عورت نہ تو زرخرید ہے نہ ہی وہ کوئی ایسی نمائشی شے کہ جب جس کا دل چاہے اپنی ہوس کی تسکین کرتا پھرے۔ اسلام میں عورت کو جو مقام حاصل ہے شاید ہی کوئی اور مذہب ہو جس میں اتنا مقام حاصل ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عورت کی عزت و تکریم کے احکامات قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت شدہ ہیں۔ یہی عورت ہے کہ جو ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ یہی عورت ہے جو اگر بیٹی ہے تو والدین کے لیے رحمت بنا دی گئی ہے۔ اور یہی عورت ہے جو بیوی ہے تو اپنے شوہر کا انعام بنا دی گئی ہے۔ نپولین بونا پارٹ نے کیوں کہا تھا کہ “تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں عظیم قوم دوں گا” ۔ یہ کہنے کو تو صرف ایک ضرب المثل بن چکا ہے لیکن حقیقت میں اس کہے گئے پہ غور کیجیے گا کہ آخر مائیں ہی کیوں قوموں کی عظمت و کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہیں۔ اچھی ماں اولاد کو کامیاب کر دیتی ہے۔ عورت ایک نسل پروان چڑھاتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک عورت ایک معاشرہ تشکیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ کیوں کہ ہم پوری دنیا میں شہرت رکھنے والی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہو جائیں لیکن اگر ہم نے مادرِ علمی یعنی ماں کی گود سے مثبت رویے نہیں سیکھے تو بڑی سے بڑی درسگاہ بھی ہمارا کچھ بگاڑ یا سنوار نہیں سکتی۔جن معاشروں میں عورت کو عزت و تکریم دی جاتی ہے ان معاشروں کی ترقی کے مثبت رجحانات آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اور جن معاشروں میں عورتوں کو قابل عزت نہیں سمجھا جاتا وہاں کی ریخت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
زمانہ جاہلیت میں عورت ہی تھی جو زندہ درگور کی جاتی تھی۔ عورت ہی تھی جس کی حیثیت ایک باندی سے بڑھ کر نہ تھی۔ عورت ہی تھی جسے معاشرے میں ایک بوجھ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن ظہورِ اسلام کے بعد عورت کو اس کا مقام دیا گیا۔ عورت کو لائق تکریم کہا گیا۔ اور جس معاشرے میں عورت کو زندہ درگور کرنے جیسی قبیح رسم موجود تھی وہاں عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ۔ لیکن آج چودہ سو سال بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ عورت کی عزت کی درپے اور کوئی نہیں صرف عورت ہی نظر آ رہی ہے۔ مفادات مقدم ہوتے جا رہے ہیں اور عزت کہیں قصہ پارینہ بن کررہ گئی ہے۔ جن افعال سے نہ صرف مذہب بلکہ اخلاقیات کا بھی گزر نہیں اُن معاملات کو عورت کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ اور جس عورت کو اسلام نے ایک اعلیٰ مقام دیا ہے آج یہ فضول سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے کہ عورت کواپنے حقوق کے لیے مارچ کرنا پڑئے گا۔
ہمارے معاشرے میں آج سے کچھ سال قبل تک عورت مارچ جیسی روایات نہیں تھیں(کوئی شک نہیں کہ عورت کے حقوق ایک مخصوص سوچ کے حامل طبقے کی طرف سے سلب بھی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن یہ رجحانات کبھی بھی اکثریت میں نہیں آ سکے اور نہ ہی ان رجحانات میں کسی بھی صورت عورت کی تذلیل کا عنصر نمایا ں ہو پایا)۔ ہمارے ہاں عورت کو ایک شے کے بجائے بطور انسان دیکھا جاتا رہا ہے اور دیکھا جاتا ہے۔ اور جہاں بھی عورت کے حقوق پہ قدغن لگتی ہے وہاں اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئی ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے جو مفاد پرست عناصر یہ تاثر دینا شروع ہو گئے ہیں کہ خدانخواستہ عورت پتھر کے دور جیسی زندگی گزار رہی ہے ، عورت کو ایک جانور کی طرح بس کھونٹے سے باندھنے کے قابل سمجھا جاتا ہے، یہ نہ صرف مکمل طور پر غلط ہے بلکہ اس میں حقیقت بھی نہیں ہے۔ محدود چند واقعات کے علاوہ ہمارے ملک کی اکثریت نہ صرف عورتوں کے حقوق کی حامی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر معاملے میں ان کی رائے کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اس کی واضح مثال اپنی زندگی کے فیصلے میں ان کی رائے کو اہمیت دینا ہے۔
پاکستان میں عورت آج فائٹر پائیلٹ ہے، انجینئر ہے، ڈاکٹر ہے، صنعتکار ہے، بزنس ویمن ہے، پبلک ٹرانسپورٹ چلا رہی ہے۔ معاشرے میں اکیلی رہ جانے والی خواتین اپنی گزر بسر کے لیے ایسے روزگار میں بھی پنجہ آزمائی کر رہی ہیں جو پہلے صرف مردوں کے ساتھ منسوب تھے۔ تو پھر کون سی آزادی ایسی رہ گئی جس کے لیے کچھ مفاد پرست عناصر پہ مشتمل ٹولے کو غلیظ زباں میں لکھے گئے پوسڑ اُٹھائے احتجاج کی نوبت پیش آئی۔ وہ کون سی عورت ہے جو یہ چاہتی ہے کہ وہ معاشرے میں شوہر سے طلاق کو اپنا مثبت پہلو بنا کے پیش کرئے۔ ہمارا مذہب عورت کو فیصلے کا حق دیتا ہے لیکن اس کو پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو عورت کو نام سے گندگی پہ مشتمل فقرے سر عام ادا کرنا اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ انہوں نے اس کو نام عورت مارچ یا آزادی مارچ وغیرہ کا دیا ہے۔ جب کہ جتنی باشعور پڑھی لکھی عورتیں ہیں وہ تو خود اس پوری مہم کے خلاف کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ عورت کے نام کے لیے قابل تکریم و عزت عورتیں تو اس پوری مہم سے خود کو لا تعلق ثابت کر رہی ہیں۔ عورت کے نام پہ دھبہ مستورات ہی اس پوری مہم میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہی ہیں۔ کیا اقلیت کبھی بھی اپنے خیالات اکثریت پہ تھوپ سکتی ہے؟ کیا کبھی بھی چند مفاد پرستوں کا ٹولہ اکثریتی افراد پہ زبردستی اپنے فیصلے ٹھونس سکتا ہے۔
مذہب، اخلاقیات، معاشرہ کہیں بھی ایسی مہم کو نہ تو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے نہ دیکھا جا سکتا ہے۔ عورت کو تو ہر روپ میں باعث عزت و تکریم و رحمت گردانا گیا ہے۔ یہ کچھ مفاد پرست غیر ریاستی ادارے ، این جی اوز، تنظیمیں جو بیہودگی جاری رکھے ہوئے ہیں یہ عورتوں کے جائز حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اُٹھاتیں۔ ان کا مفاد یقینی طور پر بھٹوں پہ کام کرنے والی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کے لیے ان کو مائل نہیں ہونے دے گا۔ ان تنظیموں و افراد کی پشت پناہی کرنے والے افراد یقینی طور پر نہیں چاہیں گے کہ یہ مفاد پرست ٹولہ کبھی تیزاب گردی کا شکار ہونے والی عورتوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ کیوں کہ یہ جوبھی آواز بلند کرنے والے افراد ہیں انہیں تو عورتوں کے حقوق سے سروکار ہی نہیں ہے یہ تو صرف مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا تو صرف مفادات کی تکمیل ہے۔۔