تحریر : ملک محمد سلمان 8 مارچ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کی جدوجہد اور برابری کی علامت کے طور پر منایا جاتاہے ۔خواتین کا عالمی دن ہمیں ملک میں خواتین کی بااختیاری کے حوالے سے اپنے اقدامات کا ازسرِنو جائزہ لینے اور معاشرے میں خواتین کے مرتبے کو بلند کرنے کے مقصد کے ساتھ وابستگی کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ عورت کا وجود دنیا پر ذلت، شرم اور گناہ سمجھا جاتا تھا، بیٹی کی پیدائش باپ کے لئے سخت عیب اور عار تھی۔ بہت سی قوموں میں اسی ذلت سے بچنے کے لئے لڑکیوں کو قتل کر دینے کا رواج ہو گیا تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی اور عالم گیر حقارت کے برتائو نے خود عورت کے ذہن سے بھی عزت نفس کا احساس مٹا دیا تھا۔اسلام نے تمام فرسودہ خیالات اور ذہنیتوں کو بدلا اورعورت کو عزت دی۔ آج کل حقوق نسواں اور مساوات کے جو دلفریب نعرے آپ سن رہے ہیںاس کی بنیاد چودہ سو سال قبل نبیۖ نے یہ فرما کر رکھی تھی کہ”اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔ خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ” نبی کریمۖ نے حجة الوداع کے موقع پر بھی خواتین کے حقوق پر زور دیا تھا۔
بحیثیت اسلامی ملک کے ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جانی چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہم عورت کو معاشرے کا حسن، وقار اور استحکام کی ضمانت قرار دیتے ہیں اور سب سے زیادہ ظلم بھی اسی پر کرتے ہیں۔ ۔ گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا،وراثت میں محرومی، کم عمری میں شادی، جائیداد ہتھیانے کیلئے قرآن کے ساتھ شادی، غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات عام ہیں۔
قیام پاکستان کو 69 سال سے زائد عرصہ بیت گیا ، انسانی سماج اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے مگر آج بھی ہمارے سوچنے کا اندازصدیوںپیچھے ہے۔ جاگیر دارانہ ذہنیت، قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ، رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہمارا سماج بڑے متعصب اور امتیازی رویوں کا حامل ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان نامساعد حالات کے باوجود ہماری خواتین نے ترقی کی اورہر میدان میں قابل ستائش کردارادا کیا ہے۔ عدلیہ، بیوروکریسی، پارلیمنٹ، ادب، تعلیم، صحت، صحافت اور سپورٹس کے شعبوں میں خواتین اپنے جوہر دکھارہی ہیںاور نجی ادارے بڑی کامیابی سے چلارہی ہیں۔ خواتین ہر وہ ایسا کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں جسے مردوں کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے۔
یہ بات حقیقی طور پر انتہائی فخر اور اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان نے گذشتہ چند برسوں کے دوران خواتین کی بااختیاری،تحفظ اور حقوق کی فراہمی کیلئے اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ مثبت طرزِ فکر ایسے معاشروں کو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی متحرک شرکت کے فوائد سے مستفید کرتی ہے۔اس امر کا مشاہدہ انتہائی اہم ہے کہ آج خواتین اپنے کردار، ہستی اور حقوق سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ ہیں۔
فیصلہ سازی میں خواتین کو شریک کرنے کیلئے ضلعی حکومت میں خواتین کو یونین کونسل تحصیل / شہر اور ضلع کی سطح پر 33 فیصد نمائندگی ،قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں نشستیں مخصوص کرنا احسن اقدامات ہیں۔ خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی لحاظ سے بااختیار بنانے کے عمل کو بھی شروع کیا گیا جیسا کہ سرکاری اداروں میں خواتین کیلئے ملازمتوں میں کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ بری، بحری ، ائیر فورس ،رینجرز اور پولیس میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ر شامل کی گئی۔ تجارت کرنے والی خواتین کیلئے بڑے شہروں میں خواتین کے چیمبر قائم ہوئے۔ خاص طور پر خواتین کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کیلئے ”جینڈر ریفارم پروگرام” دیہی خواتین کو معاشی طور پر خودکفیل کرنے کیلئے جفاکش پروگرام شروع کیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستانی خواتین میں خود اعتماد اور شعور کی آگاہی ہوئی۔ خواتین کے تحفظ اور انکے حقوق کے استحکام کیلئے پاکستان نے وفاقی اور صوبائی سطح پر اہم قانون سازی کی ہے۔
حالیہ برسوں میں متعدد اہم بل منظور کیے گئے ہیں۔ وراثتی جائیداد کی طلبی کے سمن مردوں کے علاوہ خواتین کو بھی وصول کرانے، نکاح نامہ کے تمام کالم پر کرنے، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح کرنے، 16 سال سے کم عمر کی شادی کی ممانعت ، بیوی بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے فیملی کورٹ کارروائی کو آسان بنانا،کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے، تیزاب سے متعلق جرائم اور گھریلو تشدد سے تحفظ کے بل شامل ہیں۔ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے ہمارے ہاں مختلف ادوار میں قانون سازی ہوتی رہی ہے لیکن ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی عورت مسائل کا شکار ہے۔خواتین کو ہراساں کئے جانے کی روک تھام کیلئے ”وومین پروٹیکشن بل ”پاس ہونا خواتین کی جیت ہے ،اس بل سے فائدہ اٹھانا چاہیے اورخاموشی توڑنی ہو گی۔لیکن اگر عورت ہی ہمت ہارے گی یا اپنے خلاف ہونے والے تشدد اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گی تو ایسے کئی بل پاس ہو جائیں بے سود رہیں گے۔
دیہی خواتین کو بھی اس دن کی اہمیت کے حوالے سے باشعور کرنا چاہیے کیونکہ خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے جہاں وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو کس طرح سے روک سکتی ہیں۔لہذا ہمیں شہری اور دیہی دونوں خواتین کو باشعور کرنا ہے اور سماجی تنظیمیں اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کے مسائل اور مصائب کو روکا جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیںخواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا اور تمام امتیازی قوانین ختم کرکے ان کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع دینے ہوں گے۔
52% خواتین کو گھر کی چار دیواری میں بند کرکے پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود خواتین اراکین حقوقِ نسواں کے تحفظ اور دفاع کے لیے شاندار کردار ادا کرسکتی ہیں۔آج عالمی دن پر خواتین تجدید عزم کریں کہ وہ منظم، متحد اور متحرک ہوکر نہ صرف اپنے حقوق کا دفاع کریں گی بلکہ اپنے ذمہ فرائض کی ادائیگی کو ممکن بنا کر وطن ِ عزیز کی فلاح و بہبود اور تعمیر وترقی میں مئوثر کردار ادا کرکے اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گیں۔