تحریر : مفتی محمد کریم اختر اورکزئی اسلامی نقطہ نظر سے ”تعلیم”ایک ایساعمل ہے جس کے ذریعے افراد کی تربیت کر کے اسے اوج کمال تک پہنچایا جاتا ہے، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اقوام عالم کی ترقی کا راز تعلیم ہی میں پنہاں ہے، اور تعلیم ہی کسی قوم کی سربلندی اور سرفرازی کا ذریعہ ہوتی ہے۔جو قومیں اس بیش قیمت درآبدار سے مالا مال ہوں اورمزیدعلوم وفنون کی ترقی کے لیے کوشاں ہوں، وہی قومیں بام عروج تک پہنچ کر دنیا میں اپنا لوہا منوا لیتی ہیں، اور وہ ہر شعبہ زندگی میں چاہے وہ سیاسی ہو یا دفاعی، معاشی ہوسماجی ترقی یافتہ سمجھی جاتی ہیں۔
اس کے برعکس جو قومیں تعلیم کی اہمیت سے غفلت اورچشم پوشی کرکے اس کو پس پشت ڈال دیتی ہیں تو ذلت ومسکنت کی بدترین زندگی ان کی مقدر بن جاتی ہے ،اوروہ ہمیشہ دوسروں کے محتاج اور محکوم بن کر زندگی گزارتی ہیں۔غرض اقوام عالم کاعروج وزوال تعلیم ہی پر موقوف ہے ۔ وہ معاشرہ جو”تعلیم”سے عاری ہوں سب برائیوں کی جڑسمجھا جاتا ہے ،اس لیے کہ وہ قتل و غارتگری، دھنگا فساد، چوری اور ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، کرپشن جیسی گھناؤنی افعال کا شکار ہو جاتا ہے، اور چونکہ اس میں کسی کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، صاحب حق کواس کے حقوق کی رسائی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے لڑنے جھگڑنے کی نوبت آ جاتی ہے،ایسے معاشرہ کے لیے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا تو درکنار اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اہل عرب کی جاہلیت کا دور اس کا بین ثبوت ہے جوغیرتعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے جہالت کی اندھیروں میں ایسے بھٹکے ہوئے تھے کہ معمولی معمولی باتوں پر لڑتے جھگڑتے تھے،اور یہ لڑائی کئی کئی سال تک جاری رہتی تھی ،ایک دوسرے کوقتل کرکے ان کی کھوپڑیوں میں شراب پیتے تھے،ایسے ہی اپنے کلیوں جیسی معصوم بیٹیوں کو”داغ ِ بدنامی”سمجھتے ہوئے زندہ گاڑدیتے تھے، یتیموں کے اموال کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرلیتے تھے،عورتوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے،(ان سب برائیوں کے باوجود اس کو ڈاکہ زنی ،راہزنی کادورنہیں کہاگیا،بلکہ اسکو”دورجاہلیت”سے موسوم کیا گیا،اس سے بھی تعلیم کی اہمیت واضح ہوتی ہے) الغرض عرب کا پورامعاشرہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کی گھٹاتوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
یہ دیکھ کر رحمت خداوندی کو جوش آیااورانہی امی قوم میں سے ایک نام نامی ،اسم گرامی ذات اقدس،آمنہ کے لعل ،محمدعربی ۖ کو ”معلم انسانیت ”بناکرمبعوث فرمایا۔اوربنی نوع انسانی کی اعلیٰ تعلیم اورنیک تربیت کے متعلق چاراہم مضامین عطاء فرمائے (١)تلاوت قرآن(٢)تزکیہ نفس یعنی اخلاقی تربیت(٣)تعلیم کتاب یعنی تفہیم قرآن (تعلیم حکمت یعنی خدا کی عطاکردہ قابلیتوں کودعوت الی الخیر کیلیے بروئے کارلانا۔ چنانچہ آپ ۖ نے اپنی ٢٣ سالہ تعلیمی و تربیتی محنت سے عرب کی جاہل معاشرہ کو دنیا کے مہذب ترین اورترقی یافتہ معاشرہ میں تبدیل کردیا۔ اوریوں وہ لوگ جوکل تک جاہل تھے وہ عالم بن گئے ،جوملحدتھے وہ موّحدبن گئے ،جوراہزن تھے وہ راہنماء بن گئے، جو ظالم تھے جوعادل بن گئے،جوگنہگارتھے وہ پرہیزگاربن گئے، جوغ لام تھے وہ حکمران بن گئے،ایک دوسرے کے جانی دشمن بھائی بھائی بن گئے۔
غریبوں سے نفرت کرنے والے غریبوں سے محبت کرنے والے بن گئے،فساد کے خواہاں امن کے داعی بن گئے،حتیٰ کہ رسول اللہ ۖ کی جان لینے کے لیے آنے والے رسول اللہ ۖ کے لیے جان دینے والے بن گئے۔اوریوں آپ ۖکی عالمگیر تعلیمات کے نتیجہ میں ایک مختصر عرصہ میں اسلامی حکومت کا جھنڈا قیصروکسریٰ کے ایوانوں پر لہرانے لگا۔ مذکورہ بالا وضاحت سے اسلام میں ”تعلیم” کی اہمیت کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے ،کیونکہ اسلام نے تعلیم کو محض ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک اہم اوربنیادی ضرورت قرار دیاہے ۔بعثت نبویۖ کی ابتداء اور وحی الٰہی کا آغاز ہی قرات،علم اورقلم سے ہواہے ،آپ ۖ کو سب سے پہلا اورابتدائی حکم ان الفاظ میں دیاگیاتھا :”پڑھ اپنے رب کے نام جس نے ہرچیز کوپیداکیاہے،اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ،پڑھیئے آپ کارب بے پایاں کرم کرنے والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم دیا ،اس نے آدمی کووہ کچھ سکھایاجو وہ نہیں جانتاتھا”۔اس کے علاوہ بھی قرآن مجید فرقان حمیدکے متعددمقامات پراورذخیرہ احادیث مبارکہ میں سے بے شمار احادیث میں مختلف طریقوں سے لوگوں کو ”تعلیم”کی ترغیب اورہدایت دی گئی ہے ،تاکہ غفلت کی وجہ سے کوئی شخص اس درآبدار اورگوہر نایاب سے محروم نہ رہے ،ذیل میں ”تعلیم ”کی اہمیت پراحادیث مبارکہ سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔
احادیث مبارکہ میں حصول علم کومؤمنین کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشاد نبویۖ ہے :”طلب العلم فریضة علی کل مسلم ”۔ترجمہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔علامہ عبداللہ ناصح علوان اپنی کتاب” تربیت اولاد فی الاسلام کے صفحہ نمبر٢٥٧ پراس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ :لفظ مسلم عام ہے جومرد وعورت دونوں کوشامل ہے ۔اسی بناء پرفقہاے کرام نے ہرشعبہ زندگی سے وابسطہ افراد کے لیے اپنے شعبہ سے متعلق ضروری احکام جاننے کو فرض عین بتایاہے مثلا تجارت پیشہ افرادپرتجارتی احکام (حلال وحرام) کاجاننا فرض ہے ،جیسا کہ سیدناعمربن الخطاب عام اعلان فرمایاکرتے تھے کہ جوتجارت سے متعلق فقہی احکام نہ جانتاہووہ ہمارے بازاروں میں کاروبار نہ کرے۔ لہذا مسلمان خواہ مردہویاعورت سب پرمتعلقہ احکامات کا موٹا موٹا علم فرض ہے ،مکمل عالم بنناتوفرض کفایہ ہے کیونکہ دنیا کوڈاکٹر، انجنئیر، سائنسدان، پولیس، آرمی، ڈرائیور، کنڈیکٹر، زمیندار اور تاجر کی بھی ضرورت ہے ،اگر مذکورہ بالاعلوم بھی خلوص نیت ،رضائے الٰہی کو مدنظر رکھ کرحاصل کیے جائیں تویہ بھی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اب تک کے گفتگوسے یہ بات توواضح ہوئی کہ تعلیم ایک اہم اورضروری چیزہے،اوریہ کہ اسکاحصول اسلامی نقطہ نظرسے بھی مرد وعورت دونوں پر فرض ہے۔
تعلیم کے بغیرایک مردایک مسلمان اورباعمل انسان کی زندگی گزار سکتا ہے نہ عورت اپنی شرعی اورخاندانی ذمہ داریاں ادا کرسکتی ہے۔اس لیے آج ہمارے معاشرے میں مردکی تعلیم توازحدضروری سمجھی جاتی ہے لیکن جہاں تک تعلیمِ نسواں کی بات ہے تو اس حوالے سے آج بھی بعض مسلمان غلط فہمی کے شکارہیں ،جو اپنی غلط فہمی اور لاعلمی کی وجہ سے بچیوں کوانکی بنیادی حق تعلیم سے محروم رکھتے ہیں ۔ہمارے ملک کی آدھی آبادی عورتوں پرمشتمل ہے اگر انکوتعلیم سے محروم کیاجائے تو سمجھوہماری آدھی آبادی جاہل رہے گی۔اورجاہل ماوؤں سے ذہین اورصحت مندنسل کی تمناکرناحماقت ہے۔ تعلیم نسواں کے حوالے سے ہماری( یعنی مردوں کی) کیاذمہ داریاں بنتی ہے اس حوالے سے ذیل کے سطورمیں چندبنیادی باتیںاورعملی تجاویز عرض کی جاتی ہیں۔
(١)پہلی بات یہ کہ ہم میں سے ہرفرداپنے گھرمیں دیکھے کہ خواتین تعلیم یافتہ ہیں یانہیں،اگرنہیں توان کی تعلیم کی صورت نکالے۔ (٢)دوسری بات یہ کہ ہمیں سے ہرشخص اس بات کویقینی بنائے کہ اس کے گھرمیں کوئی بچی تعلیم سے محروم نہیں رہے گی۔ (٣)تیسری بات یہ کہ جہاں تک ہوسکے ہم اپنے قریبی حلقوں میں تعلیمِ نسواں کی بات کرے،اوراس کی اہمیت کواجاگرکریں۔ (٤)چوتھی بات یہ کہ اگرکسی شخص کے دوبچیاں ہوں تواس کوخیال کرناچاہئیے کہ گویااس کے تین بچیاں ہیں ،اوروہ اپنی دوبچیوں کے ساتھ اپنی قوم کی ایک اوربچی کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری قبول کرلے۔یقینایہ بہت بڑی خدمت ہوگی اوراس طرح سماج کی بہت سی مشکلات حل ہوسکیں گی۔ (٥)پانچویں بات یہ کہ ہرمحلے کے سرکردہ افراد اپنے خطیب کومتوجہ کرے کہ وہ جمعہ کے خطبات میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت اورضرورت کونمایاں کرے۔ (٦)چھٹی بات یہ کہ ہم ہرگاؤں اوربستی میں بچیوںکی تعلیم کاخصوصی اہتمام کریں۔اورجوتنظیمیں خواتین کی تعلیم کافروغ چاہتی ہیں انہیں خوش آمدیدکہیں اوران سے بھرپورتعاون کریں۔ (٧)ساتویں بات یہ کہ ہم اپنے ضلعی ناظمین اوردوسرے حکومتی اداروں کواس جانب متوجہ کریں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں میں خواتین کی تعلیم کوترجیحات میں شامل کریں۔ (٨)آٹھویں بات یہ کہ ہم اس فکرکوعام کریں کہ اسلام خواتین کی تعلیم کوبھی ویسے ہی ضروری خیال کرتاہے جیسے مردوں کی۔
Women Education
(٩)نویں بات یہ کہ ہم سے جوکالم نگار ہیں یااخبارات ورسائل کے مدیران ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اخبارات ورسائل میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت وضرورت پرمبنی آرٹیکلز،خاکے اورفیچرزشائع کریں تاکہ معاشرے میں خواتین کو تعلیم دینے کی سوچ پروان چڑے۔ (١٠)دسویں اورآخری بات یہ کہ ہم اپنی بستیوں میں ایسی کمیٹیاں بنائیں جوبچیوں کی تعلیم کے لئے سرکاری وغیرسرکاری اداروں اورتنظیموں سے رابطہ کریں تاکہ جہاں بچیوں کی تعلیم کابندوبست نہ ہو،وہاں سکول قائم ہواوریوں ہماری بچیوں کامسقبل تاریک ہونے سے بچ جائے ۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہتاہوں کہ اگرہم خواتین کی تعلیم کے لئے مذکورہ بالادس عملی تجاویزپرعمل کریں توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری بچیاں زیورِتعلیم سے محروم رہے۔