خواتین پر ہونے والے ذہنی ، جسمانی ، جنسی اور گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ماضی میں بھی قانون سازی تو کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود وطن عزیز پاکستان میں جنسی وجسمانی تشدد کا خاتمہ تو دور کی بات بلکہ اس میں گزشتہ چند سالوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ،ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میںسالانہ 9 ہزار سے زائد خواتین مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی خوفناک اضافہ ہورہاہے ، پاکستان بھر میں روزانہ تیرہ بچوں کو جنسی وجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اگر تمام واقعات رپورٹ ہوں تو یہ تعداد اس سے زائد ہو پنجاب کے بڑے شہروں لاہور،ملتان ، راولپنڈی اور فیصل آباد میںخواتین کے خلاف تشدد کے واقعات سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارے ہاں معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر خواتین اور خاص طور پرکم عمر بچیوں پر جسمانی وجنسی تشدد کا خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے خاص طور پر گھروں میںکام کرنے والی کم عمر بچیاں جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہیں میڈیا پر آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں ،سانچ کے قارئین کرام !آج بھی پسماندہ علاقوں میں قرآن سے شادی،کاروکاری جیسی رسومات کے زریعے عورت کا استحصال کیا جارہا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ سال ایک مرتبہ پھرخواتین پر تشدد کے حوالہ سے پاکستان سر فہرست ملک رہا، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے، نوکریوں کے حوالہ سے معاشرتی پابندیوں، عدم مساوات، غربت اور زبردستی کی شادیوں کی وجہ سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا، یہ بات بالکل درست ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں، جب تک قانون حرکت میں نہیں آئے گا عورت کو مساوی حقوق اور انصاف نہیں مل سکتا،موجودہ دور میں میڈیا خواتین کے حقوق کے حوالے سے موثرشعور اجاگر کر سکتا ہے ، کسی بھی ملک میں امن قائم رکھنے، تشدد اور جرائم کے خاتمے اورانصاف کی فراہمی میں پولیس کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میںمحکمہ پولیس کے اہلکاروں کو جب تک خواتین کے حقوق کے حوالہ سے آگہی نہیں دی جائے گی اس وقت تک چھوٹے شہروں ، گائوں ، قصبوں میں عورت یونہی تشدد کا شکار ہوتی رہے گی ، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پنجاب بھر میں غیرت کے نام پر تیرہ سو اٹھائیس خواتین کو قتل کردیا گیاجبکہ پانچ سال کے دوران خواتین پر تیزاب پھینکنے کے پانچ سو چھیاسٹھ سے زائدواقعات رپورٹ کیے گئے۔ایک عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک عورت کو مرد کے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے،گزشتہ دنوں لاھورکے قریب موٹروے پر خاتون سے جنسی تشدد کے واقعے پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہارکیا گیا، پولیس اور حکومت بھی حرکت میں آئی لیکن یاد رہے کہ جن دنوں میں اس واقعہ کا ذکر میڈیا پر جاری تھا اُسی وقت ملک کے دیگر علاقوں میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے کئی ایک واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے جسکی سب سے بڑی وجہ بچیوں اور خواتین سے زیادتی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا کا نہ ملنا ہے ، چند سال پہلے زینب کیس میڈیا پر آیا توملزم کو گرفتار کرنے کے لئے پاکستان بھر میں مظاہروں کا سلسلہ چند وز جاری رہا بعدازاں ملزم کو گرفتار بھی کر لیا گیا اور سزا بھی ملی لیکن اس دوران اور تادم تحریر ایسے واقعات تھم نہیں سکے جس کی سب سے بڑی وجہ ملزمان پرقانون کی ڈھیلی گرفت اور سزا سے بچ نکلنا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اب یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ پولیس اور عدلیہ کے لیے مناسب تربیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ جنسی تشدد کے مقدمات میں بین الاقوامی طرز کے طریقوں سے کام ہو اور مقدمات کی تفتیش اور سماعت کے دوران خواتین کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے،سانچ کے قارئین کرام !دین اسلام نے خواتین کوجو حقوق دیے ہیں وہ کسی اور مذہب میں حاصل نہ ہیں لیکن اس کے باوجود پسماندگی، استحصال اور زیادتیوں کی شکار خواتین کو اپنے حقوق سے واقفیت نہ ہے ، اس کی آگہی کے لئے علمائے کرام اہم کردار اداکرسکتے ہیں،گزشتہ دنوں خواتین سے ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات پروزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے محکمہ پولیس کوایسے واقعات کی روک تھام کے لئے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں جس پر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب انعام غنی نے خواتین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف فوری اور بھر پور اقدامات کرنے کے واضح احکامات جاری کیے ریجنل پولیس آفیسر ساہیوال طارق عباس قریشی اورڈسٹرکٹ پولیس آفیسراوکاڑہ عمر سعید ملک نے خواتین پر تشدد میں ملوث افراد کی سر کو بی اورظلم وتشدد کے خلاف آگہی بیدار کرنے کے لئے جہاں دیگر اقدامات کیے وہیں خواتین کے لئے الگ سے شکایت سیل بھی قائم کیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسراوکاڑہ عمر سعید ملک کی خصوصی کاوشوں سے خواتین میں آگہی سیمینار اور واک کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھر پور شرکت کی ،خواتین پر تشدد کے خلاف پولیس کے کردار پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سعید ملک نے کہا ہے کہ ماضی میں ہمارے معاشرے کی خواتین کی عزت پر اگرکوئی حر ف آتا تھا تو انہیں شکایت کے اندراج کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب آئین اور قانون میں عورت کے تحفظ کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے، اور ضلع میں خواتین کے لئے الگ سے ہیلپ لائن کا آغازبھی کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ غیرت کے نام پر کسی بھی خاتون کا قتل ہوا تو پولیس اسکی مدعی بنے گی تاکہ جرم کرنے والا قانونی سزا سے بچ نہ سکے ،دین اسلام عورت کے حقوق، تحفظ، چادر کی حرمت کو مکمل طور پر یقینی بناتا ہے،سیمینارسے اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ سیدہ آمنہ مودودی،سابق سینئرنائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ، سینئر ٹیچر مس نصرت، ایس ایچ او چورستہ میاں خان منزہ محمد علی،اور وائس پرنسپل ڈی پی ایس مسز طیبہ ہاشمی نے بھی ضلعی پولیس کی جانب سے خواتین کے حوالہ سے سیمینار کے انعقاد کو سراہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا،بعد ازاں آگہی واک کی گئی گزشتہ جمعة المبارک کوضلع بھر کی پچاس سے زائد مساجد کے خطیب اور جید علما کرام نے خواتین پرظلم و تشدد کو اپنے خطابات کا موضوع بنایا۔