ہر سال مارچ کی 8 تاریخ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور خواتین ہمار ی آباد ی کا 50 فیصد ہیں ایک بات تو طے ہے کہ جب تک لڑکیوں کو علم کی روشنی سے منور نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرہ سدھر سکتا اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے جن حقوق کی باتیں ہم آج کررہے ہیں خواتین کو وہ حقوق تو ہمارے پیارے نبی کریم ؐ نے 1500 قبل خواتین کو دے دیے تھے خواتین کو جائیداد کے حقوق نبی کریمؐ نے دیا اسلام سے قبل بچوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھاجہالت و درندگی میں انسان اب بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا آج بھی لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میانوالی میں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہونے پر سفاک والد نے اپنی سات دن کی بیٹی کو5 گولیاں مار کرقتل کردیا ایک یا دو نہیں بلکہ5گولیاں ننھی پری کے سینے میں داغ کر باپ نے جہالت کی انتہا کردی کیا ایسے لوگ مسلمان کہلانے کے قابل ہیں ہم ہر نماز کے بعد رحم مانگتے ہیں کہتے ہیں اے اللہ ہم سے خوش ہو جا جب وہ خوش ہوتا ہے تو رحمت کرتا ہے پھر ہم اسکی رحمت کے ساتھ ایسا گھٹیا سلوک کرتے ہیں خدارا بیٹی نہیں پسند تو ایدھی کے جھولے میں ڈال دو گلی محلے کے کسی بے اولاد جوڑے کو دے دو اگر نہیں تو کسی ادارے کو لاوارث کہہ کر دے دو بچی پر ایسا ظلم نا کرو دور جاہلیت میں بی ایسا ہی ہوتا تھا۔
خواتین کو معاشرے میں کوئی عز ت نہیں دی جاتی تھی نبی کریم ؐ نے خواتین کے معاشرے کی بنیاد رکھی مغرب میں خواتین کوجائیداد خر ید نے کی اجازت نہیں تھی اس غلط نظام کو نبی کریم ؐنے پا ش پاش کردیا تھا ترقی یافتہ قومیں آج جہاں کھڑی ہیں اس میں نبی کریم ؐ کا فلسفہ ہے دیکھا جائے تو صرف اسلام ہی عورت کی عزت و آبرو اور وراثت کے حقوق کا محافظ ہے 1920میں یورپ اور برطانیہ میں خواتین کو وراثتی حقوق دیئے گئے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیاہمارے دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کا کوئی تصور نہیں بد قسمتی سے یہ روایات ہندوستان سے آئی ہے۔
صرف مرد کو وراثتی حقوق کی اجازت تھی خواتین کواس سے محروم رکھاگیا اسلام نے خواتین حقوق کی بات سب سے پہلے کی ہے ایک پڑھی لکھی ماں اپنے گھر، خاندان اور معاشرے کیلئے مؤثر کردار ادا کرتی ہے بچیوں کو تعلیم دیئے بغیر کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس سلسلہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا کردار لائق تحسین ہے جو گھر بیٹھی خواتین کو علم کی روشنی مہیا کرہی ہے اور خاص کر جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی تو حقوق نسواں کے حوالے سے بہت سے قوانین بنائے گئے اب نادرا 15روز میں وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے کیونکہ اسی وجہ سے خواتین جائیداد کے حق سے محروم رہ رہی تھیں اب ہر خاتون وراثت میں اپنا حق لے سکے گی جائیداد میں حصہ نہ ملنے پر داررسی کیلئے خواتین محتسب سے رجوع کرسکیں گی جہاں انتہائی قلیل مدت میں فیصلہ ہوجاتا ہے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے پرعزم ہے انکا کہنا ہے کہ خواتین کی عزت و احترام ہماری سماجی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کا حصہ ہے، خواتین کو جو حقوق دین اسلام میں دیئے گئے مغرب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اللہ تعالی نے ماں، بیٹی اور بہن جیسے عظیم اور خوبصورت رشتوں کا امین بنا کر عورت کو تقدس و احترام دیا ہے۔
پاکستان کی خواتین با صلاحیت، محنتی اورتعلیم یافتہ ہیں۔خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے پاکستان کے انتظامی اور دفاعی اداروں میں بھی خواتین کا بھرپور کردار قابل ستائش ہے خواتین کی ترقی اور انہیں بااختیار بنائے بغیر ترقی وخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ 5فیصد بے بڑھا کر 15فیصدکردیاہے خواتین کیلئے ملازمتوں میں عمر کی حد میں مزید 3سال کی رعایت دی گئی ہے خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی نیو ہوپ آرگنائزیشن کی چیئرپرسن سیمل کامرانکا کہنا تھا کہ خواتین ہماری آبادی کا نصف سے بھی زیادہ حصہ ہیں ملکی و قومی ترقی میں خواتین کا کردار مسلمہ ہے خواتین کی بھر پور شرکت کے بغیر قومی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ہماری خواتین زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔
پاکستان میں اسلامی اقدار اور معاشرتی روایات کے مطابق خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں ہماری خواتین کسی بھی لحاظ سے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں انہوں نے میانوالی میں ایک وحشی اور درندے باپ کے ہاتھوں ساتھ دن کی معصوم پری کے قتل کی بھی مذمت کی آخر میں تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے ایک گذارش ہے کہ اس وقت دنیا میں جو خواتین پر سب سے زیادہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ کشمیری خواتین ہیں جہاں بھارتی ظالم افواج Rape as a wapon of war کے طور پر خواتین پر مظالم ڈھارہی ہے پچھلے 32 سال سے 23000 سے زائد خواتین کو بیوہ کردیا گیا اور لاتعداد خواتین کو half widow کردیا گیا بھارتی سفاک افواج کی جانب سے کشمیری خواتین کیساتھ ریپ کیسز کی تعداد جو کہ صرف ریکارڈ شدہ ہیں وہ 1989 سے اب تک 11250 کیس ہیں مقبوضہ کشمیر کی عورت نہ صرف بھارتی مظالم برداشت کررہی ہے بلکہ اس سب کے باوجود وہ اپنی تحریک بھی چلارہی ہے اقوام عالم سمیت خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین پر بھارتی مظالم روکنے کیلئے کردار اداکریں اور ان کو ان کا حق خودارادیت دلوانے میں کردار ادا کریں۔