انسانی معاشرے میں شدید ترین انتشار پھیلا یا جا رہا ہے کہ عورت کو وراثت میں حق مرد کے برابر نہیں دیا جارہااور ایسا کرنا عورت پر بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے ساتھ نا انصافی پر مبنی ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا چرچا مسلم ممالک میں بہت جاری و ساری ہے اس کے سبب انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ عورت کے ساتھ ظلم ہورہاہے۔یہاں تک کہ جامعہ ازہر اور مجمع البحوث الاسلامی نے اس کے مضمرات کو بھی واضح کرنے سے متعلق اپپنا مئوقف واضح کیا۔افسوس کی بات ہے کہ میراث کے مسئلہ کی تشریح و توضیح قرآن و سنت اور فقہ میں بیان ہوجانے کے بعد بھی بعض نام نہاد اسلامی جماعتوں نے بھی اس مسئلہ کو مختلف فیہ بنانے کی کوشش کی اور یہ امر ان کی شریعت اسلامی لاعلمی و ناواقفیت پر بین دلیل ہے۔جو لوگ مسئلہ کو بنیاد بناکر انتشار پھیلاتے ہیں ان کی عددی اکثریت مغرب سے مرعوب ہوتی ہے کہ مغرب میں عورت مرد کے برابر مقام رکھتی ہے جب کہ مسلم ممالک خصوصاً مشرق میں عورت کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ممکن ہے اس کو برابر حق نہ دینے کی وجہ سے عورت بھیک مانگنے پر مجبور ہوسکتی ہے یا پھر بے راہ روی سے دوچار ہوسکتی ہے۔خاص طورپر جب وہ طلاق شدہ یا بیوہ ہو اور اس کے پاس کوئی کام و ملازمت نہ ہو تو اس عورت کی زندگی سوہان روح بن جائے گی۔
کہا جاتاہے کہ عورت سے میراث کا حق چوری ہوجانے کی وجہ سے بدتر حالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کے پاس مستقبل کی زندگی بسر کرنے کے لیے کوئی رقم موجود نہیں اور وہ تن تنہا ہو یا اس کی اولاد بھی ساتھ ہوتو مشکل دوہری ہوجاتی ہے کہ وہ بچوں اور اپنے لیے کھانے پینے اور تعلیم و صحت کے اخراجات کہاں سے لیکر آئے۔اسی طرح کے متعدد واقعات ہیں جو ظلم و جور پر دال ہیں کہ اسلامی معاشرے میں عورت پر ڈھائے جارہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا عورت کو مرد کے برابر لاکھڑا کرنا درست امر ہے؟۔حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ایسا کرنے سے شریعت اسلامی کے احکامات اور عدل و انصاف کے تقاضوں کی بدترین خلاف ورزی واقع ہوگی۔لہذا اس مسئلہ پر لب کشائی سے بیشتر دو اہم امور کو جان لینا ضروری ہے ۔پہلی بات یہ ہے کہ عورت پر لازم نہیں کہ وہ مرد پر کچھ خرچ کرے اگرچہ مرد سے وہ مال و متاع کے اندر زیا دہ ہو۔اس امر کا مطالبہ قرآن و سنت میں نہیں کیا گیا کہ عورت امورخانہ اور نان نفقہ کی مالی طورپر ذمہ دار ہے۔نان نفقہ فراہم کرنے کی مکمل ذمہ داری مرد پر شریعت نے عائد کی ہے کہ بیوی اور بچوں پر خرچ کرے۔شریعت اسلامی نے طلاق کے بعد بھی مرد کو مکلف بنانایا ہے کہ عدت کے ایام مکمل ہونے تک بیوی بچوں کی کفالت کا انتظام کرے ۔اگرچہ ان کو رہائش کرایہ پر لے کر دینے کی ضرورت ہو تو بھی مرد اس کو انجام دے گا۔اور اگر بچہ ک سن ہو تو اس کی پرورش کا خرچ بھی والد کی ذمہ داری ہے کہ اداکرے۔ان تمام تراخراجات کی ذمہ داری مرد کی ہے ایک روپیہ بھی عورت کے ذمہ نہیں کہ وہ اداکرے۔
اگر عورت غیر شادی شدہ ہو یا بیوہ و مطلقہ ہو تو عدت کے گزرنے کے بعد اس پر خرچ کرنے کی ذمہ داری والدین اور بھائیوں پر عائد ہوجاتی ہے جو کوئی بھی زندہ ہوںکیونکہ ان کو عورت کی نسبت میراث میں حصہ ملتاہے اور عورت پر خرچ کرنا ان کی بنیادی ذمہ دارای ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ بعض حالات ایسے بھی ہیں کہ جن میں باب فوت ہوجائے اور اس کے تین یا چار بھائی اور بہنیں ہوں اور بیٹی ایک ہی ہو تو اس صورت میں بیٹی کو کل ترکہ کا نصف دیا جائے گاجبکہ دوسرا آدھا حصہ ان بہن بھائیوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔اسلام نے اس بات کی رعایت نہیں رکھی کہ بیٹی مال دار ہے اور اس کے پاس بہت زیادہ مال و متاع موجود ہے یا اس نے کسی مالدار گھرانے میں بیاہی ہو تو اور اس کے چچا اور پھوپھیاں غربت و افلاس کی چکی میں کیوں نہ پس رہے ہوں تب بھی بیٹی کو نصف حصہ دیا جائے گا۔یہ حقوق واجب ہیں کہ مکمل طورپر اصل حالت میں انجام دیئے جائیں تاکہ عورت کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔حکم وہی حرف آخر ہے جو اللہ نے نازل کیا ہو”کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا بلکہ وہ تو لطیف و خبر رکھنے والا ہے”کیسے عجب لوگ ہی کہ اپنی ہوا اور ہوس کے مطابق شرعی اصولوں کے متعلق غلط حساب و اندازے لگاتے ہیں۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جو لوگ دین کے ساتھ کھیلتے ہیں کہ میراث کے مسئلہ میں وہ خود اس عورت پر ظلم کرتے ہیں۔شریعت اسلامی کا مذاق اڑانا اور تمسخرکرنا اور متعین کردہ احکامات پر عمل نہ کرنا سراپاظلم ہے۔مردوں پر واجب ہے کہ وہ جو کچھ بھی حاصل کریں میراث میں وہ اس میں سے عورت پر خرچ کریں۔چچاکا بیٹا ہو یا بھائی وغیرہ سب پر لازم ہے کہ عورت کی مشکل و تکلیف کو زائل کرنے کے لیے اپنا کردار اداکریں اور اسلامی شریعت کو من و عن نافذ کریں۔جب حق داروں کو ان کا برابر حق پہنچ جائے بغیر کسی طمع و لالچ کے تو اس کے بعد واضح کردیا گیا ہے کہ عورت کی نگرانی و رعایت سے متعلق کس سے جوابدہی کیا جائے گی۔جب عورت کو اس کا حق دے دیا جاتاہے تو اس کے دل کو قرار اور سکون ملتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کو اس کا مقرر حق دیدیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو خوش و خرم اور آسودگی کے ساتھ بسر کرسکے۔جاہلیت میں ایسا ہوتاتھا کہ عور کو اس کے حق سے محرو م کردیا جاتاتھا۔آج کے معاشرے میں عورت کو جہیز و دیگر شکلوں میں تھوڑا مال دیدیا جاتاہے تاکہ وہ خاموش ہوجائے اور میراث میں جو اس کا حقیقی حق بنتاہے اس کا سوال نہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمادیا ہے کہ” تم میراث کا مال سمیٹ سمیٹ کر کھاجاتے ہواور مال کو جمع کرکے اس سے محبت کرتے ہو۔”اس عمل کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ حرص و ہوس اور لالچ کے سبب خاندانوں کے خاندان غارت ہوجاتے ہیں اور جب خاندان کے بڑے عورتوں کو اس کے حق سے محروم کردیتے ہیں تو بدیہی بات ہے کہ بچے بھی شریعت اسلامی کے مخالف امور زندگانی کا انتخاب کرلیں ۔لہذا ضروری ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا جائے۔