تحریر : فرخ شہباز وڑائچ گزشتہ روز خواتین کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا گیا اس موقع پر ملک بھر میں خواتین کے حقوق کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔دن بھر الیکٹرانک میڈیا پر پیکچز بھی چلائے گئے اس دن کی مناسبت سے اخبارات میں خصوصی ایڈیشن بھی شائع کئے گئے،ایسے میں ایک دلخراش خبر نظر سے گزری خواتین کے عالمی دن کے موقع پرجب پاکستان میں سرکاری و نجی تقریبات میں خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھاٹھیک اسی دن سندھ کے ضلع قمبرشہداد کوٹ کے قریب واقع ایک گاؤں میں ایک خاتون کو ان کے کزن نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا۔نیوز رپورٹ کے مطابق ملزم کو اپنی کزن کے کردار پر شک تھا ۔عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیںان کی سالانہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ 2016 میں خواتین کے خلاف تشدد کے تقریباً 7،852 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔فائونڈیشن کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں 70 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔پاکستان میں ہر سال عزت اور غیرت کے نام پر ایک ہزار سے زائد خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسا اکثر خاندان کے افراد کی جانب سے ہوتا ہے۔عام مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے بہت سے کیسز رجسٹرڈہی نہیںہو پاتے اور اگر رجسٹرڈ ہو بھی جائیں تو خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا کیوں کہ کیس کی پیروی کوئی نہیں کرتا۔
اس سلسلے میں صوبائی وزیر برائے ترقی خواتین حمیدہ وحید الدین کی کاوشوں کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی جن کی بھرپور کوششوں سے 25 نومبر سے 10 دسمبر تک خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی مہم چلائی گئی اس مہم کا خوبصورت پہلو یہ تھا کہ وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے Her Talk کے عنوان سے خصوصی پروگراموں کا آغاز کیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے یقینا اس طرح کے پروگراموں کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کر کے قوم میں اس حوالے سے شعور عام کیا جا سکتا ہے۔عورتوں کے عالمی دن پر پنجاب حکومت کی طرف سے مرکزی تقریب ایوان اقبال میں منعقد ہوئی مجھے وزیراعلی پنجاب کی تقریر سن کرخوشگوار حیرت ہوئی کہ 2ارب روپے سے جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے اورمنفرد تعلیمی فنڈ کی بنیاد رکھی گئی اورآج پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کا حجم 20ارب ہوچکا ہے اوراس فنڈسے مالی وسائل کی کمی کے شکارغریب گھرانوں کے 1لاکھ75ہزار بچے وبچیاں وظائف حاصل کر کے اپنی تعلیمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
ان پیف سکالرز میں 1لاکھ 30ہزارقوم کی بیٹیاں شامل ہیں۔پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کی آمدن سے اب تک بچے اور بچیوں کی تعلیم کے لئے 11ارب روپے وظائف دیئے جاچکے ہیں۔اس پروگرام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں خیبرپختونخوا ،بلوچستان،سندھ ،فاٹا،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کے بچے اوربچیوں کو بھی شامل کیاگیا ہے ،جس سے صوبائی ہم آہنگی بڑھے گی اور دوریاں کم ہوں گی۔وزیراعلی پنجاب نے کاش کا لفظ استعمال کیا تو مجھے لگا جیسے یہ ایک حکمران کی نہیں ایک درد مند انسان کی آواز ہے جو دل کی گہرائی سے نکل رہی ہے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کاش70سال قبل پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں آجاتاتوگلی محلے میں دھول میں گم ہوجانے والے قوم کے گوہر نایاب تعلیم حاصل کر کے ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردارادا کررہے ہوتے ۔آج اگر قوم کے ہزاروں بچے اور بچیاں وسائل نہ ہونے کے باعث انجینئرز ، ڈاکٹرز ،پروفیسرز،ٹیچرز بننے سے محروم رہ گئے ہیں تو اس کی ذمہ دار اس ملک کی اشرافیہ ہے۔
انہوںنے کہا کہ قوم کے عظیم بیٹوں اوربیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ریاست کا فرض ہے لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں، اشرافیہ،افسر شاہی اوربااختیار طبقے نے ملک کی تقدیر کو بدلنے نہیں دیا اوروسائل کی لوٹ مار کے باعث لاکھوں بچے و بچیاں اپنا مستقبل نہیں سنوار سکیں جس کی واحد مجرم ملک کی اشرافیہ ہے اور میں بھی اس میں شامل ہوں ۔اگر قوم کے ان نگینوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے وسائل فراہم کیے جاتے تو پاکستان کا شمار بھی آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا ۔ترقی یافتہ قوم نے معیاری تعلیم اورجدید علوم کو فروغ دے کر ہی ترقی کی منزل حاصل کی ہیں۔آئیں وزیراعظم ،میں ، عمران خان،تمام سیاستدان،تاجر،جج، جنرل اپنے آپ کو پابندکریں کہ جس طرح وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اسی طرح قوم کے غریب بچے اور بچیوں کو تعلیم دلانے کیلئے اپنا کردارادا کریں اوریہی پاکستان کو آگے لیجانے کا واحد راستہ ہے ۔ آج دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ خواتین کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کیے گئے قائداعظم کے پاکستان میں سب کو ترقی کے یکساں مواقع ملنے تھے لیکن یہاں چھینا جھپٹی ،سفارش اوردھونس و دھاندلی سکہ رائج الوقت رہا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری میں باوقار مقام حاصل نہ کرسکا۔وزیراعلی پنجاب کا عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرنا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعلی پنجاب کی خواہش کے عین مطابق کبھی ہمارے ملک کے وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ،وزرائ،ججز،جنرلز،تاجر،سیاستدان اور عوام احتساب کے شفاف نظام کوکبھی اپنے اوپر لاگو کریں گے۔۔؟