تحریر : فوزیہ شیخ مجھے تعلیم یافتہ ماں دے دو میں تمہیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم دوں گا “”نپولین بونا پارٹ جس گھر میں تعلیم یافتہ عورت موجود ہو وہ گھر بذات خود ایک یونیو رسٹی ہے۔انسان بنیادی علوم ماں کی گود سے ہی سیکھنا شرو ع ہو جاتا ہے۔ماں کی گود سے ہی علم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ جاہل اور علم سے عاری ماں علم کی شمع کیسے روشن کر سکتی ہے۔جب کہ وہ خود اندھیرے میں ہے۔تعلیم انسان کے لئے اسی طرح ضروری ہوتی ہے جیسے آکسیجن زندگی کی حیات کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان بالکل حیوان کی مانند ہے، یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو عقل و شعور سے مالا مال کرتی اور زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ کرتی ہے اور بغیر علم کے انسان کبھی بھی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا، علم ہی انسان کو راہ حق کی طرف لے جاتا ہے، تعلیم کی اہمیت کے بارے میںتقریباً سبھی لوگ بخوبی واقف ہیں اور اسی وجہ سے سبھی لوگ تمام زندگی حصول علم کے لئے صرف کر دیتے ہیں قرآن و احادیث میں بھی علم پر بہت زور دیا گیا ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جو بھی ملکی تعمیرو ترقی کے لئے کوشاں ہے وہ اپنی اس ترقی کے سفر میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شمولیت کا بھی متلاشی ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے اور خواتین جو اس سلسلے میں اپنا کردار سرانجام دے رہی ہیں اس کی اہمیت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا خواتین بھی مردوں کی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہیں، ویسے تو حصول علم پر مرد و زن کا حق ہے لیکن مردوں کی نسبت خواتین کے لئے تعلیم کا حصول بہت ضروری ہے، کیونکہ انہوں نے آنے والی نسل کی تربیت کرنا ہوتی ہے۔
آنے والی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت ایک پڑھی لکھی ماں ہی بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے پاکستان میں خواتین کل آبادی کا تقریباً 51فیصد ہیں اسی وجہ سے ان کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ پڑھی لکھی مائیں اپنے بچے کی صحت و تعلیم و تربیت کا زیادہ بہتر طور پر خیال رکھ سکتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے بچے زیادہ توانا اور تعلیم کے میدان میں کامیاب ہوتے ہیں، اس کے برعکس ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی خواتین اپنے بچوں کا ویسا خیال نہیں رکھ سکتیں جس طرح سے ان کی دیکھ بھال کرنی چاہئے، ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچے زیادہ بیماریوں کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ وہ حفظان صحت کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش نہیں کرتیں،جبکہ پڑھی لکھی مائیں شروع دن سے ہی بہتر خیال رکھتی ہیں اور خوراک کی وجہ سے صحتمند بھی رہتی ہیں۔
ان تمام دلیلوں سے یہ ظاہر ہے کہ بہترین قوم اس وقت بنتی ہے جب مائیں پڑھی لکھی باشعور اور سمجھدار ہوں، آج جب انٹرنیٹ، کھیل اور ویڈیو گیمز بھی بچوں کے اخلاق کو بگاڑتے ہیں تو باشعور ماں ہی ہے جو اِن تمام اثرات سے اپنے بچوں کو بچا سکتی ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت درست طور پر کر سکتی ہیں، کیونکہ تعلیم یافتہ باشعور ہونے کی وجہ سے وہ اچھے برے کی تمیز بہتر طور پر کر سکتی ہے جو اس کے بچوں کو ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔پاکستان کے دْور دراز پسماندہ علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی افسوس ناک حد تک کم ہے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے وہاں پر تعلیمی ادارے تو ہیں مگر وہاں کے گھر کے سربراہان خواتین کو تعلیم دلوانے کا رجحان نہیں رکھتے ،کیونکہ اْن کے خیال میں تعلیم کے حصول کے بعد وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور پڑھ لکھ کر خاندان کی بدنامی کا باعث بنیں گی، ان علاقوں کی خواتین تعلیم کی خواہشمند ہیں، مگر خاندانی رسم و رواج کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہیں، اس کے ساتھ ساتھ گھر والے بھی لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر توجہ نہیں دیتے جو کہ ایک لمحہ ء فکریہ ہے اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں مختلف اقدامات کرے تاکہ یہ خواتین بھی تعلیم حاصل کر سکیں اور آئندہ آنے والے وقت میں آنے والی نسلوں اور ان کی بہترین نشوونما کر سکیں نیز اپنی صلاحیتوں کو بھی استعمال میں لاسکیں۔
گزشتہ چند سال میں پاکستان کی خواتین میں تعلیم کے حصول کا شعور اجاگر ہوا ہے جس کی وجہ سے اب پہلے کی نسبت کافی تعداد میں خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور بعد ازاں نوکری کر کے ملک و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی کفالت بھی کررہی ہیں خواتین گھر کے سربراہ کی ناگہانی موت کی صورت میں یا اس کے کام کاج کے قابل نہ رہنے کی بناء پر گھر کا نظام چلانے کی ذمہ داری بھی بخوبی سنبھالتی ہیں، اس کے علاوہ آج کے اس دور میں جب مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ایک کمانے والا اور 10کھانے والے ہیں تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے خواتین بھی مردوں کے ساتھ کام کریں اور یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں، کیونکہ بغیر تعلیم کے وہ کسی بھی قسم کی عمدہ نوکری حاصل نہیں کر سکتیں، اس لئے ہر خاتون کو تعلیم جتنی بھی ہو سکے ضرور دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکیں اور کسی دوسرے پر بوجھ نہ بنیں۔۔۔لیکن ان تمام باتوں کا مقصد ایک عورت کی وہ آزادی نہیں جس میں وہ پینٹ شرٹ پہن کر سڑکوں پہ بے حیائی کی تصویر بن کر پھرتی رہے۔ اسلام اور نہ معاشرہ کسی صورت اس تعلیم کا حامی نہیں ہے۔۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں کسی کولج اور یونیورسٹی میں حجاب اور پردہ کرنے پہ پابندی نہیں ہے۔۔
آپ بہت باعزت طریقے سے اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔۔قران پاک میں ہے”اور زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح سج دھج دکھاتی نہ پھرو۔۔”(ا لحجرات)”عفت وعصمت وہ گوہر گراں مایہ ہے جس سے انسانیت کے تاج کی زیب وزینت ہے، یہ وہ جوہر ہے جس کی قیمت پہچاننے فی زمانہ عورت کی عفت وعصمت کو سب سے زیادہ اندیشہ ان مخلوط اداروں سے ہے جن میں مرد وزن آزادانہ مل جل کر قوم کو ”ترقی،، کے اوج ثریا پر پہنچانے کی فکر میں چشم بد گھولتے جارہے ہیں۔ (اسلام کا نظام عفت وعصمت، ص:١٢) اقبال اور تعلیم نسواںآپ عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں، اس لئے اس کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن مرد وعورت کی یکساں تعلیم کے حامی نہیں اور نہ ہی مغربی مفہوم کے مطابق دونوں کی مساوات کے قائل ہیں۔ (سادات مطلق)آپ کے خیال میں دونوں کے فرائض جداجدا ہیں۔ عورت کو صرف اقتصادی آزادی کے حصول کے لئے تعلیم دینا اسلامی مقصود نہیں ہے ،کیونکہ اس سے خاندانی وحدت کا رشتہ جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو عظیم ہے، ٹوٹ جاتا ہے