ہندوستانی معاشرہ میں خصوصاً اور عموماً تمام ہی معاشروں میں عورت کی عزت نفس سے کھلواڑاور مسلسل ہو رہے ظلم و زیادتیوں کے پیچھے غالباً تین بنیادی نظریات و تصورات کار فرما ہیں۔i) معاشرتی اعتبار سے عورت ایک حقیر شے ہے، لہذا ظلم و زیادتی ایک لازمی امر ہے۔ii)مرد کی شہوانی خواہش کے پیش نظر ہر ممکن طریقہ سے عورت کا استحصال کیا جا سکتا ہے۔iii)خاندان کی عزت مقدم ہے۔
لہذ اعورت کی جانب سے ہر اس عمل کے خلاف جو معاشرہ میں خاندان کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنے،غیرت کے نام پر عورت پر تمام طرح کی بندشیں لگائی جا سکتی ہیں یہاں تک کہ قتل (honour killing)کا جواز بھی بنتا ہے۔ان تین بنیادی تصورات پر مبنی معاشرہ میںقوانین کے رکھوالے،صنف نازک پر جاری ظلم وستم کی روک تھام میں کس حد تک اپنا کردار ادا کریں گے،اس کا اندازہ متذکرہ تصورات کی روشنی میں باخوبی لگایا جا سکتا ہے۔درحقیقت ہندوستانی معاشرہ میں عورتوں کو وہحقوق حاصل نہیں ہیں جو مطلوب ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ شہروں میں موجود “روشن خیالوں “نے خواتین کے حقوق کے پس پردہ اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے میں بھی کسی قسم کاپاس و لحاظ نہیں رکھا ہے۔یہ وہ دو مختلف الانواع گروہہیں جنھوں نے خواتین و بچیوں کو معاشرہ میں حد درجہ نہ صرف کنفیوژ کیا بلکہ صحیح و غلط کی تمیز میں بھی رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔نتیجتاً فحاشی و عریانیت کو فروغ ملا اور اخلاقی زوال نے فرد واحد کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرہ میں بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں۔انتہا یہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین نے انسانوں ہی کے گلے میں طوق ڈالنے کی ناکام کوشش کی ۔جس کے سبب نہ اخلاقی اور نہ ہی قانونی بالا دستی برقرار رہ سکی ۔مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں ،اور ہر دو سطح پر “دقیانوسی اورتہذیب و ثقافت سے عاری افراد و معاشرہ “اور وہ بھی جو خود کو “روشن خیال و مہذب سمجھتے ہیں۔
مسائل پر گرفت کرنے سے قاصر ہیں۔ایک فساد ہے جو چہار جانب برپا ہے،ہر شخص نجات کا بھی خواہاں ہے،اس کے باوجود کوئی راہ نہیں سوجھتی۔ گزشتہ مضمون (بعنوان:میڈیا اور ہندوستانی تہذیب کے کھوکھلے دعوے)میں ہم نے ہندوستانی معاشرہ میں عورت کے منووادی تصور کو پیش کیا تھا۔یہاں ہم کوشش کریں گے کہ یونانی، رومی، فارسی، عیسائی، اور دور جاہلیت میں عورت کی حیثیت کا مختصراً تذکرہ آجائے۔یونانی معاشرے میں عورت کی حیثیت:یونانی فلسفہ جوآج بھی دنیا میں مشہور ہے اس کی تاریخ عصر میں مرد نے عورت کو صرف اپنی نفسانی تسکین و مسرت کا ذریعہ اور آلہ کار سمجھا۔ یونانیوں کے نزدیک عورت ”شجرة مسمومة” ایک زہر آلود درخت اور ”رجس من عمل الشیطان” کے مطابق عورت شیطان سے زیادہ ناپاک سمجھی جاتی تھی۔ ایک عام خیال یہ بھی تھا کہ وہ فطرتاًمرد سے زیادہ معیوب، حاسد، بدکردار، آوارہ اور بدگفتار ہوتی ہے۔رومی تہذیب میں عورت کی حیثیت:رومن قوم یورپ میں ایک عظیم الشان روایت کی حامل قوم تھی، جس کو قانون سازی میں وہی امتیاز حاصل ہے جو یونان کو فلسفہ میں۔ حتی کہ رومن قانون آج بھی دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین کا سنگِ بنیاد ہے۔ اس اعلیٰ ترین قانون میں عورت کی حیثیت پست و کمزور تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ”عورت کے لئے کوئی روح نہیں بلکہ وہ عذاب کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ عورت شادی کے بعد شوہر کی زرخرید غلام ہو جاتی تھی، عورت کسی بھی عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتی تھی، گویا کہ تمام بنیادی حقوق سے اس کو محروم رکھا گیا تھا۔فارسی تہذیب میں عورت کی حیثیت:فارس کی تہذیب بہت پرانی ہے، یہاں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی، باپ کا بیٹی اور بھائی کا بہن کو اپنی زوجیت میں لینا وہاں کوئی غیر موزوں بات نہ سمجھی جاتی تھی، شوہر اپنی بیوی پر موت کا حکم لگا سکتا تھا۔ اسے اپنی عیش و عشرت کیلئے استعمال کرنا وہاں کے بادشاہوں اور صاحب ثروت کا محبوب مشغلہ تھا۔عیسائی معاشرہ میں عورت کی حیثیت:عیسائیوں میں رہبانیت کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ عیسائی عورت کو قابل نفرت سمجھنے لگے۔طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔
Women Violence
یہاں تک کہ عورت کے وجود کو تسلیم کرنا بھی اْن کے نزدیک گناہ سمجھا جانے لگا۔ حتی کہ 576ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس صرف اس مسئلہ کے حل کے لئے منعقد کی کہ عورت میں روح ہے یا نہیں؟ دوران کانفرنس ایک پادری نے سوال کیا کہ عورت کا شمار بنی نوع انسان میں بھی ہے یا نہیں؟ خود اس نے عورتوں کو انسانوں میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔ آخر کار کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ عورت صنف انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف اس دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لئے اور قیامت کے روز تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔دور جاہلیت میں عورت کی حیثیت: اس دور میں لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کی دی گئی تعلیمات کو فراموش کرکے مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث تھے۔عربوں میں مرد کے لیے عورتوں کی کوئی قید نہ تھی، بھڑ بکریوں کی طرح جتنی چاہتے، عورتوں کو شادی کے بندھن میں باندھ لیتے۔ کتب احادیث میں ان اشخاص کا ذکر موجود ہے جو قبول اسلام سے پہلے چار سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ حارث بن قیس کہتے ہیں کہ میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں، میں نے نبیۖ سے اس کا ذکر کیا تو آپۖ نے فرمایا ان میں سے چار کو اختیار کر لو۔(ابودائود)۔حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی اسلام لائے تو دور جاہلیت کی اْن کے پاس دس بیویاں تھیں، پس وہ بھی اسلام لے آئیں ۔حضور اکرمۖ نے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو۔(ترمذی )۔”عربوں میں عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے وارثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا تھا وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا”( سیرت سرور عالم از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی )۔بلاد عرب کے حالات بھی یورپ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے، وہاں بھی عورتیں دوسرے مال منقولہ کی طرح مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی، اس کی حیثیت بالکل چوپائیوں کی سی تھی اور چوپائیوں کے ساتھ ہی اکثرجہیز میں دی جاتی تھی، اسے محض لذت کشی کا آلہ تصور کیا جاتا تھا۔
ناجائز تعلقات کی وسعت کی وجہ سے موجودہ یورپ کی طرح وہاں کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا تھا، ان کا طرز نکاح بے غیرتی کا پورا آئینہ تھا(عورت انسانیت کے آئینہ میںاز ایم عبدالرحمن خان )۔دراصل یہ وہ حقیقت ہے جو عورت کے تعلق سے مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں نہ صرف رائج رہی بلکہ یہ پورا منظرہم اپنی آنکھوں سے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مختلف افکار و اعمال اورکردارمیں با خوبی دیکھ سکتے ہیں۔
1980کی دہائی میں وقوع پذیرہونے والی اصطلاح “گلابلائزیشن”کے علمبرداروں کایہ احساس تھا کہ اس کے ذریعہ دنیا سکڑ ے گی،دوریاں ختم ہوں گی اورتمام ہی ممالک تیزی سے بہتری وترقی کی جانب گامزن ہوں گے۔وہیں گلابلائزیشن کے تعلق سے یہ خیال ِعام بھی تھاجوبہت حد تک آج بھی موجود ہے کہ اس کے ذریعہ بین الاقوامی مسائل پر گرفت کرتے ہوئے فرد اور معاشرے کو آسانیاں بہم پہنچائی جا سکیں گی۔لیکن گزشتہ چند دہائیوں میںجس تیزی سے خواتین پر ظلم و زیادتیوں میںاضافہ ہوا ہے،اس نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں قومی خواتین کمیشن کی ایک رپورٹ میں عورتوں پر دن بدن پڑھتی زیادتی کیلئے گلوبلائزیشن اور کھلی اقتصادیات کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دور میں عورتوں کی خرید وفروخت کا بازار تیزی سے بڑھا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان میں سیاح جسم فروشی کے کاروبار میں نہ صرف تعاون بلکہ فروغ کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں ۔کمیشن نے پچھلے کچھ برسوں میں مردوں کے مقابلہ عورتوں کی آبادی کا تناسب کم ہونے اور عورتوں کے خلاف جرائم مثلاً عصمت دری، اغوا، چھیڑ چھاڑ وغیرہ کی وارداتوں میں اضافہ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ کمیشن کا تجزیہ ہے کہ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی طور پر متمول ہونے کیلئے دیہاتوں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں سے کافی تعداد میں مواقع کی تلاش میں عورتوں کی بڑے شہروں کی طرف منتقلی ایک وجہ ہے تو وہیںلڑکیوں کے تناسب میں کمی اور گلوبلائزیشن کی پالیسی کے نتیجہ میں ایک نیا اقتصادی رجحان سامنے آیا ہے، جہاں عورتوں کو صرف استعمال کی شئے تصور کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان میں اقتصادی آزاد روی کے نافذ ہونے کے٢٠-٢٢ سال بعد عورتوں کے تعلق سے گلوبلائزیشن اور کھلی اقتصادیات کے بارے میں کیا گیا یہ تبصرہ نہ صرف قابلِ غور بلکہ تشویشناک بھی ہے۔ قومی خواتین کمیشن کی مذکورہ رپورٹ میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں آدیباسی خواتین کے جنسی استحصال، تامل ناڈو، آندھرا اور کرناٹک ریاستوں میں جسم فروشی کی بڑھتی لعنت نیز پورے ملک میں عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کے گراف میں غیر معمولی اضافہ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں درج فہرست ذات اور قبائل کے لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کیلئے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا انتظام ہے۔ وہیں آدیباسی اکثریت کے حامل جھارکھنڈ میں تقریباً٥٠ فیصد نوکر پیشہ آدیباسی خواتین کے کام کرنے کے مقامات پر اپنے افسر کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار بننے کی خبریں بھی قابل تشویش ہیں۔یہ وہ موجودہ صورتحال ہے جو سماج کے سوچنے سمجھنے والوں کو نہ صرف تشویش میں مبتلا کررہا ہے بلکہ مستقبل قریب کے حالات کی بھی ایک منفی تصویر پیش کرتا ہے۔اس پورے پس منظر میں اگر فرد اور سماج ،موجودہ صوتحال اور عورت کے تعلق سے خود ساختہ افکار و نظریات پر مبنی نظام کی تبدیلی کا خواہاں ہے۔تو لازم ہے کہ متبادل نظام کے لیے منظم سعی و جہد کی جائے۔ایک ایسی تبدیلی کا آغاز جہاں نہ صرف عورت بلکہ ایک مثالی خاندان بھی وجود میں آئے۔ مثالی خاندان کے نتیجہ میں مسائل پر گرفت حاصل کی جا سکے گی ،ملک میں امن و امان قائم ہوگااور عورت کو بھی ایک بار پھر وہ عزت و شرف حاصل ہوگا جو اس کا حق ہے۔تبدیلی کے آغاز میں جہاں ایک جانب سرکردہ افراد کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے وہیں میڈیا جو عوام کی رائے تبدیل کرنے کا اہم ذریعہ ہے،اسے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔
Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com