تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ قدرت کا عجیب و غریب نظام ہے کہ جب سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ضرورت بنایا۔ اس کی پیدائش میں تناسب بھی قائم رکھا۔ معلوم انسانی تاریخ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں رہی ہے کہ اس تناسب میں کبھی بھی فرق نہیں رہا۔ ایسا نہیں ہوا کہ کسی دور میں اللہ نے صرف مردوں کو ہی پیدا کیا اورنہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی دور میں صرف عورتیں ہی پیدا ہوئی ہوئیں۔ بلکہ ہمیشہ عورتوں اور مردوں کا تناسب برابر ہی رہا۔ اللہ نے انسانی ساخت کے لحاظ سے مرد کو قوی پیدا کیاہے۔ ان پر ذرائع معائش تلاش کرنے اور اپنی عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی۔ جبکہ عورت کو صنف نازک بنایا اور اس پر معائش کی ذمہ داری نہیں ڈالی۔ازل سے یہ اسلامی معاشرہ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ معاشرہ انسانیت کے لیے موضوع ترین بھی ہے۔ مغرب کی شیطانی تہذہب نے شیطان کی ترکیب پر اس معاشرے کی ساخت کو تبدیل کیا ہے تو وہاں خرابیاں پیدا ہوئیں جس نے ان کی تہذیب کو کھوکھلا تو کر ہی دیا ہے بس اس کے تباہ ہونے کے لیے کچھ قلیل عرصہ ہی درکار ہے۔
فلسفی شاعر شیخ علامہ محمد اقبال نے اس نقشے کو اپنے ایک شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے وہ مغربی تہذیب پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں” تمھاری تہذیب خود ہی اپبنے خنجر سے خود کشی کرے گی۔۔۔جو شاخِ نازک پہ آشان بنے گا ناپائیدار ہو گا”صاحبو! آج ہمارا کامضمون تحریک آزادی پاکستان کے سلسلے کا یہ ساتواں مضمون ہے جس میں ہم نے تحریک پاکستان میں عورتوں کے حصہ پرگفتگو کرنی ہے لیکن اس سے قبل عورت کے متعلق جو انسانی آبادی کا نصف حصہ ہے کا اسلامی نقطہ نظر بیان کرنا بھی ضروری تھا ۔ وہ اس لیے کہ شیطان جو انسانیت کاا زلی دشمن ہے وہ اس خدائی ساخت کوجھانسے دلا کر، فریب میں مبتلا کر کے اس ترتیب کو تبدیل کرنے کی کوششیں ہر دور میں جاری رکھتا ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ کوئی بھی تحریک عورتوں کے تعاون کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔اللہ نے ہمارے پیارے پیغمبرۖ کو انسانیت کی اصلاح کے لیے اُٹھایا تو وہ پہلی وحی سن کر گھر اپنی زوجہ حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے تو پریشان تھے۔ اُم المو منین حضرت خدیجہ نے رسو لۖاللہ کی ان الفاظ میں ڈھارس بندھائی کہ آپ ۖ غریبوں بے سہاروں کی مدد کرتے ہیں اللہ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ عرب کی سب سے زیادہ مالدار خاتون حضرت خدیجہ نے اللہ کی دین کو قائم کرنے میں رسولۖ اللہ سے تعاون کیا اپنی ساری دولت اللہ کے دین کو قائم کرنے میں لٹا دی۔اسی طرح جب حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کی بکھری ہوئی قوت کو جمع کرنے میں تحریک شروع کی تو خواتینِ اسلام نے ان سے اپنی ماں ام المومنین حضرت خدیجہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے قائداعظم کی مدد کی تھی۔
ان میں پہلا نمبر محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ جس کی اعلیٰ خدمات کے عوض پاکستانی قوم نے مادر ملت کا خطاب دیا جو قائد اعظمکی بہن تھی۔ وہ پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکڑ تھیں۔ مگر دولت کمانے کے بجائے اپنے عظیم بھائی کی تحریک آزادیِ پاکستان میں اوّل روز سے شریک ہو گئی تھیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے عظیم قائد اعظم تحریک پاکستان کے دوران موزی مرض میں مبتلا تھے۔ قائد اعظم کی عظیم بہن نے اس دوران ان کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ہر وقت ان کو آرام مہیّا کیا۔ سفر میں حضر میں بھی ہر وقت قائد اعظم کے ساتھ رہتیں ۔ پاکستانیوں کو مسلمانوں کی محسن اس عظیم خاتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ فاطمہ جناح اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی منظم کرنے میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ شریک رہتیں تھیں۔ و ہ عورتوں کی کئی تنظیموں کی سرپرست بھی رہیں مگر عہدہ کسی کا بھی قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد ”بی اماں” کے نام سے مشہور خاتون ،نے تحریک پاکستان کی بنیاد ،تحریک خلافت کے روح ِرواں علی برادران کی والدہ صاحبہ کا نمبر آتا ہے۔ اس خاتون نے اسلام کی محبت میں اپنے دو بیٹوں،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جواہر کو اسلام کی خدمت کے لیے پیش کیا۔١٩٣٧ء میں لکھنو مسلم لیگ کے اجلاس میں بیگم محمد علی جوہر صاحبہ کوخواتین مسلم لیگ کمیٹی کی صدر منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے دوسری مسلم لیگی خواتین کے ساتھ مل کر خواتین کی تنظیم نو کی اور تحریک آزادیِ پاکستان کو مذید آگے بڑھایا۔ کراچی سے قائد اعظم کے رفیق کارعبد اللہ ہارون کی بیگم صاحبہ نے صوبہ سندھ میں تحریک پاکستان کے لیے اپنے قربانیاں پیش کیں۔ فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر خواتین کو منظم کیا۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ صاحبہ نے بنگال میں قائد اعظم کے ہاتھ بٹائے اور بنگال کی خواتین کو منظم کر کے تحریک پاکستان کے قافلے میں شریک کیا۔ ان کاکارنامہ یہ بھی ہے کہ آل انڈیا گرلز گائیڈ فیڈریشن قائم کر کے تحریک پاکستان کوعورتوں کی افرادی قوت مہیّا کی۔ پنجاب میں عورتوں کو منظم کرنے میںفاطمہ بیگم صاحبہ کا بڑا قردار رہا۔ انہوں نے اپنے آپ کو تحریک پاکستان کے لیے وقف کر دیا خواتین کالج بنایا۔ پنجاب میں رسائل کا اجراء کیا۔ بیگم ہدایت اللہ صاحبہ نے سول نافرمانی کی تحریک کی قیادت کی تو اس میں شریک ہوئیں۔جب قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو اس کے جلوس میںخواتین کی بھاری تعداد شریک تھی۔ اس وقت فاطمہ بیگم نے مردوں جیسی بہاردی دیکھاتے ہوئے لاہور سیکر ٹریٹ پر مسلم لیگ کا ہلالی پرچم بھی لہرا دیا تھا۔١٩٤٧ء میں جب لاہور میں مسلمان ہندوئوں اور سکھوں کے مظالم سے لٹے پٹے لاہور آئے تو اس وقت مشکل کی گھڑی میں مہاجرین کے لیے ریلیف کیمپ قائم کرنے میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحبہ پیش پیش تھیں۔تحریک آزادی پاکستان میں عام خواتین تو حصہ لیا ہی تھا مگر ان کو منظم کرنے میں جو خواتین تھیں آگے آگے تھیں ان میںبیگم شاہ نواز صاحبہ،بیگم میاں محمد شفیع صاحبہ اور بیگم وقرارالنساء نون صاحبہ مشہور و معروف تھیں۔جہاں تک اس وقت کے صوبہ شمال مغربی سرحد میںخواتین کی تنظیم سازی اور انہیں تحریک آزادیِ پاکستان کا حراول دستہ بنانا تھا تو اس میں بیگم کمال ا لدین صاحبہ نے بہت کام کیا۔ وہ ١٩٢١ء میں برصغیر کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے ترکی بھی گئی تھیں۔١٩٤٣ء میں شمال مغربی سرحد صوبہ میں سے یہ اور بیگم عبدالواہاب صاحبہ مسلم لیگ کی ممبر منتخب کی گئیں۔ فعال سیاسی سر گرمیوں اور تحریک آزادیِ پاکستان میں حصہ لینے کی وجہ سے بیگم کمال الدین کو گرفتار بھی کیا گیا۔بیگم زری سرفراز صاحبہ نے ١٩٤١ء کے مسلم لیگ کے اجلاس میں عورتوں کی بھر پور نمائندگی کی تھی۔لارڈ مائونٹ بیٹن نے سرحد صوبے میں خواتینِ اسلام کے ایک بڑے احتجاجی اجتماع کو دیکھ کر ششدر ر ہ گیا تھا۔
صاحبو! دنیا کی منفردتحریک آزادیِ پاکستان میں جہاں مردوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا وہاں برصغیر کی خواتین اسلام نے بھی اپن بھر پور حصہ ادا کیا ۔ ضرروت اس امر کی ہے کہ قائد اعظم کے مثل ِمدینہ مملک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی حفاظت بھی مرد و خواتین مل جل کر کریں۔ پاکستان میں کچھ مغرب زدہ خواتین پیدا ہو گئیں ہیں یا مصنوعی طریقے سے مغربی فنڈڈاین جی اوز نے پیدا کر دیں ہیں۔ یہ خواتین پاکستان کی اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ ان کا توڑ خواتین اسلام نے جیسے تحریک آزادی ِپاکستان کے دوران سیکولر، ہندو اور انگریز خواتین کا توڑ کیا تھا۔ ایسی ہی تحریک برپاہ کر کے توڑ کرنے کی ضرروت ہے۔ اللہ ہمارے مثل مدینہ مملکت اسلامہ جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت فرمائے آمین۔