پولیس دہشت گردی اور لٹیرے

Minhaj-ul-Quran

Minhaj-ul-Quran

ادارہ منہاج القران میں ہونے والی پولیس کی غنڈہ گردی اور ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف پرقاتلانہ حملہ موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ویسے تو آج تک کوئی بھی حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ مخلص نہیں رہی ہر دور میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا اور ان لٹیروں کو کسی نے نہیں پوچھا یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس نہج پر آچکے ہیں کہ ہماری حفاظت پر مامور پولیس ہمیں ہی مارنے پر تلی ہوئی ہے۔

ادارہ منہاج القران میں پولیس نے اپنے روایتی تشدد کے ریکارڈ توڑ دیے اپنے والدین کی عمر کے بزرگوں پر اس بے دردری سے لاٹھیاں چلائیں کی ایک عام دیکھنے والے کی بھی آنکھ بھر آئی کیا ہمارے حکمران اتنے ہی فرعون بن چکے ہیں کہ انہیں اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا عوام خدمت کے یہ نام نہاد حکمران اپنے خاندان اور خود اپنے لیے تو سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ہمراہ لیے گھومتے ہیں اور جب انکا دل چاہتا ہے کسی بھی غریب شہری کو سرعام تماشہ بنا ڈالتے ہیں کیا یہ ہمارے ہی ملک کی پولیس ہے۔

جو اپنے بزرگو ں کو بے دردی سے پیٹ رہے ہیں ایسے تو مقبوضہ کشمیر میں ہوتا جہاں پر ہندو فوجی مسلمان مردو اور عورتوں پر تشدد کرتے ہیں کیا ہمارے حکمرانوں کی طرح ہماری پولیس بھی بے حس ہو چکی ہے جو اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی دہلیز پار کروا رہی ہے پولیس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے کارکن بھی انتقامی کاروائیوں میں کسی سے پیچھے نہیں جہاں پولیس نے اپنی بربریت کا کھیل کھیلا وہی پر پولیس کی سرپرستی میں لیگی کارکن بھی ڈنڈے مار مار کر گاڑیوں کے شیشے توڑتا رہا اور بعد میں بڑے فخریہ انداز میں پولیس والوں نے اسے رخصت کیا۔

جیسے اس نے کوئی بڑی جنگ جیت لی ہواس واقعہ کے اگلے دن میں منہاج القران کے دفتر میں موجود تھا کہ اطلاع ملی حکومت نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے ایک کمیشن بنا دیامیرے ساتھ بیٹھے ہوئے پاکستان عوام تحریک کے سیکریٹری جنرل اور ناظم اعلی خرم نواز گنڈا پور نے کہا روحیل بھائی ہم اس کمیشن کو نہیں مانتے کیو نکہ سب کچھ تو ریکارڈ پر ہے کہ پولیس نے کیسے دہشت گردی کامظاہرہ کرتے ہوئے سیدھی گولیاں چلائیں اور ہمارے 7کارکن شہید ہو گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے جب سب کچھ واضح ہے تو پھر کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے آپ کو لالچ دیکر بچالے گی مگر ہم کسی قسم کے کمیشن کو نہیں مانتے ہمارا مطالبہ بس یہ ہے کہ وزیر اعلی اور وزیر قانون کے خلاف ہماری ایف آئی آ ر درج کی جائے اور یہ دونوں افراد فوری طور پر اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں ورنہ ہمارے کارکنوں میں جو غم وغصہ پایا جارہا ہے وہ کہیں ان حکمرانوں وقت سے پہلے ہی تباہ برباد نہ کردے اس لیے اب بھی ان کے پاس وقت ہے کہ ہمارے شہیدوں کا لہو خشک ہونے سے پہلے پہلے یہ راہ راست پر آجائیں اورجو بادشاہت کے یہ خواب دیکھ رہے ہیں ان سے باہر نکل آئیں میں وہاں سے واپس اپنے دفتر آگیا۔

Pakistan

Pakistan

اگلے دن پھر ایک بری خبر میری منتظر تھی کہ ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف کو گولیاں مار دی گئی اور انکو تشویشناک حالت میں ہسپتال داخل کروادیا گیا کیا ہماری پولیس صرف مخالفین کو کچلنے کے لیے ہی رہ گئی یا پھر ہمارے حکمرانوں کی حفاظت کے لیے مفت کی تنخواہیں وصول کرتی پھر رہی ہے کیا پاکستان بھی کبھی ترقی کریگا یا یونہی لٹیروں کے ہاتھوں میں لٹتا رہے گا اگر ہمارا کوئی بھی ادار ہ ملک سے مخلص ہے تو پھر ان لٹیروں کے خلاف بھی آپریش کیا جائے جن کے خلاف متحدہ یو تھ کونسل پاکستان کے صدر عظیم طارق اور جنرل سیکرٹیری میاں امجد ایڈووکیٹ کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کررکھی ہے پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے۔

سوئس پارلیمینٹ نے یکم اکتوبر 2010 میں نا جائز ا ثاثوں کی وا پسی کا ایکٹ پا س کیا ہے جس کے بعد سے اب تک کئی ممالک اپنا لو ٹا سرمایہ واپس لے جا چکے ہیں جبکہ سوئس قانون کے مطابق قرضے کی ریکوری منی لانڈرنگ کریمنل تنظیم سے تعلق چوری اور کرپشن جیسے الزامات کی صورت میں کھاتے دار کی تفصیلات فراہم کر نا بینک کی زمہ داری ہے لیکن سوئس حکومت کی نا جائز دولت واپس کر نے کی اس پیش کش اور سہولیات پاکستا ن کی حکومت اور اداروں نے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس اہم قومی مسئلے سے لا تعلقی کا مجرمانہ رویہ اختیا ر کر رکھا ہے پٹیشن میں بطور ثبوت عالمی اداروں کی رپورٹ بھی پیش کی گئی ہیں جس میں اس بھیا نک حقیقت کی نشان دہی کی گئی ہے۔

اس ما لیا تی دہشت گردی کی وجہ سے ایک عام پاکستا نی کس قدر مسائل اور مشکلات کا شکار ہو گیا ہے جبکہ اگر حکومت لو ٹا سرمایہ واپس لے آئے تو پاکستا ن تمام بحرانوں سے نکل سکتا ہے پاکستا ن کی مو جودہ سما جی و سیاسی افرا تفری کے پیچھے دیگر عوامل کے علا وہ ایک بڑی وجہ معاشی بد حالی ہے درخوست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ لوٹی دولت واپس لانے کے لیے قانون بھی مو جود ہیں اور ادارے بھی لیکن سیاسی مصلحتوں اور مفاد پرستی کی و جہ سے اس قومی مسئلے پر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی لہذامعزز عدالت سے درخوست ہے۔

پاکستان کی سیاسی و معاشی خود مختاری اور وطن عزیز کے غریب اور مفلوک الحال عوام کی مشکلات سے جڑے اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کر ے درخواست میں وفاق ِ وزارت داخلہ وزارت خارجہ وزارت قانون نیب فنانشل ما نیٹرنگ یو نٹ اور نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کو بھی فریق بنا یا گیا ہے جبکہ آصف زرداری نواز شریف شہباز شریف عمران خان چوہدری شجاعت اسفند یار ولی الطاف حسین طاہرالقادری اعظم سواتی جہانگیر ترین سمیت ملک کے بڑے سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر ۔روہیل اکبر
03466444144