لاہور (اقبال کھوکھر) پاکستان میں صنفی بنیادوں پر خواتین پر تشدد ایک تلخ حقیقت ہے جہاں وہ معاشرتی تعصب وجبر میں عزت ووقاراور شناخت کھورہی ہیں۔بالعموم خواتین اور خصوصاً اقلیتی خواتین کے مسائل کو علاقائی یا قومی سطح پر سنجیدگی سے زیرغور نہیں لایا جاتا اور نہ ہی بجٹ میں ان کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لئے قابل ذکر فنڈز مختص کئے جاتے ہیں۔ویسے بھی قوانین بنانے سے خواتین پر تشدد ختم نہیں کیا جاسکتا ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
خواتین کے ساتھ ناانصافی اورمساویانہ حقوق کی عدم فراہمی کے باعث غربت،استحصال اور محرومیاں پروان چڑھ رہی ہیں ۔ان خیالات کااظہار گزشتہ روزمقامی ہوٹل میں صنفی مساوات پروگرام کے تحت سنٹر فارلیگل ایڈاسسٹنس اینڈ سیٹلمنٹ کے زیراہتمام عورت فائونڈیشن کے اشتراک اوریوایس ایڈ کے تعاون سے منعقدہ ایک تقریب میں مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔مقررین میںچوہدری امین جاویدایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سسٹر جینویواورریورنڈفادرمورس جلال شامل تھے جبکہ پادری شاہدمعراج،ریورنڈ فادرعنایت برنارڈ،صابر گل،محترمہ نسیم،کلثوم ودیگر نے تجاویزی نشست میں خواتین کے موضوع پر بحث کی۔
نظامت کے فرائض پراجیکٹ کوارڈینیٹرنورین اختر نے انجام دیے۔ مقررین نے جبری شادی،زنابالجبر اور تبدیلی مذہب کو معاشرتی وخاندانی لحاظ سے انتہائی خطرناک قراردیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لئے ٹھوس قانون سازی پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کوبرابری کے حقوق نہ دینے سے عدم تحفظ اور مایوسی کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔مقررین نے ایسے پروگرامز کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔نیشنل ڈائریکٹر کلاس ایم اے جوزف فرانسس نے تمام مقررین اور شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی خواتین کو قانونی،سماجی اور سیاسی مساویانہ حقوق کی فراہمی کے لئے ہمیں ہرسطح پر اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب میں ملک بھر سے مذہبی وسماجی رہنمائوں نے شرکت کی جبکہ مس روز میری، مس روبینہ، مسٹر مرقس اشرف، سہیل ہابل نے انتظامی فرائض انجام دیے۔ آخر میں شرکاء کی پرتکلف کھانے سے تواضع کی گئی۔