تحریر : ڈاکٹر ریحان غنی پٹنہ:تین طلاق پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس سے وہ خواتین خوش ہیں جن کے یہاں مذہب کو ثانوی حیثیت حاصل ہے اور جو انگریزی تعلیم حاصل کر کے روشن خیال تو ہوگئی ہیں لیکن انہیں ہر وقت اپنا وجود خطرے میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے نہ تو سیرت نبویۖ کا مطالعہ کیا ہے اور نہ ان صالح خواتین کے کردار و عمل کو دیکھا ہے جنہوں نے مردوں کو قدم قدم پر سہارا دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ذراسا موسم بدلتا ہے اور ان کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ احساس کمتری سے کیوں نہیں نکلتیں؟ حالانکہ پوری دنیا میں خاتون اختیار کاری کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس سوال پر جب میں نے غور کیاتو اس نتیجے پر پہنچا کہ خواتین کو قدرت کی طرف سے جو ذہنی قوت اور ذہنی صلاحیت ملی ہوئی ہے اس کا وہ خاطر خواہ استعمال نہیں کرتیں جس کی وجہ سے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہیںاور عملی زندگی میں ناکام ہیں۔ جو خواتین اپنی روشن خیالی کے زعم میں شکوہ و شکایت کو اپنا شیوا بنالیتی ہیں اور ذرا سی بات میں واویلا مچانے لگتی ہیں وہ ہنگامی حالات میں مردوں کے لئے رحمت نہیں بلکہ زحمت بن جاتی ہیں۔
ایسی خواتین خود بھی ناکام ہوتی ہیں اور پورے خاندان کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ خواتین جو مذہبی شعور کے ساتھ ساتھ عقل و خرد سے کام لیتی ہیں وہ ہنگامی حالات میں مردوں کے لیے معاون و مددگار ہوتی ہیں اور ان کا پورا وجود مردوں کے لئے سراپا رحمت بن جاتا ہے۔ اس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ فی الحال میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خاتون اختیار کاری کی جب بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا کر کے ان سے ہر وہ کام لیا جائے جو مرد کرتے ہیں اور انہیں وہ تمام اختیارات دے دیئے جائیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ یعنی وہ سیاست میں بھی رہیں، حکومت میں بھی رہیں ،سرکاری عہدے پر فائز ہو کر اسی انداز سے کام کریں جیسے مرد کرتے ہیں۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ مرد کوٹ پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر اپنے جسم کے تمام حصے کو چھپا لے اور عورتوں کو بے لباس کر کے ان کے جسم کے ایک ایک حصہ کو کھول دیا جائے۔ دنیا آج اسی کو ترقی کی معراج سمجھ رہی ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دھوکے میں ہے۔ دنیا والوں نے مردوں کی اہمیت کا اعتراف تو کر لیا ہے لیکن تمام تر دعوے کے باوجود وہ خواتین کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔ مردوں کی نگاہ میں وہ صرف بستر گرم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں خواتین کا استحصال ہوتا رہا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں اورعورتوں دونوں کو خلق کیا ہے اس لئے وہ ان کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہے۔ پھر اللہ ان کو ہر زمانے میں سماج سے جوڑے بھی رہے گا۔ اس لئے اللہ نے دونوں کو ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگار بھی بنایا ہے۔تا کہ دنیا کا توازن برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کے یہاں عدل کا معاملہ بھی ہے۔ اس لئے اس نے کسی سے کچھ لے لیا ہے تو کسی کو کچھ دیا بھی ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور پر تو کمزور بنایا ہے لیکن ذہنی طور پر وہ مردوں کے مقابلے زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کے برعکس اللہ نے مردوں کو جسمانی طور پر تو مضبوط بنا یا ہے لیکن ذہنی طور پر وہ عورتوں کے مقابلے زیادہ کمزور ہیں۔ اس گْر کو نبی آخری الزماں حضرت محمدۖنے سب سے پہلے سمجھا اور ازواج مطہرات نے بھی اپنے باشعور ہونے کا ثبوت پیش کر کے محسن انسانیتۖ کے لئے معاون مددگار بنیں۔
سیرت نبویۖ کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو ایسے دو بڑے واقعات ملیں گے جو خواتین کے باشعور اور ذہنی طور پر مضبوط ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں واقعات پر خواتین کو غور کرنا چاہئے تا کہ انہیں اپنی اہمیت سمجھ میں آئے۔پہلا واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی کریم ۖ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آپۖ گھبرائے ہوئے سیدھے حضرت خدیجہ ۖ کے پاس پہنچے اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر لگتا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہ ۖ نے آپ ۖ کو تسلی اور تشفی دی اور کہا کہ اللہ آپۖ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ لوگوں کے دکھ درد میں کام آتے ہیں۔ غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ نے تسلی اور تشفی کے ایسے الفاظ کہے کہ آپ کو اطمینان ہوگیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ نبی کریم ۖ جیسی عظیم المرتبت شخصیت جب پریشان ہوتی ہے تو وہ سیدھے ایک خاتون کے پاس آتی ہے اور وہ خاتون اس عظیم اور قابل صداحترام شخصیت کو ایسی تسلی اور تشفی دیتی ہے کہ آپۖ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب قریش سے حدیبیہ میں صلح ہوئی تو دب کر صلح کرنے کی وجہ سے بیشتر صحابہ ناراض ہوگئے تھے۔ چنانچہ جب رسول مقبول ۖ معاہدہ صلح لکھ کر فارغ ہوئے تو صحابہ کرام سے فرمایا اٹھو اور اپنے اپنے جانور قربان کرو۔ آپ ۖ نے اپنے اصحاب سے تین مرتبہ ایسا کرنے کو کہا لیکن کوئی صحابی نہیں اٹھے۔ آپۖ پریشان ہو کر ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس گئے اور ان سے صحابہ کرام کے اس طرز عمل کا ذکر کیا۔ اس سخت مرحلے میں بھی ایک خاتون نے آپۖ کو جو مشورہ دیا وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ حضرت ام سلمہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ۖ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں تو پھر آپۖ تشریف لے جائیے اور کسی سے کچھ کہے بغیر خاموشی کے ساتھ جانور ذبح کر دیجئے اور سر منڈا لیجئے۔ روایت میں آتا ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ ۖ باہر تشریف لائے اور کسی سے کچھ کہے بغیر جانور ذبح کیا اور سر بھی منڈالیا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کر د یئے اور سر بھی منڈایالیا۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عورت ذہنی طور پر مر دوں کے مقابلے زیادہ مضبوط اور باشعور ہے۔
ان دونوں واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے میں آپ کو کئی ہزار سال پیچھے لے چلتا ہوں اور حضرت ہاجرہ کے صبر و تحمل کا وہ واقعہ یاد دلاتا ہوں جس کی بدولت اللہ نے ہم لوگوں کو نہ صرف ”آب زمزم” جیسی نعمت اور بابرکت پانی عطا کیا بلکہ صفا اورمروہ کے درمیان بے چینی کے ساتھ اس خدا تر س اور صابر عورت کے دوڑنے کی یہ ادا اللہ کو ایسی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اسے شعائر اسلام میں داخل کر لیا اور اسے حج کا ایک اہم رکن بھی بنادیا۔ یہ بھی یاد رکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ حضرت ہاجرہ کا یہ عمل ایسا واحد غیر پیغمبر انہ عمل ہے جسے اللہ نے حج کا رکن بنا یا ہے۔ حج کے باقی جوار کا ن ہیں ان کا تعلق پیغمبروں سے ہے۔ اس طرح دنیا کے گوشے گوشے سے حج کے لئے جانے والے مسلمان خواہ وہ عورت ہو یا مرد ایک خاتون (حضرت ہاجرہ) کے عمل کی قیامت تک پیروی کرتے رہیں گے اور جو ایسانہیں کرے گا اس کا حج ادا نہیں ہوگا۔ یہ ہے اسلام میں عورتوں کا رتبہ اور مرتبہ۔اس لئے خواتین کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے انہیں اللہ نے ذہنی طور پر بہت مضبوط بنایا ہے۔ جس عورت نے یہ بات سمجھ لی وہ کبھی شکوہ شکایت نہیں کرے گی اور مردوں کے لئے معاون و مددگار بن کر بہتر معاشرہ کی تعمیر میں سرگرم عمل رہے گی۔