گزشتہ پنجاب حکومت (سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف) کی جانب سے گھریلو تشدد کا شکار خواتین اور لڑکیوں کے لئے ملتان میں وائلنس اگینسٹ ویمن سنٹربنایا گیا جوکہ پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ کے تحت قائم ہوا اس ادارے کا بنیادی مقصد گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور جنسی حملوں سے بچانے میں مدد اور پناہ فراہم کرنا تھا،اس ادارے کے قائم ہونے کے بعدآغاز کے پہلے سات ماہ میں یہاں 2588 کیس درج ہوئے، جن میں 1600 گھریلو تشدد، 234 ہراسگی، 65 ریپ اور 147 قتل کی دھمکیوں کے واقعات شامل تھے ،اس سنٹر میں حکومت کی جانب سے پولیس، پراسیکیوشن، میڈیکولیگل،شیلٹر کی سہولت فراہم کی گئی تھی یہاں پر ایمبولینس کی سہولت ایک کال پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
خواتین پر مشتمل پولیس فورس ایف آئی آر کا اندراج اورلیڈی ڈاکٹرز میڈیکو لیگل کرتی ہیں اور اُن خواتین کو پناہ بھی فراہم کی جاتی ہے جو گھریلو تشدد یا خدانخواستہ کسی اور قسم کے بھیانک تشدد کا شکار ہوتی ہیں،پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمہ کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کے متعلق آگہی فراہم کرنا ہوتا ہے ،تاریخی طور پراس دن کی بنیاد 1960کا واقعہ بنا ،جب جمہوریہ ڈومینیکن میں تین سیاسی کارکن میرابل بہنیں جن کوہلاک کرنے کا حکم ڈومینیکن ڈکٹیٹر رافیل ٹروجیلو (1930-1961) نے دیا تھا ،بعد ازاں 1981 میں لاطینی امریکی اور کیریبین فیمینسٹ انکوینٹرس کے کارکنوں نے 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے بارے شعور اجاگر کرنے کے طور پریہ دن منایا۔ 17 دسمبر ، 1999 کو اقوام متحدہ میں باضابطہ قرار داد پیش کی گئی،7 فروری 2000 کو جنرل اسمبلی نے قرارداد 54/134 کے تحت 25 نومبر کو باضابطہ طور پر خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منانے کا اعلان کی۔
تمام ممالک کی حکومتوں ، بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کو عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے یہ دن منانے کی دعوت دی گئی ، اقوام متحدہ کے زیراہتمام جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کی منظوری کے بعدہر برس 25 نومبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا ذکر کیا جائے توگزشتہ پانچ سالوں کے دوران مختلف شہروں میں سینکڑوں خواتین کو بدترین گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل ، درجنوں کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا ، پنجاب کمیشن آف حقوق خواتین کے اعدا و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پینتیس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سال دو ہزار اٹھارہ میں آٹھ ہزار سے زائد خواتین پر تشدد کے واقعات درج ہوئے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پنجاب بھر میں غیرت کے نام پر تیرہ سو اٹھائیس خواتین کو قتل کردیا گیا۔پولیس ریکارڈ کے مطابق سال دو ہزار اٹھارہ میں ایک سو اکسٹھ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ پانچ سال کے دوران خواتین پر تیزاب پھینکنے کے پانچ سو چھیاسٹھ واقعات رپورٹ کیے گئے، ایک عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک عورت کو مرد کے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سال 2018 کے دوران پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا،رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مجموعی طور پر 620 خواتین اغوا کی گئیں اور سب سے زیادہ واقعات 587 پنجاب میں رپورٹ ہوئے،رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا صنفی مساوات کے حوالہ سے پاکستان گزشتہ سال ایک مرتبہ پھر بدترین ملک رہا،غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے، نوکریوں کے حوالہ سے معاشرتی پابندیوں، عدم مساوات، غربت اور زبردستی کی شادیوں کی وجہ سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ،انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے والے اداروں کا یہ ماننا ہے کہ معاشرے میں خواتین کومقام مردوں سے پیچھے ہی دیا جاتا ہے اور خواتین پر تشدد کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دودہائیوں میں ہزاروں خواتین کو گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں کے مواقع ملے ،لیکن اس کے باوجود مجموعی سطح پر خواتین کے خلاف پْر تشدد ذہنیت کا خاتمہ نظر نہیں آیا ،دراصل ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں ہوا ، 2017کی مرد م شماری کے مطابق پاکستان میں خواتین کل آبادی کا 49فیصد ہیں ، ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہونے کے باوجودخواتین کی فلاح وبہبود کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ صرف تنخواہوں، بجلی ٹیلی فون کے بلوں اور گاڑیوں کے لیے پیسے استعمال کرنے سے آگے بڑھتے نظر نہیں آتے ایسے اداروں کی خدمات بھی قابل تعریف نظر نہیں آتیں ، خواتین کے خلاف تشدد اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے ملک میں کئی قوانین بنائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود تشدد کے واقعات کا مسلسل بڑھنا تشویش کا سبب ہے قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لئے حکومتیں بیانات سے آگے نہیں بڑھیں ہاں البتہ قوانین صرف کتابوں میں نظر آتے ہیں،اس معاملے میں میڈیا کا کردار بھی قابل فخر نظر نہیں آتا تشدد کے خلاف آگہی مہم میں ڈراموں مباحثوں کا سلسلہ جاری نہیں رکھا جاتا صرف چند ایک پروگرام پیش کر کے طویل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ،سندھ حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2017 سے اپریل 2018 تک خواتین پر تشدد کے 1643 واقعات سامنے آئے جبکہ رپورٹ نہ کیے جانے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، سندھ میں سرکاری سطح پر صرف سات شیلٹر ہومز موجود ہیں، جن میں سے پانچ کراچی، ایک حیدرآباد اور ایک سکھر میں قائم ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے مطابق سند ھ میں شیلٹر ہاؤس یا دارالامان کا کام نہ صرف غیر تسلی بخش ہے بلکہ صرف کاغذ وںپر نظر آتا ہے،یہ درست ہے کہ گھریلو تشدد صرف قانون بنانے سے ختم نہیں ہو سکتااس کے لئے معاشرے میں باقاعدہ آگہی مہم چلانے اوربہنوں بیٹیوں کو دین اسلام کی تعلیمات اور ملکی قوانین سے آگاہ کرنے اور انکے حقوق بتانے کی اشد ضرورت ہے ،اور تشدد کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کی بھی ضرورت ہے ،عورت پر تشدد کی تعریف یہ کی جاتی ہے ” جسمانی، زبانی، نفسیاتی طور پر کسی عورت پر ایک عورت کی جانب سے یا مرد کی جانب گھر پر یا کام کی جگہ یا پبلک مقام پر کیا گیا ہو”۔
پاکستان میں دارالامان بہت عرصہ سے سرکاری اور مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے قائم ہیں لیکن یہاں پر بھی تشدد کے حوالہ سے زیادہ کیس رپورٹ نہیں ہوتے لیکن اگر دیکھا جائے تو وائلنس اگینسٹ وومن سنٹرجوکہ ملتان میں قائم کیا گیا ہے وہاں کیس بہت زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ وائلنس اگینسٹ وومن سنٹر کے اوپر عورتوں کا اعتمادہے اگر موجودہ حکومت اس طرح کے سنٹرز پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی قائم کر ے تو تشدد کا شکار خواتین کی بھر پور مدد ہو سکتی ہے اور جرم کرنے والوں کو سزا دلوائی جاسکتی ہے ، موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کوصحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں توپھر انتہائی ضروری ہے کہ وائلنس اگینسٹ وومن سنٹرجیسے ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف بھر پور آگہی مہم بھی چلائیں۔