیسوں کے عوض دور دراز گاؤں سے خرید کر ساری زندگی کے لئے گھر کی’لونڈی‘ بنا کر رکھتی ہے، اُس کا پچپن بڑوں کی خدمت گاری میں گذر جاتا ہے تو لڑکپن میں ہی جانوروں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے۔ گھر سے بھاگ جانے والی بچیاں اپنا مستقبل خود تاریک کردیتی ہیں، سڑکوں پر دوڑتی چمکتی کاروں کو تکتے رہنا اور بد قماش مردوں کی غلیظ نظروں و جملوں کا سامنا کرنا اُس کے لئے نئی بات نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو پچپن سے دیکھتی و سنتی چلی آئی ہے۔ کیا اُس نے سوچا ہوگا کہ اُس نے اپنامقدر کہاں لکھ دیا، دبئی، بنکاک، ہانگ کانگ یا ریڈایریا کے قبحہ خانوں یا پھر آنٹی کے آشیانوں میں، جہاں مجبوری کی بہت بڑی قیمت انہیں دیناپڑتی ہے، کسی”اچھے مستقبل“ کے لئے وہ سب کچھ برداشت اور ایک ایسے وقت کا انتظار کرتی ہے جہاں اُسے”اپنی پسند کی زندگی“ گذارنے کا صرف ایک سنہرا موقع مل جائے۔
عورت مارچ میں مردوں سے نفرت کے احساس کو ذاتی طور پر میں نے خود محسوس کیا۔ لیکن یہاں یہ بھی دیکھا کہ اسلام آباد مارچ میں جب دونوں اطراف سے حملہ ہوا، تو عورت مارچ کی خواتین کی حفاظت کرنے والوں میں مرد حضرات کو ہی سب سے آگے دیکھا، کیا ہوا، جو وہ ”عورت مارچ“میں شریک تھے، لیکن ان خواتین کو محفوظ جگہ پر لے جارہے تھے، پتھراؤ کا سامنا سب سے پہلے خود کررہے تھے، یہاں انہوں نے ثابت کیا کہ ہاتھ کی سب انگلیاں برابرنہیں ہوتی۔ عورت مارچ کے شرکامیں برداشت کا فقدان عیاں تھا تو دوسری جانب”حیا مارچ“ کی باحجاب خواتین نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا، ایک ویڈیو میں عورت مارچ میں شامل مردوں کے ایک گروپ کو دیکھا کہ حجاب میں ملبوس خواتین پر رکیک جملے کستے ہوئے، انتہائی تضیحک آمیزرویہ کے ساتھ بے ہودہ نعرے بازی کرتے دیکھ کر کم از کم مجھے یقین ہوگیا کہ یہ انسان نہیں ہوسکتے۔
خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا گیا، اُن کے مطالبات اور پاکستان کے عورت مارچ کے نعروں میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا۔ یہاں عورت مارچ صرف جنسیات تک محدود رہا، ایسا لگا کہ یہاں مسئلہ صرف جنسیات کا ہے، مسائل نسواں کے حل کے لئے صحت مند رجحان بنانے کی ایک بھی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔عورت مارچ نے ان تین برسوں میں پاکستان میں جو کچھ اجاگر کیا وہ صر ف جنسیات اور جنسی بے راہ روی کے اردگرد گھومتا رہا،اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا، سوچنا تو یہ ہوگا کہ کیا خواتین کے مسائل کا تعلق صرف جنسی جرائم سے ہے یا پھر ہمارے معاشرے میں شہوت، ہوس اور جنس مخالف کی اشتہا و طلب ہی اصل مسئلہ ہے۔عورت مارچ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اختتام پزیر ہوچکا ، لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑچکا، ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کیا صرف خواتین کے ہی مسائل ہیں، کیا ان کے مسائل میں مرد حضرات نہیں جڑے، مرد حضرات کے مسائل کا تعلق صرف اُن سے متعلق ہے، کیا اِن کا خواتین مسائل سے کوئی رشتہ نہیں جڑا ہوا۔ دونوں طبقات کے مشترکہ مسائل کو یکساں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر عائلی حقوق ملکی قانون و شریعت اور دیگر مذاہب میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ کسی بھی دن کی مناسبت سے مردوعورت کے رشتے میں تفریق پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ مسئلہ یہیں سے شروع و ختم ہوتا ہے۔