کتنے دکھ، افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدان جن کے ووٹوں سے ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوتے ہیں بعد میں انہیں ہی ذلیل و رسوا کرتے ہیں ایوان اقتدار میں پہنچنے والے حکمرانی کے نشہ میں غرق یہ سیاسی لٹیرے اپنے ہی محسنوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چین لینا چاہتے ہیں پنجاب بھر کی لیڈی ہیلتھ ورکرز 17 فروری کی دوپہر سے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
پورے 24 گھنٹے گذرنے کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ذرا یاد کیجیے یہ وہی ووٹر ہیں جنہوں نے آپ کے جھوٹے وعدوں میں آ کر آپ کو اپنے خاندان سمیت سپورٹ کیا اور اپنے ووٹ کی طاقت سے آپ کو آج اس قابل کیا ہے کہ آپ سرکاری دفاتر، سرکاری پیٹرول، سرکاری مراعات، سرکاری پروٹوکول، سرکاری کھابے اور عیش و آرام کر سکیں بطور پاکستانی ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہماری یہ مائیں بہنیں جو گھر گھر جا کر ہمارے بچوں کو مستقبل میں پیش آنے والی بیماریوں سے بچائو کا اہتمام کرتی ہیں اور وہ گذشتہ دو روز سے سڑکوں پر ہیں بطور قوم ہماری بھی بے حسی ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ کسی بھی شہری نے انہیں آ کر ایک گلاس پانی تک نہیں پوچھا کہ آپ پنجاب کے دور دراز علاقوں سے اپنے حق کے لیے ہمارے شہر میں آئی ہو تو ایک وقت کا کھانا ہی ہماری طرف سے کھا لیں یہ وہ خواتین ہیں جو جانوروں کی طرح کام کرتی ہیں۔
اپنے اپنے دفاتر میں بھی انکو اپنی عزت بچانا مشکل ہوتا ہے وہاں پر بیٹھے ہوئے بھیڑیے نما جنسی درندے انہیں ہوس بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں جو ان کے آگے اپنی عزت نیلام کردے انہیں سب مراعات گھر بیٹھے بھی مل جاتی ہیں جو انکار کر دے انہیں سڑکوں پر رلایادیا جاتا ہے اگر کسی کو کوئی شک ہو تو وہ صوبائی محتسب پنجاب (خاتون) کے دفتر میں پڑی ہوئی لیڈی ہیلتھ ورکروں کی درخواستیں پڑھ لے پنجاب تو بہت بڑا ہے اور اسکے دور دراز کے اضلاع جہاں قانون کے رکھوالے ہی ڈاکو بنے ہوئے ہیں ان کو تو چھوڑیں صرف لاہور کی ایک مثال ملاحظہ فرمالیں کہ جہاں پاکستان کے وزیر اعظم رہتے ہیں جہاں انکے چھوٹے بھائی جو اپنے آپ کو خادم اعلی کہلاتے ہیں وزیراعلی ہیں اور خادم اعلی صاحب کے بیٹے حمزہ شہباز شریف حکمرانی کررہے ہیں جہاں صوبائی وزرا کی فوج ہے۔
چیف سیکریٹری، سیکریٹری، ڈی جی، ای ڈی او سمیت اور بہت سے افسران ہیں اسی شہر میں علامہ اقبال ٹائون کے ڈی ڈی او ڈاکٹر سرور صادق اور ڈاکٹر اسد مشتاق کے ہاتھوں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انکے خلاف متعدد شکایات کے باوجود کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا بلکہ جن خواتین نے اپنے خلاف ہونے والے ان مظالم کی درخواستیں اعلی حکام کو دے رکھی ہیں وہ انہی خواتین کو اپنی درخواستیں واپس لینے کے لیے مجبور کر رہے ہیں جن میں ای ڈی او لاہور اور انکا عملہ سر فہرست ہے یہ تو صوبائی دارالحکومت لاہور کے اندر کا ایک واقعہ ہے اور باقی پنجاب کے علاقوں کا اندازہ آپ لوگ خود لگا سکتے ہیں جہاں غربت کے ہاتھوں لوگ اپنے بچے فروخت کر رہے ہوں۔
Election
مائیں اپنے بچوں سمیت نہر میں کود رہی ہوں اور عصمتیں سر عام نیلام ہو رہی ہوں وہاں پر 8 ہزار پر کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکروں کا پرسان حال کون ہو گا۔ کیا ہم ان سیاسی وڈیروں سے امید وفا رکھیں جو الیکشن سے قبل تو غریب عوام کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں وعدوں کا جال بچھا کر اپنی جیت ہموار کرتے ہیں اور بعد میں انہی کے ساتھ احسان فراموشی کرتے ہوئے انہیں ہی سڑکوں کی خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں پولیو مہم کے سلسلہ میں آنے والا اربوں روپیہ کس کی جیب میں چلا جاتا ہے اور جن کے لیے یہ امداد ہوتی ہے انہیں کیوں اس میں سے حصہ نہیں دیا جاتا کیوں ہماری ان مائوں اور بہنوں کا تقدس پامال کیا جاتا ہے جو ان سے وعدے کیے جاتے ہیں۔
ان پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا محکمہ صحت میں یہ جنسی درندے کیوں ان خواتین پر مسلط کیے جاتے ہیں اور ان مظلوم ورکروں کو انکا جائز حق کیوں نہیں دیا جاتا اور جنسی بھیڑیوں کے ہاتھوں ان مظلوم خواتین کو کیوں نہیں بچایا جاتا، کہاں گئے ہمارے مولوی، ملا اور علماء کرام، کہاں گئی ہماری این جی اوز اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اور کہاں گئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ٹی وی شومیں شور مچانے والے شعبدہ باز اور کہاں کئے وہ نوجوان جواپنی ماں اور بہنوں کے ایک آنسو پر زندگی قربان کرنے سے نہیں ہچکچاتے اور کہاں گیا شہر لاہور کے باسیوں کا وہ جذبہ جو 1965ء اور 1971ء میں جنگ لڑنے والوں کے شانہ بشانہ موجود تھے اور اپنے گھروں سے کوئی پانی لے کر جارہا تھا۔
کوئی لسی لیکر کوئی دودھ لیکر اور کوئی 2روٹیاں لیکر بھاگم بھاگ بارڈر کی طرف رواں دواں تھا آج ہماری یہ مائیں بہنیں جو پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لاہور کے محاذ پر آئی بیٹھی ہیں تو کوئی بھی انکا ساتھ دینے اپنے گھر سے نہیں نکلا حیرت ہے ان خواتین پر بھی جو اپنے گھروں میں بیٹھی اپنے ٹیلی ویژن پر یہ سب کچھ دیکھتی رہی اور ایک وقت کا کھانا ان تک نہ پہنچا سکی، کیا ہم لوگ اپنی خواتین کو اسی طرح بے یار و مددگار اور بے آسرا چھوڑتے رہیں گے تو پھر امید کس سے رکھیں آخر میں حکمران طبقہ پر لکھی ہوئی پنجابی کی میری ایک نظم ان سب لیڈی ہیلتھ ورکروں کے نام۔
خبر اے تو سانوں کی کر چلا ایں لا ہ کے کپڑے تو سانوں ننگا کرچلا ایں پہلے تے درباروں روٹی لبھ جاندی سی ہن تو کھا کے سارا لنگر سانوں بھکاکرمار چلا ایں روٹی گئی، مکان نہ ملیا تے کپڑے وی ہتھ آندے نہیں تھکے ہارے فٹ پاتھ تے ستے ساں اوتھوں وی لے چلاایں چور اچکے تے ڈاکو سارے ساتھی تیرے اٹھ چلیے روحیل کسے ہور نوں سنایئے ایتھے توں کلا ایں۔