تحریر : عبدالوارث ساجد 8 مارچ کا دن دنیا بھر میں ”یوم خواتین” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن خواتین کی تنظیمیں سیمینار منعقد کرتی ہیں، جلسے ہوتے ہیں، واک ہوتا ہے اور جلوس نکلتے ہیں۔ خواتین پلے کارڈ اٹھا کر سڑکوں پر آتی ہیں۔ خواتین کی سماجی و فلاحی تحریکوں اور تنظیموں کی لیڈر پروگراموں میں تصاویر بنواتی ہیں اور گھروں کو لوٹ جاتیں ہیں۔ اگلے روز سے روٹین کی زندگی پھر شروع ہو جاتی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنا بجٹ لے کر سال بھر کا خرچہ پورا کرتی ہیں اور بے چاری گھریلو خواتین کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر دوبارہ مجبور ہو جاتی ہیں۔
سال بعد ان تنظیموں کو دوبارہ ابھال اٹھتا ہے وہ خوشنما نعروں کے ساتھ 8 مارچ کو دوبارہ وہی کچھ کرتی ہیں جو گزشتہ سال کیا ہوتا ہے 8 مارچ کا دن گزرنے کے بعد وہی ہوتا ہے جو سال بھر ہوتا رہتا ہے، یہ سب کچھ 1910ء سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ دنیا بھر میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن خواتین کے حقوق پھر بھی غصب ہوتے ہیں، ظلم سارا سال ہوتا ہے اور تشدد کا نشانہ عورت ہی بنتی ہے۔
دنیا بھر کی خواتین کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ طبقہ نسواں ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار ہے بالخصوص وہ ممالک جو آزادی نسواں پر زیادہ شور مچاتے ہیں ان کی خواتین کا استحصال اتنا ہی زیادہ ہے۔ مغرب میں عورت کی حالت زار بہت زیادہ خراب ہے جنرل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکی کی ہر چوتھی عورت کو اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ سے زدوکوب ہونا پڑتا ہے اوربعض اوقات پٹائی کی شدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بے چاری عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں ایسی عورتوں کی تعداد چار کروڑ سے بھی زائد ہے جن کو نہایت بے رحمی سے مارا پیٹا گیا ہے۔ امریکہ میں خواتین پر ظلم و ستم کا یہ عالم ہے کہ ایک امریکی مصنفہ این جانز کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ہر سال دو ہزار بیویاں شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ قتل کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ سال قید ہوتی ہے لیکن اگر مسلسل ظلم و ستم سے تنگ آ کر کوئی عورت مرد کو قتل کر دے تو عورتیں بے چاری ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال تک جیلوں میںسڑتی رہتی ہیں۔ اٹلی کے بارے میں ایسی ہی خبر ہے۔ ”گلف نیوز” نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے انکشاف کیا کہ وہاں ہر تیسری عورت اپنے شوہر سے اس طرح پٹتی ہے کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے ایسی عورتوں کی تعداد کم از کم آٹھ لاکھ سالانہ ہے۔
سویڈن، برطانیہ اور جرمنی میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ برطانیہ میں عورتوں کی مارپیٹ کے واقعات کا اندازہ ایک انگریز خاتون ایرن پنری کی ان کوششوں سے لگایا جا سکتا ہے جو وہ بے سہارا اور خاوندوں کے ظلم و ستم کی شکار خواتین کی مدد کیلئے کر رہی ہے۔ 1971ء میں ایرن پنری نے ”خواتین کی امداد” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا اس وقت سے اب تک وہ متعدد پناہ گاہیں قائم کر چکی ہیں وہ جونہی نئی پناہ گاہ کھولتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے بھر جاتی ہے چنانچہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اور اراضی کی جستجو میں لگی رہتی ہے۔ ایرن پنری نے اپنے مشاہدات پر مبنی کئی کتابیں بھی مرتب کی ہیں جن کا عنوان ہے ”آہستہ رو پڑوسی سن لیں گے” ان کتابوں میں عورتوں اور بچوں کے بارے میں بیسیوں ہولناک داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سمیت دنیا بھر کی خواتین کس اذیت سے دوچار ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی خواتین کے حقوق کے لئے بہت کچھ کرنے کا دعوے دار ہے لیکن صورتحال وہی ہے کہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اقوام متحدہ ہی کے تحت مختلف ممالک نے بھی اس کاز کے لئے جوش و خروش کے مظاہرے کئے ہیں لیکن صنفی امتیاز کا ناسور جوں کا توں معاشرہ میں برقرار ہے۔ مغرب نے یوں تو” ترقی نسواں” کے متعلق کئی پروپیگنڈے کئے لیکن حقیقت وہ نہیں جو دکھائی جاتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے معلومات عامہ کے ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ خواتین سے متعلق اعداد و شمار انتہائی مایوس کن ہیں۔ آیئے اسی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کریں کہ گزشتہ صدی کے اختتام پر خواتین کا استحصال کس قدر رہا، خواتین کا مقام کس قدر بلند ہوا اور صنفی امتیاز میں کہاں تک کمی آئی۔
پچھلے دور میں صنفی امتیاز کا یہ عالم تھا کہ لڑکے کی پیدائش پر گھر بھر میں چراغاں کیا جاتا جبکہ لڑکی کی پیدائش پر ماتم کیا جاتا تھا لیکن دور جدید کا المیہ یہ ہے کہ خاص طور پر چین اور ہندوستان میں لڑکیوں کے پیدا ہونے سے قبل ہی ان کی شمع زندگی کو گل کر دیا جاتا ہے ممبئی کے ایک کلینک میں جن 8000 زندگیوں کو پیدائش سے پہلے تلف کیا گیا ان میں سے 7999 لڑکیاں تھیں۔ایک صدی قبل لڑکیوں کی تعلیم کا تصور ہی محال تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک بلین ناخواندہ افراد ہیں جن میں سے دو تہائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے، 130 ملین ایسے بچے جن کی رسائی سکول تک نہیں ہو پائی ہے، ان میں سے دو تہائی لڑکیاں ہیں۔ یہ تو ہوئی اس صنفی امتیاز کی بات جو لڑکیاں ماں باپ کے گھر جھیلتی ہیں پھر وہ جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں تب امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ مظالم بھی اکثر و بیشتر اس کے گھر کا راستہ دیکھ لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 20 سے 50 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ تو وہ مسائل تھے جن کی تہہ تک اعداد و شمار کے ذریعہ پہنچا جا سکتا ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو یکساں درپیش ہیں لیکن کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو خصوصاً ہمارے ملک و معاشرے کا حصہ ہیں جن کا اندازہ لگانے کے لئے اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہے نہ ان کی سنگینی کو کسی آلے ہی سے ناپا جا سکتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو خواتین کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں اور ان کا لگایا گیا زخم روح کی گہرائیوں میں رستا رہتا ہے۔
ایک لڑکی جب شعور کی منزل پر پہنچ کر امیدوں کی منڈیروں پر امنگوں کے چراغ جلائے اپنے ہم سفر کا انتظار کرتی ہے تو اس کا انتظار طویل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پرامید چمک جو حسرت ویاس میں بدل جاتی ہے اور کالی گھٹائوں کے بیچ چاندی کے تار جھلملانے لگتے ہیں۔ اس کو پرکھنے والی نظر کے خود ساختہ معیار پر وہ پوری نہیں اترتی کیونکہ کبھی عام شکل و صورت اس کی راہ کا پتھر بن جاتی ہے تو کبھی بن کاسہ کے گداگروں کی مانگ پوری کرنے کے لئے اس کے پاس کھنکتے سکے نہیں ہوتے ایسے میں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ صنف نازک بن کر پیدا ہونا آیا اس کا بہت بڑا گناہ ہے یا مساوات و انسانی حقوق کی گردان کرنے والی تنظیمیں اس ضمن میں مہربہ لب کیوں ہیں؟
اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا ہے کہ جس کا دوسرے مذاہب و ادیان میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن و سنت کی نورانی تعلیمات کا بھی مطالعہ کریں اور دوسرے مذاہب کا بھی بغور جائزہ لیں تو انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ جس حسن سلوک کا درس دیا دوسرے مذاہب اس سے قاصر ہیں اسلام کی آمد سے قبل بچیوں کو زندہ درگور کرنے کے بھیانک اور رلا دینے والے حیرت انگیز واقعات تاریخ کے سینے میں آج بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا معاشرہ میں کیا مقام تھا اور اس کس نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے ساتھ ظلم و ستم بدسلوکی و بداخلاقی کو روا سمجھا جاتا تھا اس کے حقوق پامال کئے جاتے تھے اس کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا۔ اس کا مال مرد اپنا مال سمجھتے تھے وہ ترکہ اور میراث میں کچھ حصہ بھی نہ پا سکتی تھیں، شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد اس کو اجازت نہیں تھی کہ وہ دوسرا نکاح کر سکے۔ دوسرے سامان و حیوانات کی طرح وہ بھی منتقل ہوتی رہتی تھیں مرد تو اپنا پورا پورا حق وصول کر لیتے تھے لیکن عورت اپنے حقوق سے مستفید نہیں ہو سکتی تھی کھانے میں بہت سی اشیاء ایسی تھیں جو مردوں کے لئے خاص تھیں اور عورتیں ان سے محروم رہتی تھیں لڑکیوں سے نفرت اس درجہ بڑھ چکی تھی کہ انہیں زندہ درگور کرنے کو معمولی سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہو جائے تو اسے منحوس سمجھا جاتا تھا عام طور پر عورتوں سے برا سلوک کیا جاتا تھا جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اس کا قریبی رشتہ دار اس بیوہ پر اپنی چادر ڈال دیتا تھا اور اس طریقے سے لوگ اکثر اوقات اپنی سوتیلی ماں کے شوہر بن جاتے تھے۔ نکاح و طلاق کا واضح قانون نہ تھا مرد جتنی عورتوں سے چاہتا شادی کر لیتا اور جب چاہتا انہیں طلاق دے دیتا اور مختلف طبقات میں عورتوں کو ا س سے بھی کم تر و ابتر سمجھا جاتا تھا۔
چنانچہ یونانی کہتے تھے کہ عورت سانپ سے زیادہ خطرناک ہے اور وہ ایسا خوش نما درخت ہے جو بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب کوئی پرندہ اسے کھاتا ہے تو وہ فوراً مر جاتا ہے۔ ”قدیس جرنا” لکھتا ہے کہ عورت شیطان کا آلہ ہے۔ ”یوحنا” کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے امن وسلامتی کی دشمن ہے، عورت شیطان کے بازو کا کرشمہ ہے اس کی آواز سانپ کی آواز ہے۔ دور حاضر میں ایک اور مسئلہ ہے جو سنجیدگی سے توجہ کا طالب ہے اور وہ ہے آزادی نسواں اور ترقی نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال۔ اس تعلق سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا عریانیت، بے حیائی اور اپنی نمائش کرنے کا نام ترقی ہے؟ درحقیقت یہاں بھی مردوں نے غیر محسوس طور پر عورت کو اپنے شکنجہ میں کس لیا ہے۔ عورت جتنی زیادہ فطری اصولوں سے بغاوت کر کے آزادانہ روش اختیار کرتی جا رہی ہیں اتنی ہی وہ مردوں کی غلام بنتی جا رہی ہے۔ عورت کو بطور کاروبار استعمال کیا جانے لگا ہے کسی بھی کمپنی کا کوئی اشتہار ایسا نہ ہو گا جس میں عورت کو غیر ضروری طور پر نمایاں نہ کیا گیا ہو۔ یہ غلامی نہیں تو اور کیا ہے کہ چند سکوں کے عوض عورت نسوانیت کو دائو پر لگا کر مردوں کے اشاروں پر ناچنے لگی ہے۔
آخر میں یہ بات کہنا بے محل نہ ہو گا کہ خواتین کو مساوات کا حق دینے کا آئیڈیا ایک صدی سے پرانا نہیں لیکن اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی خواتین کو مساوات کا درجہ دیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ اس کے حقوق بھی متعین کئے ہیں اور بحیثیت صنف نازک اسے بعض سہولتیں بھی دی ہیں اور بعض فرائض سے مستثنیٰ بھی رکھا ہے۔ ہمیں تجزیہ کرنا چاہئے کہ ہم نے اس ایک صدی کے دورانیہ میں کیا پایا ہے اور بدلے میں کیا کھویا ہے کہیں ہم سے گھاٹے کا سودا تو نہیں ہوا ہے۔ ترقی کے نام پر کہیں ہم تنزلی کی سمت کو نہیں بڑھ رہے ہیں…؟