خاتون کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑ رہی تھی۔ اس کی ماں اپنی بیٹی کی حالت دیکھتی تو اضطراب کے مارے کھڑی ہوجاتی۔ کمرے سے باہر آتی ادھر ادھر بھاگتی اور پھر کچھ ہی دیر میں واپس اسی کمرے میں چلی جاتی۔ کمرا کافی کھلا اور ہال نما تھا۔ اس میں بہت سے بیڈ اور بھی لگے ہوئے تھے، دو بیٹ پر دو خواتین لیٹی ہوئی تھیں۔ وہ بھی شاید اس وقت کی تمام کیفیت کو محسوس کر رہی تھیں۔ ماں کے چہرے پر اضطراب کی جھلک ان کے چہروں سے بھی کچھ واضح ہورہی تھی۔
وقت بہت دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سیکنڈ منٹ اور گھنٹے دن بن گئے ہوں۔ ایسی صورت میں بیمار عورت اور اس کی والدہ کے لیے دو گھنٹے کسی عذاب سے کم نہ تھے۔ یہ پریشانی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ماں بار بار گھڑی کی طرف دیکھتی اور پھر لپک کر گیٹ کی طرف جاتی اور دور تک خالی نظر آنے والی سڑک کو دیکھ کر پھر ریسیپشن پر موجود خاتون کے پاس آتی اور ڈاکٹر صاحبہ کے آنے کا پوچھتی، جواب میں وہی 8 بجے کا وقت سن کر وہ بے چینی کے ساتھ اپنی بد حال بیٹی کی طرف بڑھ جاتی ۔ اس ساری پریشانی میں خاتون کے دیگر رشتہ دار بھی برابر کے شریک تھے۔ پنجاب کے ایک شہر کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں یہ خاتون زچگی کی حالت میں اس قدر بے چین اور پریشان تھی کہ اس کی اس وقت کی حالت صرف وہیں بہتر جان سکتا ہے جو اس مرحلے سے گزر ہو یا اس نے محسوس کیا ہو۔ اس سرکاری اسپتال کی حالت یہ ہے کہ وہاں پر گائنی ڈاکٹروں کی شفٹیں ہوتی ہیں۔ ہر ڈاکٹر اپنی شفٹ سے 2 گھنٹے قبل ہی اپنے گھر کو چل دیتی ہیں۔ یا پھر وہ کسی اہم کام کے لئے نکل جاتی ہیں۔ جبکہ آنے والی اپنے وقت سے کچھ ہی لیٹ آتی ہے۔
وہاں پر موجود ایک خاتون جب مجھے یہ آنکھوں دیکھا حال بتارہی تھی ، میرے سن کر رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔ یہ سننے کے بعد اس کی اذیت مجھ پر بہت گراں گزری۔ مگر وہ خاتون گویا ہوئی کہ بات اتنی ہی نہیں ہے۔ 8 بجے کے کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ جن کا بے چینی سے انتظار کیا جارہا تھا وہ تشریف لے آئیں۔ انہوں نے آتے ہی جب خاتون کی حالت دیکھی تو فوری طور پر حکم نامہ جاری کیا کہ حالت کافی سنگین ہے اور ہمارے سرکاری اسپتال میں مشینری نام کی کوئی چیز نہیں ہے لہٰذا آپ اسے کسی پرائیویٹ اسپتال میں لے جائیں۔ ان ڈاکٹر صاحبہ کے جملوں نے ایک لمحہ کے لئے ماں اور بیٹی کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ ایسی صورتحال میں کہیں اور جانا بہت مشکل بلکہ ناممکن جیسا لگ رہا تھا۔ خیر جیسے تیسے کر کے وہ نجی ہسپتال پہنچے تو وہاں بھی ڈاکٹر نہیں تھے۔ ایک اور اسپتال پہنچے جہاں پر امید کی کرنیں بجھنے لگ گئیں جب نئے ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ حرکت نہیں کر رہا۔ اور پھر یہ خدشہ تب حقیقت کا روپ دھارگیا، جب مشین نے بتایا کہ بچہ کی زندگی کی ڈور ٹوٹ چکی ہے۔
Government Hospital
یہ وہ جملے تھے جن کے بارے میں شاید کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے تک سب گھر کے افراد بے انتہا خوش تھے کہ بڑے عرصے بعد آج ان کے خاندان میں ایک نئے پھول کا اضافہ ہونے والا تھا۔ سب باری باری فون کر کے خیریت پوچھ رہے تھے۔ مگراب وہ خوشی ایک ڈاکٹرکی سستی ، ایک سرکاری ہسپتال کی بدانتظامی اورعوام کو سہولت دینے کے لیے اقتدار میں آنے والی ایک بے حس حکومت کے باعث ماتم میں بدل چکی تھی۔ کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کس کی گود اجڑی، کس کے ارمانوں کا خون ہوا، کس ماں نے زندگی سے امیدیں ختم کردیں۔
اس سارے واقعے کے بعد یقینا افسوس اور غم کا سمندر ہوگا مگر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ذمہ دار کون تھا اور کیوں اس نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا ۔ وطن عزیز میں سرکاری ہسپتالوں کی ابتر صورتحال پنجاب سے لے کر سندھ تک یکساں ہے۔ جیسے وہاں پر ڈاکٹر نہیں ملتے ویسے یہاں پر ہسپتالوں میں گدھے اور کتوں کے ڈیرے ہوتے ہیں۔ وہاں پر ہسپتال میں لڈو ، گانے اور سگریٹوں کے ساتھ اونچی آواز پر قہقہوں کا راج ہے تو یہاں پر رات کی تاریکی،گیدڑوں کی آوازیں،دروازوں پر تالے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہسپتالوں میں ایمرجنسی طور پر نہ تو کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے اور نہ جدید مشنری موجود ہے۔ صحت عامہ کی مد میں اربوں کے فنڈ لینے والی وزارت صحت نے اگر کسی ہپستال کو کوئی مشینری دی بھی ہے تو رشوت پر ملازمت حاصل کرنے والا ناتجربے کار اور ان پڑھ اسٹاف اس کو کچھ ہی عرصے میں ناکارہ بنا کر کباڑ خانے کی زینت بنا دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں اسٹاف آتا ہے مگر تنخواہیں لینے کے لیے یا اسٹاک میں آئی ہوئی سرکاری ادویات کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے لیے۔
حکومتی ایوانوں میں جانے کے خواہش مند صحت ، تعلیم سمیت مفاد عامہ کے لیے بہت کچھ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ مگر جب اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو پھر کسی کو بھی اپنے وعدوں کا خیال نہیں رہتا۔ کہیں نرسیں اپنے حقوق کے لئے واویلا کرتی ہیں تو کہیں ڈاکٹرز، مگر جب یہیں اپنی ہی کرسی پر اپنے ہی اسپتال میں ہوتے ہیں تب ان کے سامنے بلکتے بچے ہوتے ہیں۔ ٹوٹتی، گرتی مائیں ہوتی ہیں۔ غربت کے جوڑے میں کھڑا مجبور باپ ہوتا ہے۔ تب یہاں بھی وہیں بے حسی ہوتی ہے۔ وہیں پیسے کی حوص ہوتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موت و حیات اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر یہاں اس بچے کے وفات کا سبب ایک سرکاری اسپتال بنا، ایک غافل ڈاکٹر بنی اور وہاں پر معمور فرائض سے غفلت برتنے والا اسٹاف بناہے۔ایک لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ کیا صرف ہم اپنے لئے جیتے ہیں…؟ کیا ہم دوسروں کے لئے نہیں جی سکتے…؟ اگرمعاشرے میں موجود ہرفرد صرف وہ ذمہ داری دیانت داری کے ساتھ ادا کر دے جو اس پر لازم ہے تو پورا سسٹم ٹھیک ہو سکتا ہے۔ آج ہم کسی کے لئے تھوڑا وقت دیں گے۔ کسی کے کام آئیں گے تو آنے والے کل میں کوئی ہماری مجبوری کو سمجھے گا۔ ورنہ تو اس پوری کائنات کا نظام اللہ کے ہاتھ میں اگر وہ چاہیے تو ہمیں اس غلطی کا احساس خود ہم پر ڈال کر دلا دیدے۔ وزیر صحت اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو دیکھنا ہوگا۔ اپنے لئے تو سب جیتے ہیں ، مزا تو تب ہے جب ہم دوسروں کے لئے جینا سیکھ لیں۔
کرو تم مہربانی اہل زمین پر خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر