ایک عورت نے اپنی نوکرانی کے ہاتھ جادو ٹونے والے بابے سے گدھے کا سر منگوایا کیونکہ اُس عامل نے کہا تھا اپنے شوہر کو یہ گدھے کا سر پکا کر کھلانا تمھارا مطیع ہو جائے گا وہ نوکرانی جب طشت میں گدھے کا سر رکھ کر لائی تو عین اُسی وقت اس کا شوہر گھر میں داخل ہوا اُس نے گدھے کا سر دیکھ کر پُوچھا یہ یہاں کیسے ؟ بیوی نے کہا ایک چیل اُٹھا کر جا رہی تھی اُس سے گرا ہے خاوند نے بے خیالی میں سر ہلایا اور اندر چلا گیا۔ عورت نے نوکرانی سے کہا اب اسے اُٹھا کر باہر پھینک دو پکا کر کھلانے کی ضرورت نہیں رہی یہ تو اسے دیکھ کر ہی گدھا بن گیا ہے جو ایسے جواب پر اعتبار کر لیا ۔ عامل باوے اکثر جادو ٹونے کے واسطے ”اُلووں ” کو تختہ مشق بناتے ہیں اُلو کی بوٹیاں کھلانا اُلو کا مغز کھلانا ،، غرض ہزار طریقے ہوتے ہیں اُن کے بتائے جن سے بیویاں اپنے شوہروں کو اُلو بناتی ہیں۔ ویسے آجکل کی بیویاں قدرے مختلف ہو گئی ہیں۔
شوہروں کے پیچھے بھاگنے کا ان کا قطعی کوئی پروگرام نہیں ہوتا ایک کی دس سناتی ہیں اور اگر شوہر چھوڑنے کی دھمکی دے تو اس سے پہلے دہلیز پار کر جاتی ہیں۔ ورنہ پہلے ہر عورت کا یہی مسلہء ہوتا تھا شوہر کو قابو میں کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کیئے جاتے ساس نندوں کو ٹھکانے لگانے کا کام تو خیر ہر دور میں ” ان” رہا ہے …..اور اب بھی خاصا پسندیدہ ہے لیکن شوہروں کو الو بنانے کا کام دھیما پڑ گیا ہے کیونکہ اب شوہر حضرات جادو ٹونے کے بغیر بھی بیویوں کے غلام بن جاتے ہیں اللہ جانے یہ نئے دور کی ہوا ہے یا پرانے دور کے تجربوں کا خوف۔۔۔ ویسے مجھے یہ ساری باتیں اخبار کی ایک خبر پڑھ کر یاد آ رہی ہیں کہ کہ سابق وفاقی وزیر بابر غوری نے میاں نواز شریف کے لیئے ‘ حلیم اور نہاری ‘ بھجوائی۔
یعنی سب نے معدے کے ذریعے ‘ میاں صاحب ‘ کے دل میں اترنے کا راستہ دریافت کر لیا ہے ۔ مجھے ڈر ہے اگر ” پارلیمنٹیرین ” خواتین کو یہ نسخہ بھلا لگا تو وہ پھر خالی مغز نہاریاں نہیں بھیجیں گی بلکہ بابوں باووں کے کے نسخوں پر عمل کرتے ہوئے جانے کس کس کے مغز میاں صاحب کو کھلا دیں گی ۔ اللہ معاف ایسے نسخے کبھی کبھی اُلٹ بھی ہو جاتے ہیں اور کبھی اُلٹے کام بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ پاکستان نے کسی اور شعبے میں ترقی کی ہو نہ کی ہو جادو ٹونوں والے اشتہاروں اور بنگالی باووں میں ضرور خود کفیل ہو گیا ہے جس طرف دیکھو یہ کاروبار عروج پر ہے۔اب طوطوں کی فال کا معصوم زمانہ گذر گیا اب تو ہر چینل پر اُلو بیٹھا ہے اُلو نے اتنی مقبولیت حاصل کرلی ہے کہ نیٹ پر اُلو کی ” شیپ ” والے لاکٹ بک رہے ہیں۔ اسکی آنکھوں کی جگہ دو سٹون لگے ہیں قیمت بھی مناسب ہے صرف اُلو کی شکل ہونے کی وجہ سے دھڑا دھڑ آرڈر بک ہو رہے ہیں۔
Love
برسوں پہلے بھی یہ قصے اور ٹونے ایسے ہی مشہور تھے لیکن تب یہ کام زیادہ تر خواتین کیا کرتی تھیں یا پھر ، محبوب آپکے قدموں میں ، والا نسخہ نوجوان عاشقوں میں مقبول ہوتا تھا آ جکل محبوب کی ایک جھلک کو ترسنے والے ،، پورا کا پورا محبوب ،، صرف ” ایزی لوڈ ” پر حاصل کر لیتے ہیں۔ اس لیئے وہ پاپڑ بیلنے کے زمانے گذر گئے بلکہ اب تو پھرتے ہیں مے خوار کوئی پوچھتا نہیں اس سلسلے میں مجھے ایک بہت عرصے پہلے کی پڑھی ہوئی کہانی یاد آ رہی ہے جو ایک شوہر کی توجہ اور محبت سے محروم عورت نے لکھی تھی ۔۔۔ کہ میرا شوہر ایک مہ جبیں کا اسیر ہو گیا جو اُس بازار کی تھی( پہلے ایسی بلائیں اس بازار میں ملا کرتی تھیں اب بڑی بڑی محل نما کو ٹھیو ں میں پائی جاتی ہیں)بحر حال وہ لکھتی ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو قابو کرنے کا ہر نسخہ آزما لیا حالانکہ میں خود بھی بڑی خوب صورت تھی لیکن جانے کیوں پیا من نہ بھائی اور پیا جی کا آنا جانا نہ چھوٹا۔
آخر جب میں پیروں فقیروں کے چکر لگا لگا کر تھک گئی ۔ تو ایک دن ایک باباجی نے بتایا اگر تم کسی طرح اس بازار کی کسی عورت سے اس کا کاجل حاصل کر لو تو وہ کاجل لگانے سے تمھارا شوہر تمھیں واپس مل جائے گا ۔وہ لکھتی ہے میں جو حد درجہ مایوس ہو چکی تھی دن رات رونے دھونے سے کام تھا اس خطرناک کام پر بھی راضی ہو گئی کہ اُن دنوں شریف عورتیں ایسی جگہ جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں ایک دن چھپ چھپا کے میں ایک رنڈی کے کوٹھے پر پہنچ گئی وہ بڑی خوبصورت تھی۔ اس نے مجھ سے آنے کا سبب پوچھا۔ میرا دل پہلے ہی بھرا ہوا تھا میں بُری طرح رو پڑی اور اس کے پائوں پڑ گئی ۔کہ مجھے اپنا کاجل دے دو تا کہ میں اپنی آنکھوں میں لگا کر اپنا شوہر واپس لا سکو ں اس عورت نے ساری بات سن کر مجھ سے میرے شوہر کا نام پوچھا جب میں نے اسے نام بتایا تو ایکدم ہنس پڑی کہنے لگی اے بھولی عورت! اول تو ایسا کوئی کاجل نہیں ہوتا جس کو آنکھوں میں ڈال کر مرد کو دیوانہ بنایا جا سکے۔ یہ کام ہم جیسی عورتیں اپنے عشووں غمزوں اور نازوانداز سے لیتی ہیں جو کہ شریف عورتوں کو نہیں آتے۔اور مرد تو ہوتا ہی ہرجائی ہے وہ ہم ایسی عورتوں کے پاس کھچا چلا آتا ہے اپنے گھر کی پاکیزہ اور وفادار عورت کی قدر نہیں کرتا ۔اور میں تجھ پہ ایک انکشاف کرنا چاھتی ہوں کہ تم نے جس مرد کا نام بتایا ہے وہ میرے پاس ہی آتا ہے میں ہی اسکی منظور نظر ہوں۔ تمھاری اپنے شوہر سے محبت اور تڑپ میرے دل میں گھر کر گئی ہے میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں خود تمھارے شوہر سے کنارہ کشی اختیار کر لونگی۔
اب یہ تمھاری قسمت کہ وہ تمھارا ہو جائے یا پھر کسی اور میرے جیسی سے دل لگا لے بحرحال میرا دروازہ اس پر بند ہو گا۔جوں ہی اس عورت کے الفاظ ختم ہوئے دھڑام سے دروازہ کھلااور میرا شوہر اندر داخل ہوا وہ مجھے گھسیٹتا ہوا گھر لایاغالباً وہ دوسرے کمرے میں بیٹھا ہماری باتیں سُن رہا تھا اس نے گھر آ کر مجھے چار چوٹ کی مار دی کہ تمھیں جرت کیسے ہوئی تم ایسی بدنام زمانہ جگہ پر پہنچ گئیں۔ میں نے کہا سرتاج مجھے تمھاری محبت نے مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ بحرحال مجھے کاجل تو نہ ملا لیکن اپنا شوہر ضرور واپس مل گیا۔
آجکل ایسی عورتیں شائد ہی پائی جاتی ہوں کیونکہ محبتوں کے وہ زمانے ہی نہیں رہے۔زمانے کے تقاضے بدل چکے ہیں اب تو بقول شاعر
Mrs. Jamshed Khakwani
یہاں الفاظ بکتے ہیں تجارت ہے تخیل کی محبت ایک پیشہ ہے تمھارے شہر میں محسن