عورت، معاشرے کا فعال جز

Women

Women

تحریر : حنا امبرین طارق
عورت کے کردار کو کسی بھی معاشرے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ عورت ہی ہے جس کے دم سے اس کائنات میں رنگ و بہار ہے، اس جہاں میں اگر کوئی تارا جگمگاتا ہے تو اس کی تمازت کا سبب عورت کی ذات ہے غرض کہ یہ کہکشاں ،یہ گلستاں، یہ رنگ و خوشبو سب کچھ عورت کے وجود کے بنا ادھورا ہے۔ تاریخ کے آئینے میں نظر دوڑائی جائے تو پتا لگتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے خواتین کا عالمی دن 1911 میں جرمنی میں منایا گیا۔

جرمنی کی ایک ترقی پسند خاتون Clara Zetki نے 17 ممالک سے وفود بلا کر خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلانے کی کوشش میں ایک قرارداد طے کی اور پھر اس کے بعد سے آج تک اس دن کو تجدید عہد کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس معرکہ خیز قرارداد کی تگ ودو کے نتیجہ میں برطانیہ کی خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا اختیار 1918 میں حاصل ہوا اور پھر 2015 میں سعودی عرب کی خواتین بھی اس اختیار سے مستفید ہوئیں۔

اقوام متحدہ نے سب سے پہلے 1975 میں خواتین کا عالمی دن منایا، اس کے بعد سے مسلسل ہر سال خواتین کے حقوق کی پاسبانی کا بیڑا اٹھایا یہ نا صرف عورتوں کو معاشرے میں حقوق دلانے کی بات ہے بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کی انتھک خدمات کو سراہنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

Ban ki Moon

Ban ki Moon

اقوام متحدہ کے سیکریٹری Ban Ki Moon کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں کہ دنیا بھر کی خواتین کو ان کے ملک کی Parliament میں خاطر خواہ نمائندگی ملے۔یہ عالمی دن منانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو مرد کے مقابل لا کھڑا کیا جا سکے البتہ یہ کہ اسے معاشرے کا فعال جز جو کہ وہ ہے اس کا احساس دلایا جائے اور اسے یقینی بھی بنایا جائے۔

بلکل جس طرح ایک گھر میں اولاد کی تعلیم و تربیت میں مرد اور عورت اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس طرح معاشرے کو پروان چڑھانے میں بھی دونوں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ اس کا یقین دلاتے ہوئے خواتین کو انُ کا اعتماد لوٹایا جائے تا کہ ہم ایک پر اعتماد معاشرہ پیدا کر سکیں۔ جبکہ صورت حال اسکے برعکس یوں ہے کہ آج بھی دنیا میں 500 امیر لوگوں کی فہرست میں خواتین کی تعداد فقط 55 ہے آج بھی 10فیصد خواتین جنسی و ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں آج بھی اداروں کی سرپرستی خواتین کو سونپتے ہوئے کئی بار سوچا جاتا ہے۔

Women Protest

Women Protest

آئیے آج کے دن ہم مل کر دنیا کو یہ پیغام دیں کہ آذادئ اظہار ہر عورت کا بنیادی حق ہے اور یہ کہ خواتین کو جینے کا بلا تفریق حق دیا جائے۔ خواتین اگر اپنے ہونے کااحساس خود نہیں دلائیں گی تو کوئی بھی اس کو یہ حق نہیں دے سکتا، تو آئیے اور اپنے ہونے کااحساس دلائیں۔

تحریر : حنا امبرین طارق