تحریر : ممتاز ملک لیجیئے آخر کو حکومت کو خیال آ ہی گیا کہ خواتین کے لیئے علیحدہ سے میڈیکل کالج کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جن خواتین کو علم حاصل کرنا ہے یا جن لڑکیوں کو ان کے ماں باپ نے کسی معزز پیشے میں جانے کی اجازت دینی ہی ہے انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر کسی مرد کا علاج کرتی ہے یا کسی خاتون کا ، ویسے بھی معالج تو معالج ہی ہوتا ہے اس کی جنس سے کسی کو کوئی مطلنب نہیں ہو سکتا ۔ پہلے ہی خواتین کے الگ سیٹوں نے میڈیکل کالج کے لیئے لڑکوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کر لی ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 90 فیصد خواتین یا ان کے والدین یہ سوچ کر یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرواتے ہیں کہ چلو جی کسی اچھے گھر کا لڑکا ہاتھ آ جائے گا۔
اگر یہ بات سچ نہیں ہوتی تو کون سا ایسا احمق ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے 8 یا 10 سال ایک پیشے کی تعلیم حاصل کرے ملک و قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کروائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر ڈگری لپیٹ کر یا فریم کروا کر رکھ دے کہ نہیں جی ہمارے ہاں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ہیں یا لڑکا نہیں مانتا یا سُسر کام نہیں کرنے دیتے یا ابو پسند نہیں کرتے تو ایسی تمام ہڈ حرام خواتین سے درخواست ہے کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کے لیئے بھی یہ سروے کر لیا کریں کہ انہیں کن سے اجازت لیکر بچی کو کہیں داخلہ دلوانا ہے ۔کس کس کی اجازت لینا ہو گی اپنا کیرئیر شروع کرنے کے لیئے ۔ ورنہ کیا ضرورت ہے کسی لڑکے کا حق مار کر یوں میڈیکل کے پروفیشن کا مذاق اڑانے کا۔
ہمارے خیال میں تو یہ لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ہی غلط ہے ۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ لڑکیوں کی تمام ترجیحی سیٹس ختم کی جائیں ۔ بلکہ لڑکیوں کے 99 نمبرز پر لڑکوں کے 70 نمبرز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان لڑکوں نے کل کو فیلڈ میں آ کر ملک قوم کی خدمت کرنا ہے ۔ان لڑکیوں کی طرح گھر کے چولہے میں ڈگری نہیں جھونکنی ۔ ہر لڑکی جو میڈیکل یا انجینئیرنگ یا ایسی ہی کسی پروفیشن کو چنتی ہے تو اس سے خصوصی فارم بھروایا جائے ۔ جس میں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد لازمی فیلڈ میں پریکٹس کرینگی اور سوائے بچوں کی پیدائش یا بیماری کے کسی بھی صورت میں دو یا تین سال سے زیادہ اپنے پیشے سے چھٹی نہیں کر سکتیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرینگی تو انہیں کم از کم دس لڑکوں کو اس شعبے کی ڈگری دلوانے کے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے ہوں گے۔
Women Education
اس قانون کے بعد یا تو لڑکیاں اس شعبے میں آئیں گی نہیں اور جو آئیں گی وہ پوری ایمانداری سے اور اپنا ذہن بنا کر اس پیشے کا انتخاب کریں گی ، اور اپنے ملک کے لیئے پوری طرح سے ایک مفید شہری ثابت ہونگی ۔ اور جو لوگ سٹیٹس سمبل کے طور پر لیڈی ڈاکٹر یا وکیل کا انتخاب تو کر لیتے ہیں تاکہ معاشرے میں انکی ناک اونچی ہو جائے تو انہیں پھر یہ سوچ کر لڑکی کا انتخاب کرنا ہو گا کہ اس لڑکی کو اپنے پیشے میں کام بھی کرنا ہے۔
ایک اور بات جو لڑکیاں ان پیشوں کا انتخاب کرتی ہیں ان میں خود بھی اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے رشتے کے وقت لڑکوں کو یہ بات واضح کہہ سکیں کہ مجھے شادی کے بعد اپنے پیشے کو جاری رکھنا ہے اگر وہ اس کے لیئے راضی ہے تو بات آگے بڑھائے ورنہ یقیناََ وہ کوئی اس دنیا کا آخری لڑکا ہر گز نہیں ہے ۔ خدا نے اُس شخص کو آپ کے لیئے منتخب کیا ہے۔ جو آپ کی تعلیم آپ کی سوچ اور آپ کی فیلڈ کی دل سے عزت کریگا ۔ اور جو ایسا نہ کر سکے اسے صرف ایک باندی چاہیئے ۔ اور اگر آپ کو خود باندی ہی بننے کا شوق ہے تو کوئی آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتا۔
حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ ہر سو میں سے کتنی لڑکیاں ڈگری لیتی ہیں، کتنی فیلڈ میں جاتی ہیں اور کتنی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ کہ یہ صرف ایک فرد کی مرضی کا نہیں بلکہ قوم کے آٹھ سے دس سال اور لاکھوں روپے کی ایک فرد پر سرمایہ کاری کا معاملہ ہے۔