عورت خواہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں ہو کے بغیر انسانی معاشرہ نا مکمل ہے۔ اسلام میں عورت کو انتہائی بلند مقام دیا گیا ہے۔ بیٹی ہے تو والدین کے لئے رحمت، ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ وہ پاکستان جہاں عورت دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ نے بھی میدان سیاست میں خوب نام کمایا اور رعنا لیاقت علی کو گورنر سندھ کے اعلیٰ مرتبہ پر بھی فائز کیا گیا۔
عورت نے ثابت کیا کہ مرد کی طرح عورت بھی کسی طور پر کم اہمیت کی حامل نہیں ہے مگر اس کے باوجود ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کے نعرے پر حاصل کئے گئے اس ملک میں یہ صنف نازک اپنے بنیادی فرائض کے معاملے میں ہمیشہ نظر انداز کی گئی۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ونی اور کاروکاری جیسی قبیح رسم، گینگ ریپ، زنا بالجبر، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، عزت کے نام پر قتل، وراثت سے محرومی اور سوا بتیس روپے حق مہر جیسے غیر عادلانہ، غیر منصفانہ، ظالمانہ اقدامات اور جاہلانہ رسم و رواج سے اسلام اور پاکستان کی عالمی سطح پر جنگ ہنسائی ہو رہی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ اور شرعی قوانین سے ان رسوم و رواج کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔
بلکہ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف اور اسلام کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کے مترادف ہے۔ 2013 میں بھی خواتین پر تشدد کا سلسلہ نہ رک سکا، پاکستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی نجی تنظیموں کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک پاکستان کے مختلف شہروں سے خواتین پر تشدد کے 1444کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ڈیٹا بیس کے مطابق 316خواتین کو ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا، 112 خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں جب کہ 114 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے۔افسوس اس بات کا ہے کہ درندے معصوم کلیوں کو مسل دیتے ہیں مگر قانون کے رکھوالے ایسے درندوں کو گرفت میں نہیں لا سکتے۔ اتنی قانون سازی اور این جی اوز و سول سوسائٹی کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں تشدد کے واقعات کا سامنے آنا صورت حال کی سنگینی کی غمازی کرتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں معاشرتی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی خواتین کو پناہ فراہم کرنے کے لیے قائم کیے گئے دارالامانوں میں متاثرہ خواتین کی تعداد گنجائش سے دوگنی ہو نے کی وجہ سے محکمہ سوشل ویلفیئر اور متاثرہ خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
Dar ul Aman
صوبائی حکومت پنجاب میں ضلعی سطح پر کرائے کی عمارتوں میں قائم کیے گئے 26 دارالامانوں میں سے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران محض تین کی نئی سرکاری عمارتیں تعمیر کرانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ حکومت پنجاب نے معاشرے میں عدم تحفظ کا شکار متاثرہ خواتین کو پناہ فراہم کرنے کے لیے رواں برس صوبہ کے 10 مختلف اضلاع میں کرائے کی عمارتوں میں قائم کیے گئے دارالامانوں کی سرکاری عمارتیں تعمیر کرانے کے لیے تقریباً 8 کروڑ 84 لاکھ روپے کے فنڈز مختص کیے تھے تاہم تاحال صرف تین اضلاع میں دارالامان کی نئی عمارتیں مکمل تعمیر ہو سکی ہیں۔ محکمہ سوشل ویلفیئر رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران مختص فنڈز میں سے دارالامانوں کی تعمیر پر صرف دو کروڑ روپے خرچ کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ صوبہ پنجاب سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں خواتین کے ساتھ تشدد اور مظالم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، بعض اوقات حالات تھانے، کچہری تک پہنچتے ہیں اور متاثرہ خواتین کو اپنی زندگی بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ عدالتیں اپنے فیصلوں میں متاثرہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دارالامان داخل کرنے کا حکم دیتی ہیں۔
صوبہ پنجاب کے دارالامانوں میں عدالتوں کی طرف سے بھیجی جانے والی خواتین اور بچوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے۔ سرکاری افسران کے مطابق ہر دارالامان میں ایک وقت میں کم از کم 50 خواتین کو پناہ فراہم کی جا سکتی ہے لیکن صورتحال اس کے بر عکس ہے اور تقریباً ہر دارالامان میں اوسطاً 90 سے زیادہ خواتین رہائش پذیر رہتی ہیں۔ محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ کے کل 34 دارالامانوں میں ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 6616 خواتین اور 1871 بچے داخل کیے گئے۔ آٹھ ڈویڑنل دارالامانوں میں خواتین کی تعداد 2264 اور بچوں کی تعداد881 رہی جبکہ 26 ڈسٹرکٹ دارالامانوں میں 4343 خواتین اور 990 بچوں کو داخل کرایا گیا۔ فیصل آباد کے دارالامان میں سب سے زیادہ یعنی 426 خواتین کو داخلہ دیا گیا جب کہ بہاول پور میں351 اور راولپنڈی میں 341 خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے داخل کیا گیا۔ اسی طرح راولپنڈی میں 159، فیصل آباد میں 145 اور لاہور کے دارالامان میں 150 بچوں کو داخل کیا گیا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جوکہ عورتوں کی ذہنی و جسمانی صحت، معاشی بد حالی اور دوسروں پر انحصار کا باعث بنتا ہے اور تشدد میں بتدریج اضافہ ان کی مسلسل معاشرتی نا برابری کا سبب بنتا جا رہا ہے اور یہ بحران اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمار ی سول سوسائٹی کے نمائندے، معزز منتخب نمائندگان، متعلقہ محکموں، پولیس، محکمہ صحت، سماجی بہبود، وکلا اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے فوری ایکشن لیکر کاروائی عمل میں لائیں اور ان بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لئے مثبت حکمت عملی اختیار کریں کیونکہ جس معاشرے میں عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے گھروں میں خواتین، بچوں اور دیگر اہل خانہ پر تشدد کے خلاف قانونی بل منظور کیا، جس کے تحت گھریلو تشدد کرنے والے کو ایک اور دو سال تک قید اور دو لاکھ تک جرمانہ ہوگا جبکہ ایسے مقدمات کی سماعت تین دن میں شروع ہو کر ایک ماہ میں مکمل کی جائیگی، تاہم ضرورت اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہے۔ قومی اسمبلی سے ویمن پروٹیکشن بل پاس ہونے کے باوجود خواتین پرتشدد کے واقعات میں اضافہ افسوسناک امر ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کے باعث عورتوں پر تشدد روز بروز بڑھ رہا ہے۔
خواتین کی تھوڑی بہت ترقی ان کی اپنی انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہے ملک بھر میں خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے درجنوں تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن ان کے فعال نہ ہونے کے باعث عورتوں کی مشکلات کم نہیں ہورہی ہیں۔تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قوانین کا نفاذ انصاف کا فروغ اور مردوں اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے آگاہی اور تعلیم دینا اْس کی اہم ضرورت ہے۔ خواتین پر تشدد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے ستر فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔ بلاشبہ معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی ادائیگی، ان کی کفالت اور ان کے مسائل کا خاتمہ حکومت کا اولین فرض ہے لہذا حکومت وقت اگر صحیح معنوں میں عوامی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر پاکستان سے ظلم و استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ بالخصوص عورت پر ہونے والے مظالم کو ختم کرکے اس کے بنیادی حقوق کی ادائیگی کا سامان فراہم کر کے اسے اس کی عزت و ناموس کی پاسداری کی ضمانت دینا ہو گی تا کہ پاکستان سے تمام قبیح رسموں کا خاتمہ کر کے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔