دنیا کی کوٸی بھی قوم ایسی نہیں جس میں عورت ذات موجود نا ہو اور عورتوں کو عزت نا دی جاتی ہے۔ میرے خیال کے مطابق تو عورت مرد کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ مرد عورت سے اونچی آواز میں بات کرے عورت کے ساتھ جھگڑا کرے اگر مرد عورت سے کچھ کہتا ہے تو عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔ مگر ایسی قومیں ضرور موجود ہیں جو لڑکی کی پیداٸش پر افسوس کرتی ہیں۔شاید ان کے علم میں نہیں ہے ایک لڑکی ہی ہے جو مستقبل میں ایک ماں، بہن ، اور بیٹی کا کردار ادا کرتی ہے۔
اسلام سے قبل یعنی نبیِ مکرم محمد صلى الله عليه واله وسلم کی آمد سے قبل اس دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ عورت کو کوٸی مقام حاصل نا تھا۔ عورت غلامی کی زندگی کر رہی تھی۔اسلام نے عورت کو ایک اعلی مقام عطا کیا۔ اور ہماری آج کی عورت اس تمام امور اور ضابطٸہ حیات کو بھول بیٹھی ہے۔ اسلام سے قبل تو عورت کے یہ حال تھا کہ لڑکی کی پیداٸش سے والد کا چہرہ زرد پڑ جاتا تھا سر شرم سے جھک جاتا تھا۔ بیٹی کی پیداٸش کو نحوست سمجھا جاتا تھا۔مصوم کلیوں کو زندہ زمین میں درگور کر دیا جاتا تھا۔ چند ایک لوگ تھے جو اس براٸی میں ملوث نہیں تھے۔
ارشادِ باری تعالی ہے: جب زندہ گاڑھی گٸ لڑکی سوال کیا جاۓ گا تیرا جرم کیا تھا؟ سرداران بیٹی کی پیدائش کے بعد گھروں سے نہیں نکلا کرتے تھے۔ کوٸی یہ نا کہہ دے کہ ان کے ہاں لڑکی کی پیداٸش ہوٸی ہے۔ کوٸی انہیں مبارک نا دے دے۔
ابن عباس سے مروی ہے *نبی صلى الله عليه واله وسلم *نے فرمایا: جس شخص کے ہاں لڑکی کی پیداٸش ہوٸی اس ن نہ اسے زندہ دفن کیا نہ بے وقت سمجھا اور نا اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ اسکو جنت میں داخل کرے گا۔اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی،ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا عورت کے انسانی حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں عزت و تکریم کی مستحق قرار پاٸی جس کے مستحق مرد بھی نہیں۔
ارشادِ باری تعالی ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر دونوں میں کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو بنایا.
اسلام سے قبل زنا عام تھا۔ایک عورت کے کئی شوہر ہوا کرتے تھے۔مرد مردوں سے شادی کیا کرتے تھے۔محرم رشتوں سے نکاح کیا جاتا تھا۔ زناکاری کا عام رواج تھا۔ اس دور کے مشہور شعراء میں ایک شاعر نے اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ زنا کے واقعے کو مزے لے لے کر بیان کیا کرتا تھا۔ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام عطا کیا۔زنا جیسی بری عادات کو حرام قرار دے دیا گیا۔اسلام نے عورت کو ایسے ایسے مقامات عطا کیے جس سے عورت عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگی. محمد صلى الله عليه واله وسلم نکاح کو نصف ایمان قرار دیا جس نے نکاح کیا۔اس نے آدھا ایمان مکمل کرلیا۔وہ آدھا مسلمان ہو گیا اللہ رب العزت نے انسان کے لئے عورت کو پیدا کیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔اسلام نے عورت کو شہزادی جیسا مقام عطا کیا۔یہ شہزادی بننا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو پردے میں چھپائے رکھے پردے میں محفوظ رکھے۔ اسلام نے حکم دیا ہے مردوں سے اونچی آواز سے بات کی جاۓ۔ مرد سے بات کرتے وقت عورت کو برا اخلاق اختیار کر لینا چاہیے۔
یہ حکم اس لیے ہے تاکہ مرد عورت کی میٹھی زبان سے اس سے غلط تعلقات نا بنا بیٹھے۔اسلام میں تو مرد سے اونچی آواز سے بات کرنے سے منع فرمایا ہے مگر ہمارے معاشرے کی لڑکیاں سوشل میڈیا پر وہ لباس پہن کر سامنے آرہی ہیں کہ جو لباس انہیں برہنہ کر رہے ہیں۔وہ لباس پہنے یا نہ پہنے ایک برابر لگتا ہے اور آج کل کے والدین اس بات میں زیادہ قصور وار ہیں۔ کہ ان کی اولاد ایسے لباس زیبِ تن کرتی ہے۔اگر والدین اپنی اولاد کو شروع سے ہی ایسا لباس پہناٸیں جو لباس اسلام نے پسند کیا ہے۔ تو آج یہ لڑکیاں برہنہ لباس نہ پہنتیں۔ والدین خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں ٹک ٹاکس بنا رہی ہیں مشہور ہو رہی ہیں مگر اللہ کی قسم اپنے لباس کی وجہ سے ایسی لڑکیاں جنت کی مستحق نہ ہوگیں۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کا جلد از جلد نکاح کر دیا جائے۔مگر ہمارے معاشرے میں ڈگریوں کی خاطر نکاح میں تاخیر کر دی جاتی ہے۔یہ وہ ڈگریاں ہیں جو دنیا میں تو کام آتی ہیں۔ مگر آخرت میں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔صرف لڑکیوں کے نکاح میں جلدی نہ کریں بلکہ لڑکوں کے نکاح بھی جلد ہی کر دینی چاہیے۔ آٹھ مارچ کو women day کے نام سے منایا جاتا ہے.
خواتین اور لڑکیاں اپنے گھروں سے سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے تو گھر میں ٹکے رہنے کا حکم دیا ہے۔ آج ہمارے پاکستان میں موجود تقریباً زیادہ تر لڑکیاں جاب کر رہی ہیں۔مرد ہونے کے باوجود اپنے گھروں کی فکر کیے بغیر گھروں سے باہر نکل کر خود کمانے کو بہتر سمجھتی ہیں۔ جو شوہر لا دے اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں جتنا کر سکتی ہیں۔ وہ لوگ بھی تو اسی دنیا میں موجود ہیں نا جو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے کھا پاتے ہیں۔میرے خیال کے مطابق عورت کے لیے اگر کوٸی عزت والی اور محفوظ جاب ہے وہ ٹیچینگ ہے۔ مگر آسان یہ بھی نہیں ہے۔ جب عورت خود کمانے لگتی ہے مرد کو کچھ سمجھتی ہی نہیں اس کو مرد سے زیادہ پیسہ عزیز لگنے لگتا ہے۔8 مارچ کے دن یہ لبرل خواتین کیا نعرے لگاتی ہیں۔ ”میرا جسم میری مرضی“ یہ کون ہو سکتی ہیں اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانے والی حالانکہ حکم تو اللہ رب العزت کا چلتا ہے۔ اس دنیا میں چلنے والی ہر چیز ختی کے پتہ بھی اللہ کے حکم سے ہلتا ہے۔نظروں میں ایک نعرہ یہ بھی ہوتا ہے ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“ مرد سارا دن کماتا ہے صرف اور صرف اپنے اہل وعیال کے لیے تو عورت کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ مرد کی ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھے۔ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین اپنے شوہروں سے اگر علیحدگی اختیار کرتی ہیں تو ان کی وجوہات فضول سی ہوتی ہیں اور جو عورت جو عورتیں فضول بات پر اپنے شوہر سے خلع لے لیتی ہیں یا ناراض ہوجاتی ہیں ان پر جنت کی خوشبو تک حرام کر دی گئی ہے۔
اگر ہمارے معاشرے کے مرد اپنی بیویوں کی اطاعت کرنے لگے ان کا کوئی کام کرنے لگے تو یہی وہ عورتیں ہوتی ہیں جو ان کو ” رن مرید“ کے لقب سے نواز دیتی ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رضی اللہ تعالی عنھا بھی اپنی ازواج کی مدد کیا کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے کام کاج بھی خود کیا کرتے تھے بکریوں کا دودھ دھویا کرتے تھے اپنے کپڑے خود رفو کیا کرتے تھے۔ہمارے اصحاب اپنی ازواج مطہرات سے بہت محبت کیا کرتے تھے اگر مثالیں دینا چاہو تو قلم کی سیاہی تو ختم ہو جائے گی مگر نیک سیرت صحابیات کی مثالیں ختم نہ ہوگی۔ اس معاشرے کے اکثر مرد ظالم ضرور ہیں ظلم و جبر ضرور کرتے ہیں مگر ہر مرد کو بد نام نہ کیا جائے۔ ہر ایک ایسا نہیں ہے۔ 8مارچ وومن ڈے کی ہیڈ ماروی سرمد جس نے خود تو ابھی تک شادی نہیں کی اور عورتوں کے حقوق اور مردوں کے خلاف ایسے آواز بلند کرتی ہے جیسے تمام ظلموں کے پہاڑ اسی عورت پر توڑے گئے ہوں۔ کرونا وائرس جیسی موذی وبا اس دن سے ہے جس دن عورتوں نے ان لبرل عورتوں نے مارچ کیا تھا۔
یہ عورتیں مردوں کے خلاف بولی تھیں۔ مردوں کے خلاف تو ایسے بولی تھیں اس طرح مردوں کے حقوق کے خلاف سڑکوں پر نکلتی ہیں جیسے اسلام کی ہر چھوٹی بات پر عمل کرتی ہوں اور مردوں حقوق سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ خدارا اگر یہ عورتیں اتنی ہی تنگ ہے تو اپنے مسائل کو اپنے گھروں کی حد تک رکھیں اس دنیا کے تمام مردوں کو کیوں بدنام کر رہی ہیں۔ ماروی سرمد ایسی مخلوق ہے جس کے لئے ہم پناہی م مانگیں دعا ہی کریں تو ہمارے لیے بہتر ہے کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو میرے خیال سے اسی مخلوق کی وجہ سے ہے۔ اسی مخلوق کی وجہ سے ہمیں سزا مل رہی ہے۔ یہ ناشکری عورتیں ہیں اسلام سے قبل تو عورت کو اس کے ہر حق سے محروم رکھا جاتا تھا حتی کہ اس کو وراثت کے حق سے بھی محروم رکھا گیا تھا اللہ رب العزت نے عورت کو وراثت کی حقدار بنایا۔اگر بہترین ماں کو دیکھنا ہے تو صحابیات کی سیرت کو پڑھو اگر بہترین بیٹی کو دیکھنا ہے تو حضرت فاطمہ کی سیرت کو پڑھو اگر بہترین بیوی کو دیکھنا ہے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سیرت کو پڑھو۔ مرد کی عزت کرنا سیکھیں مرد ایک انمول خزانہ ہے۔