تحریر: کامران لاکھا۔ جامپور شادی زندگی کا خوبصورت لمہ ہوتا ہے۔ ہر دورمیںیہ با ت عام سننے میںآتی رہی ہے کہ اچھے لڑکے تو ملتے ہی نہیں ہیں۔ خواتین ہی کو شریک حیات کی تلاش میں پریشانی کا سامنا رہتا ہے ہمارے معاشرے میں اکثریت خواتین اور مرد حضرات ثقافتی طور پر ہندوازم سے متاثر ہیں جس کی جھلک شادی بیاہ کے دیگر اہم موقع پر انجام دینے جانے اموار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔بھارت کے بعداب یورپی ثقافت نے بھی پاکستانی عورتوں کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم یافتہ خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا ہے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کا حصول ،تنہا سفر کا خوف ،محلوط کمیونٹی کے ساتھ کام کی مجبوری اور اپنے ذہنی معیار کے مطابق شریک حیات کی تلاش ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے حالانکہ ہمارے ہاں خواتین نے تعلیمی میدان میں مردوں سے زیادہ ترقی کی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں پھر بھی مرد کو برتری حاصل ہے اسی لئے پڑھی لکھی لڑکیوں کو دہ ہری پریشانی کا سامنا ہے ۔بیٹیوں کے اچھے رشتوں کی تلاش میں والدین بھی پریشان ہیں۔
Dowry
آج کل لڑکا اور اسکے گھر والے بھی ایسے رشتے کی تلاش میں رہتے ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ امیر باپ کی بیٹی بھی ہو،ایسی لڑکیوں کو شادی کے بعد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ لالچی شریک حیات کی وجہ سے شادی کے بعد ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔
دوسراجہیز کی لعنت نے بھی خواتین کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے، اعلی تعلیم یافتہ اور برسر روزگارلڑکی کو بھی جہیز جیسی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تمام تر سہولیات کے باوجود بھی لڑکی کو اس معیار کا شریک حیات نہ ملنے پر جوانی کا اصل حصہ بیت چکا ہوتا ہے ۔خوب سے خوب ترکی جستجونے بھی مسائل میں اضافہ کیاہے۔