تحریر: صباءعیشل عورت کی عزت اور اہمیت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ بہن’بیٹی ‘ ماں ہر روپ میں مقدس اور پاکیزہ ہے۔ بیٹی جب پیدا ہوتی ہے لاشعوری طور پر یہ بات اسکے ذہن میں بٹھا دی جاتی ہے کہ وہ صنف نازک بھی ہے ایک ایسی کلی جسے کبھی بھی مسلا جاسکتا ہے نوجوانی کی دہلیز کو چھوتے ہی وہ اپنے اور اپنوں کیلئے اپنی حفاظت کرنا شروع کردیتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے مغربی اقوام سے متاثر ہو کر مرد قوم نے عورت کا جینا مشکل بنادیا ہے شاید ہی دنیا کا کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں مغرب کی عریانیت نے اپنے رنگ نا دکھلائے ہوں۔ بے راہ نوجوان مخالف جنس کو ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ گلی ‘ محلے’ بازار ‘ چوک درس گاہیں کوئی جگہ ایسی نہیں جو اب محفوظ رہ گئی ہوں رہی سہی کسر موبائل فونز کی بے تحاشا مقبولیت اور اسکی طرف بڑھتے نوجوان نسل کے رحجان نے پوری کردی ہے۔
اپنی چکنی چپڑی باتوں سے خوبصورت اور کم عمر لڑکیوں کو سہانے خواب دیکھا کر بہلایا پھسلایا جاتا ہے اور پھر انکا استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے اور اس فریب میں پھنس کر عزت گنوا دینے والی لڑکیاں اپنی عزت کیساتھ ساتھ گھر والوں کا اعتبار ساری عمر کیلئے کھو بیٹھتی ہیں۔بہن کے روپ میں عورت کو معطر اور پاکیزہ سمجھنے والے گھٹیا مرد جب عورت ہی کی عزت کو پیروں تلے روندتے ھیں تو جانے ایک لمحہ کو بھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسا ہی ایک وجود ان کے گھر میں بھی موجود ہے اور جو کچھ کسی اور کے ساتھ ہونے جارہا ہے وہ ان کی بہن کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
Wife
شادی کے بعد ایک عورت صرف ایک شخص کی خاطر اپنا سارے رشتے بھلا کر ایک نئی دنیا بساتی ہے۔ لیکن قدم قدم پر تذلیل اور ہر بات پر اسکو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ گھر اسکا نہیں بلکہ وہ ازخود ان سب لوگوں کی ملکیت میں شامل ہوگئی ہے۔قدم قدم پر تذلیل ‘ بے انصافی’ الزامات کی بوچھاڑ عورت سب کچھ سہتی ہے مگر اس سب کے باوجود مرد ذات اپنی اوقات دکھانے سے باز نہیں آتا۔ ایک صابر شریف امانتدار بیوی کے ہوتے اسے ایک عدد گرل فرینڈ کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو اسکی بیوی کے گھریلو مصروفیات کے اوقات میں ہمہ وقت اسکا دل بہلائے’ جو اس سے رومینس کرسکے۔
ایک طرف تو اپنی شریک حیات کو دھوکا دیتا ہے تو دوسری طرف اس وجود کو جسکو پیار کے سنہری جال میں پھنسا کر اپنے دام و فریب میں لیتا ہے۔ عورت لڑکی ہو یا عورت دونوں ہی صورتوں میں مردوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہوتی ہے۔ جسے وہ جب چاہتا ہے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور پھینک دیتا ہے۔یہ کسی ایک عورت کی توہین نہیں بلکہ حوا کی بیٹیوں کی توہین ہے۔ یہ کسی ایک عورت کے صبر کی تحقیر نہیں بلکہ صنف نازک کی ذلت ہے جو رشتوں کا مطلب تک نہیں جانتے مگر رشتوں پر حق جمانا چاہتے ہیں۔
عورت صرف بیوی نہیں کسی کی ماں، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن اور سب سے بڑھ کر ایک عورت ہے وہ عورت جوہمیشہ سہمی رہے ہمیشہ بے عزت ہوتی رہے اور مجازی خدا کا روپ لئے مرد انہیں کچلتے رہیں،ان کی آواز دباتے رہیں۔ پیروں کی جوتی سمجھتے رہیں اور عورت بدلے میں اندھا پیار لٹاتی رہے، مرد کو پوجتی رہے، یہی عورت ہے جس نے ایسے مردوں کو خدا بنا ڈالا ہے جو کہ انسان بھی کہلانے کے قابل نہیں۔ ایک مرد مسلمان تو عورت کے حقوق کی حفاظت کا ضامن تھا مگر آج یہی مسلمان مردعورت کے حقوق پرکالے ناگ بن کر بیٹھ گئے ہیں مگر بھول گئے ہیں کہ ایک عورت جب پیار لٹانے پر آتی ہے تو ممتا کا روپ لے کر دھرتی پر چھا جاتی ہے مگر جب اپنے لٹے ہوئے حقوق کے لئے آواز اٹھانے پرآئے تو اسے رضیہ سلطانہ کا روپ دھارنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
Brutality
عورت اگر مرد کی صورت میں شیطان کو جنم دے سکتی ہے تو وہی عورت ایسے شیطان نما مردوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ وہ عورتیں جنہیں نسل درنسل صدیوں سے صرف کچلا ہی گیا ہو ان کا ظلم کے سامنے کھڑا ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگر عورت کا صبر اور حوصلہ بہتے دریائوں کا رخ موڑ سکتا ہے تو وہی عورت جب بدلہ لینے پرآجائے توپھنکارتی ناگن سے کہیں زیادہ زہریلی ثابت ہوتی ہے۔ اگر عورت اپنے گھر کی خاطر ہر قربانی دے سکتی ہے تو وہی عورت اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے غاصبوں کی جانیں بھی لے سکتی ہے۔اگرآج بھی ہر عورت خود اپنے حقوق کی حفاظت کی ضامن بن جائے تو اس پر ہاتھ اٹھانے، اس کے حقوق غصب کرنے والے مردوں کو بھاگنے کے لئے یہ دھرتی بھی کم پڑ جائے گی۔
اگر ایک دیاجل جائے تو اس سے ہزاروں دیئے جلائے جا سکتے ہیں اسی طرح اگر ایک عورت اپنے حقوق پہچان کر ان کی ضامن خود بن جائے تو آنے والی نسلوں کا مستقبل بدلا جا سکتا ہے۔ ایسے مردوں کے آگے سر جھکا کرخاموشی سے حقوق لٹانے کی بجائے سر اٹھا کرجینے کی روش ڈالنی ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ عورت اگر ارادہ کر لے تو اسے بدلنا ناممکن ہوتا ہے۔ اگرآج عورتوں کو گھروں میں پیٹا جاتا ہے۔ قیدیوں کی طرح رکھا جاتا ہے تو کل یہ کسی دوسری عورت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے خود ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ فقط اس عورت کی تذلیل کا سوال نہیں بلکہ عورت سے جڑے ہر رشتے کی توہین وتذلیل ہے۔جس کا ازالہ ہمارے معاشرے میں صدیوں سے غصب ہوتے عورت کے تمام حقوق چھین کر ہی ممکن ہے۔جب تک عورت خود نہ جاگے گی اسے ان مظالم سے چھٹکارانہ ملے گا۔
جب تک عورت تشدد برداشت کرنے کی روش نہ چھوڑے گی، اس پر اٹھتے ہاتھوں کو توڑا نہ جا سکے گا اور اپنے حقوق کی پہچان کی چھوٹی سی چنگاری ہی کافی ہے ایسے مجازی خدائوں کے تخت کو جلانے کے لئے ذرا سوچئے کہ آج ایک عورت کسی نہ کسی طرح بھاگ کر ظلم سے بچ گئی مگر ان عورتوں کا کیا ہوگا جوآج بھی ایسے ہی پٹ رہی ہیں خوار ہو رہی ہیں۔چولہوں کے ساتھ بھسم ہو رہی ہیں۔ غیرت و عزت کے نام پر کٹ مر رہی ہیں، بدلے میں قربان ہو رہی ہیں، رسم و رواج کے نام پرستی کی جا رہی ہیں کون بچانے آئے گا انہیں؟جب تک عورت خود ایسے مظالم پر خاموشی کی بجائے آواز نہیں اٹھائے گی یہ سلسلہ بند نہ ہوگا۔۔
Scared Girl
عورت کوئی بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں دو وقت کی روٹی تو کسی جانور کو بھی مل جاتی ہے،لیکن اس دووقت کی روٹی کے لئے ہمارے معاشرے کی عورت کب تک ظلم کی چکی میں پستی رہے گی؟آخر کب تک یہ مظالم سہتی رہے گی؟کیا ایک عورت کو عزت کے ساتھ جینے کا کوئی حق نہیں؟میں بخوبی جانتی ہوں کہ ایک عورت کو ہزاروں طرح کے خوف لاحق ہوتے ہیں اور ایک ڈریہ بھی ہوتا ہے کہ گھر کی چاردیواری میں کون بچانے آئے گا؟
بعد میں اس کا کیا ہوگا؟مگر سچ تو یہ ہے کہ یہی ڈر یہی خوف ایک عورت کا سب سے بڑا دشمن ہے، مار ڈالئے اس خوف کو، کچل ڈالئے ایسی بزدلانہ سوچ کو، اگر ایک عورت ڈرنا خوف زدہ ہونا ختم کردے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ڈرا نہیں سکتی پھر ایسے مردوں سے کیا ڈرنا جو عورت پر ہاتھ اٹھائیں، اس کے حقوق سلب کریں گو کہ ہمارے معاشرے میں عورت صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی چلی آ رہی ہے مگرآج بھی اتنا دم ہے کہ ظالموں کو کچل سکے، ہر وہ ہاتھ توڑ سکے جو اس کے وجود پر اور اس کی عزت پر اٹھے۔
East woman
اگر مشرقی عورت مرد کو خدائی کے تخت پر بٹھا سکتی ہے تو وہی عورت اس تخت کی بنیادیں ہلانا بھی جانتی ہے۔خدارا!ختم کیجئے یہ تماشے دیکھنا اور اس طرح ایک تماشہ بن کر جینا۔اگرآج بھی مشرقی عورت کی مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھی تو اس معاشرے میں حوا کی بیٹیاں عزت نفس اور حقوق کی جنگ ہاریں گی گویا کہ آنے والی کئی نسلیں اپنا وجود ہی کھو دیں گی۔ظلم کرنے سے بڑا گناہ اس ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنا ہے اور پھر صدیوں کی اس گمبھیر خاموشی اور بے جا صبر نے آج تک ظلم کو بڑھایا ہی تو ہے۔