تحریر : سید توقیر حسین پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انہیں بااختیار بنانے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں باقاعدہ ایک پیکیج تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا اعلان اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف8مارچ کو کرنے والے تھے مگر اس دوران پنجاب اسمبلی نے تحفظ حقوق نسواں بل کی منظوری دیدی جس پر علما کرام خصوصاً جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آئے اور میڈیا میں ایک بحث چل پڑی۔ علما اس قانون کواسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے رہے ہیں اوراس کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اس صورت حال پر وزیراعظم محتاط ہو گئے اور مجوزہ پیکیج کا اعلان موخر کردیا۔
ان کی خواہش ہے کہ پیکیج کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیئے۔ مولانا فضل الرحمن نے جاتی امرا میں ظہرانے پر وزیراعظم سے ملاقات کی ہے جس میں پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ قانون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران مولانا نے بتایا کہ وزیراعظم نے حقوق نسواں کے نئے قانون پر لچک دکھائی ہے اور اس پر مذہبی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مولانا کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ قانون کا جو نقطہ قرآن و سنت اور آئین کے خلاف ہو گا اس کی تصحیح کردی جائے گی۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو علما سے مذاکرات کرے گی۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ علما سے قانون کے قابل اعتراض حصوں پر بات چیت کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ منسوخ نہیں کیا جائے گا تاہم ا س میں علما کی سفارشات کے مطابق ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کے متعلق مذہبی حلقوں میں بعض غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جس شق کے تحت مروں کوکڑا لگانے کی بات کی گئی ہے اس کا اطلاق عام گھر یلو تشدد پرنہیں۔
Women Voilence
بلکہ خواتین سے زیادتی اور ان پر تیزاب پھینکنے پر ہوگا۔ پھر یہ حکم پنجاب حکومت نے نہیں بلکہ عدالت نے دیا ہے مولانا فضل الرحمن وزیراعظم سے ہونے والی بات چیت کی تفصیلات منگل کو منصورہ میں تمام مذہبی جماعتوں کے اجلاس میں رکھنے والے تھے جس کی کوئی اطلاع تادم تحریر باہر نہیں آئی۔ مولانا نے کہا ہے کہ اجلاس میں حقوق نسواں ایکٹ کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہوگا، سب کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ خواتین کو اسلام اور ہمارے آئین نے جو حقوق دیئے ہیں وہ انہیں ضرور ملنے چاہئیں کیونکہ ملک کی 51فیصد آبادی کو ان سے محروم کیا جا سکتا ہے نہ معاشرے میں انہیں عضو معطل بنا کر رکھا جا سکتا ہے۔
اس خطے میں عورتیں صدیوں سے استحصال کا شکار ہیں۔ ہندو دھرم کے مطابق شوہر مر جائے تو بیوی کو اس کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتاتھا جو ظلم کی آخری حد ہے۔ اسلام نے عورتوں کو عزت و تکریم دی مگر مسلمان معاشروں میں دوسرے مذاہب کی کئی رسوم و روایات در آئیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان خواتین بھی ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا شکار ہونے لگیں۔ پنجاب اسمبلی نے جو قانون منظور کیا ہے اس پر وفاق کی سطح پر بھی کام ہو رہا ہے علما کرام کی جانب سے اس پر مذہبی نقطہ نگاہ سے شدید اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔
بہتر ہوتا کہ حکومت پنجاب، اسمبلی میں بل پیش کرنے سے قبل ان سے مشاورت کر لیتی۔ اب جبکہ دینی جماعتوں کا موقف سامنے آگیا ہے تو ضروری ہے کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں اور جو بھی شقیں اسلامی ضابطوں کے منافی ہوں انہیں نکال دیا جائے۔ اس معاملے میں وزیراعظم نے جو لچک دکھائی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ توقع ہے کہ علماء کرام سے حکومت کے مذاکرات کے نتیجے میں اصلاح احوال کی صورت نکال لی جائے گی اور خواتین کو صنفی امتیاز اور تشدد سے پاک معاشرے میں کام اور فکر کی آزادی نصیب ہو گی اور وہ تمام حقوق انہیں ملیں گے جن کی ضمانت ہمارے دین نے انہیں دی ہے۔