تحریر : محمد آصف اقبال مال و دولت ہر زمانے میں ایک فتنہ رہا ہے۔فتنہ یعنی آزمائش، جس چیز کے ذریعہ آدمی کو آزمایا جاتا ہے۔ آزمائش میں دونوں پہلو پائے جاتے ہیں اس میں نفع بھی شامل ہے اور نقصان بھی۔مال و دولت بھی ایسی ہی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فتنہ سے تعبیر کیا ہے۔اس کے باوجود دولت کے بے شمار فوائد ہیں، بعض وجوہ سے اس کو کمانا اور حاصل کرنا ضروری ہے لیکن یہی مال بعض دوسری وجوہات کی بنا پر مضر اور نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جبکہ انسان اس میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کرنا چھوڑ دے۔ ساتھ ہی اس کے حصول و استعمال میں ان حدود سے تجاوز کرے جن سے صاف صاف منع کیا گیا ہے۔دوسری جانب موجودہ دور ہو یا مختلف ادوار،ہر زمانے میں اخلاقی بگاڑ اور دنیا پرستی کا بنیادی سبب بھی مال و دولت رہے ہیں۔وہیں آج جس قدر دنیا کو سجایا ،سنوارا اور خوبصورت بنایا جا رہا ہے پچھلے زمانوں میں دنیا اس قدر کبھی بھی حسین و جمیل نظر نہیں آئی۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جن سہولیات تک آج انسان پہنچ چکا ہے اس سے پہلے وہ اس کے اختیار میں نہیں تھیں۔لیکن یہ سہولیات بلاقیمت دستیاب نہیں ہیں،ہر چیز کی ایک طے شدہ قیمت ہے اور اس کی ادائیگی کے بعد ہی وہ حاصل کی جا سکتی ہے۔لہذا مال و دولت کا حصول اور اس کے ذریعہ خوبصورت ترین دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہونا موجودہ دور میں ہر شخص کا نصب العین بن گیا ہے۔لازمی بات ہے اس طرح کے نصب العینکے نتیجہ میں دنیا میں فساد رونما ہو گا، انسان اخلاقی زوال میں مبتلا ہوگا،ظلم و ناانصافی میں اضافہ ہوگا،جعل سازی کے نئے طریقہ ایجاد ہوں گے اور دنیا پرستی کا آغاز ہوگا۔اور ان حالات میں جب ایک نئی نسل پروان چڑھے گی جس کی منزل مقصود ہی دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہونا ہو گا تو ایسی نسل مکمل طور پر دنیا پرست اور مادیت میں مبتلا ہو گی۔ اور آج یہی حالات بلا تفریق مذہب و ملت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ۔اور انہیں حالات کا شکار وہ امت مسلمہ بھی ہے جو ایک خدا اورایک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی تعلیمات اور احکامات پر یقین کا دم بھرتے نہیں تھکتی۔
اس پس منظر میں دولت کے حصول اور مصارف کو جس طرح آج دنیا نے ترقی و برتری کا ذریعہ سمجھا ہے اور جس کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ کو اختیار کیا ہے،اسی کی دین ہے کہ مرد نے عورت کو بھی دولت کے حصول میں برابر کا شریک بنادیا ہے۔اس کی ابتدا گرچہ بظاہر عورتوں کی جانب سے اٹھنے والے نعروں اور مہمات کی شکل میں ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کوششوں کے پس پشت بھی مرد کا ہاتھ ہے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح آج خواتین کے تعلق سے حد درجہ تنگ ذہن کہلائے جانے والا ملک سعودی عرب “اعتدال پسند اسلام”کے نعرے کی آڑ میں اپنی معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے خواتین کو بازار کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔اوراس کا آغاز اس نے جس چیز سے کیا ہے وہ تفریحی صنعت(entertainment industry)ہے ۔اس تفریحی صنعت میں عورت کا کیا مقام ہے؟اور آج آوارگئی فکرو عمل میں کس طرح اس صنعت کو فروغ دینے میں وہ اپنا کردار ادا کررہی ہے؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس عمل کی بنیادی وجہ ہر دور میں جو رہی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ برسراقتدار طبقہ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتا ہے اور ان طاقتوں سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے جو اس کے مدمقابل ہیں۔لہذا اس میں اگر کوئی چیز مددگار ہو سکتی ہے تو وہ ایک جانب دولت کی فراوانی ہے تو دوسری جانب عوام کو دنیا وی لذتوں کا اسیر بنا دینا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کے اس دور میں مسلم سماج کے باشعور طبقے میں بھی یہ عملی رجحان پیدا ہوا ہے کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید اور عصری فلسفوں اور طریقوں کا سہارا لینا ضروری ہے۔ان کے نزدیک شریعت اسلامی معاذاللہ ناقص ہے۔وہ نئے اور ابھرتے ہوئے تقاضوں کی تشفی کا سامان نہیں بہم پہنچاسکتی اور نہ ہی وہ دونوں صنفوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرسکتی ہے۔دوسری جانب بے چارے عوام نہ تو ان فلسفیانہ اور نظریاتی گتھیوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا بکھیڑا پالتے ہیں۔دوسری جانب مسلم معاشرہ سے تعلق رکھنے والی عوام بھی اپنے ارد گرد ان تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندانوں کے طرز عمل کو دیکھتی ہے جو دنیا کی لذتوں سے مالا مال ہیں ،تو اس کے حصول کے لیے وہ بھی اسی راہ پر چل پڑتی ہے۔نہ صرف تقریبات میں ان کی پیروی کی جاتی ہے بلکہ شریعت کی پامالی میں بھی ان کا غیر شعوری اتباع کرتے ہیں۔غالباً انہیں حالات سے باخبر رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:”خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتا نا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کر نا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی۔ پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے بر عکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں”(الحدید:٢٠)۔نیز یہ بھی فرمایا کہ:”لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس،عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں، بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں”(آل عمران:١٤)۔یہاں ان آیات کا بھی مختصر تذکرہ فائدہ مند ہوگا جس میں مرد اور عورت پر اس کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔کہا کہ”اورجو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بہ شرطے کہ ہو وہ مومن تو ایسے ہی لوگ جنگ میں داخل ہوں گے”(النسائ: ١٢٤)۔مزید فرمایا:”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت”(آل عمران:١٩٥)۔
دورجدید میں صنفی امتیاز اور صنفی برابری کی جب بات کی جاتی ہے تو عموماً عورت کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنانے کی بات ہوتی ہے۔اس پس منظر میں عورت پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ جس طرح خالق برحق نے مرد کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی انہیں صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ آغاز تعلیم سے ہوتا ہے کہ جس طرح مرد کو تعلیم حاصل کرنے کا حق اور صلاحیت ہے ٹھیک اسی طرح مالک حقیقی نے عورت کو بھی یہ صلاحیت اور حق دیا ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرے،اور یہ آغاز مناسب ہے کہ عورت اور مرد ،دونوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک خاندان کی صورت میں دونوں ہی پر یہ عظیم ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی شعوری تربیت کا فریضہ انجام دیں۔برخلاف اس کے آج کا ترقی یافتہ دور بھی اس بات کا قائل ہے کہ عورت پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر،خاندان اور شوہر و بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرے۔
اس کے صاف معنی یہ ہیںکہ عورت گھر کے باہر ضروریات زندگی کے لیے ادا کی جانے والی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہے،سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی استطاعت کی حد تک حصہ دار بننا چاہے۔اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن حکیم میں فرمائی ہے۔فرمایا”مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں”(النسائ:٣٤)۔آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ روزی کمانا اصلاً مرد کی ذمہ داری ہے،عورت کی نہیں ہے۔اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ عورت کی نہ راست اور نہ بلاواسطہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنی مرضی کے خلاف کردار ادا کرے۔
خصوصاً ان طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے جو اخلاقی لحاظ سے بھی بدترین ہوں اور جس کے نتیجہ میں نہ صرف عورت کی ابدی زندگی تباہ ہو بلکہ دنیا میں بھی اس کا استحصال کیا جانا ممکن ہو۔لیکن چال باز اور حُبُّ الشَّھَوٰت میں مبتلا مرد نے آزادی نسواں،مساوات مرد و زن اور خواتین کو بااختیار بنانے کے نعروں کی آڑ میں مستقل بنیادوں پر عورت کی تحقیر و تذلیل کا منصوبہ اور پروگرام اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ بظاہر بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ناپاک اور نجس انسان خوبصورت لباس زیب تن کر کے بظاہر مہذب اور باشعور انسان کی شکل میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔برخلاف اس کے اسلام میں عورتوں کی عزت افزائی کے شواہد موجود ہیں۔مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ “جنت مائوں کے قدموں تلے ہے”اور یہ بھی کہ “تمہارے حسن سلوک کی اولین مستحق تمہاری ماں ہے”یا عورت کی امتیازی تکریم کہ حج جیسی عبادت میں حضرت ہاجرہ کی سنت صفا و مردہ کے درمیان سعی کو اس عبادت کا جز بنا دینا، وغیرہ۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com