تحریر: سید انور محمود دیر پاکستان کا ایک خوبصورت کوہستانی خطہ ہے جو چترال اور پشاور کے درمیان سوات کے قریب واقع ہے۔دیر کو گندھاراتہذیب میں تاریخی حیثیت حاصل ہے جس کے ثبوت دیر عجائب گھر میں موجود ہیں۔ دیر پاکستان میں ضم ہونے سے پہلے ایک نوابی ریاست تھی۔ پاکستان میں انضمام کے بعد دیر کی پوری ریاست موجودہ خیبر پختونخوا کا ضلع بنادی گئی۔ بعد ازاں 1992ء میں اسے مزید دو ضلعوں زیریں دیر اور بالائی دیر میں تقسیم کر دیا گیا۔منگل 15 ستمبر 2015ء کو بالائی دیر میں صوبائی اسمبلی کی حلقے “پی کے 93” کے لیے ضمنی انتخاب ہوا۔ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم دیہی، اجتماعی اور ترقیاتی سوشل ورکرز کونسل کے مطابق دیر میں 1970ء اور 1977ء کے عام انتخابات میں خواتین نے ووٹ ڈالے تھے، جس کے بعد خواتین کسی بھی انتخابی عمل میں شریک نہیں رہیں تاہم اس بار خواتین کے لیے چھ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ماضی میں یہاں سیاسی جماعتوں اور مقامی رہنماؤں کی ایما پر غیر اعلانیہ طور پر خواتین کو اس جمہوری حق سے محروم رکھا جاتا رہا ہے۔
دیر میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کا سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے، ضلع میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کی جانب سے خواتین کی انتخابی عمل میں حصہ لینے کو یقینی بنانے کےلیے کبھی سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے پیسے تقسم کرنے کا معاملہ ہو تو پھر انہی خواتین کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رکھا جاتا ہے، پھر نہ جرگہ ہوتا ہے نہ مقامی روایات آڑے آتی ہیں لیکن جب خواتین کی رائے کا معاملہ ہو تو پھر ان پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اس علاقے میں عام طور پر مقامی سطح پر منعقد ہونے والے جرگوں میں خواتین کے ووٹنگ پر پابندی کے معاہدے کئے جاتے ہیں جس میں بعض اوقات سیاسی امیدوار بھی شریک ہوتے ہیں تا ہم پی کے 95 زیریں دیر کےانتخابات کے بعد الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پراحتجاج کے بعد اس بار پی کے 93 بالائی دیر میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ خواتین کی بڑی تعداد نے انتخابات میں حصہ لیا اور ووٹ ڈالے ہیں۔
Jamaat-e-Islami
اس نشست پرمئی 2013ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے بہرام خان کامیاب ہوئے تھے لیکن بہرام خان کی ڈگری جعلی ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن نے انہیں نا اہل قرار دے دیا تھا۔ ضمنی انتخابات میں اس نشست کے لیے چار امیدوار تھے جن میں بہرام خان کے بیٹے ملک اعظم خان بھی شامل تھے۔ پی کے 93 کےضمنی انتخابات میں غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار صاحبزادہ ثنا اللہ 18 ہزار 823 ووٹ لےکر کامیاب قرار پائے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے اعظم خان 15 ہزار 816 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر رہے۔ اس حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 48 ہزار 76 ہے جن میں مردوں کے تعداد 90 ہزار 368 جبکہ خواتین کے 57 ہزار 708 ووٹ ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں سات مئی کو حلقہ پی کے 95 زیریں دیر میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، اُس سےکچھ دن پہلے 23 اپریل کوکراچی کے حلقہ این اے 246 میں بھی ضمنی انتخابات ہوئے تھے، ان دونوں انتخابات میں ایک چیز مشترک تھی وہ تھی جماعت اسلامی، جس نے دونوں حلقوں میں اپنے امیدوارکھڑئے کیے تھے لیکن دونوں حلقوں میں جماعت اسلامی کا طرزسیاست بالکل مختلف تھا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے امیدوارراشدنسیم کی ضمانت ضبط ہوگئی جبکہ زیریں دیر میں جماعت اسلامی کے امیدوار اعزازالملک 19827 ( کل ووٹوں کے صرف 14.08 فیصد) ووٹ لے کر کامیاب ہو ئے۔
حلقہ پی کے 95 زیریں دیر میں ضمنی انتخابات میں ووٹر کی کل تعداد 140747 تھی جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 86930 (61.76 فیصد) اور خواتین کی تعداد53817 (38.24 فیصد) تھی۔ 53817 خواتین میں سے کسی ایک خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا، اس میں سراج الحق اور جماعت اسلامی کے امیدوار اعزازالملک کے گھرانے کی خواتین بھی شامل تھیں۔ عام خواتین ووٹر کی کیا بات کریں امیدواروں کی بیویاں بھی ووٹ ڈالنے نہیں آئیں۔ اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا کہ پی کے 95 کےضمنی انتخاب میں خواتین کوووٹ ڈالنے سے روکنے پر الیکشن کمیشن میں جائیں گے۔ زاہد خان کا کہنا تھا کہ خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی کے جرگہ میں اگر اے این پی کا کوئی نمائندہ بیٹھا تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
Media
ایک بھی خاتون کے ووٹ نہ ڈالے جانے پر میڈیا نے سوالات اٹھائے اور اس بات کی نشاندہی کی کہ ایسا سیاسی جماعتوں کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ پی کے 95 زیریں دیر وہی حلقہ ہے جس کے بارے میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی یہ شکایت سامنے آئی تھی کہ یہاں سیاسی جماعتوں نے ایک غیر قانونی معاہدہ کرکے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا تھا۔ کچھ اخبارات نے تو اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدے کی بھی نشان دہی کی تھی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے جب پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ 53817 خواتین میں سے کسی ایک خاتون نے بھی ووٹ نہیں دیا ، یہاں تک کہ کسی امیدوار کے گھرانے کی خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا تو سراج الحق کا جواب تھا کہ خیبرپختونخوا کے ضمنی الیکشن میں خواتین کو ووٹ دینے سے کسی نے منع نہیں کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ عورتیں ووٹ ڈالیں، انہیں اور بھی کام ہوتے ہیں، کھانا پکانا ہوتا ہے، بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے، اپنے شوہر کے کام کرنے ہوتے ہیں، دوسرے یہ پشتو روایت بھی ہے ۔ کراچی اور زیریں دیر کے انتخابات سے ایک بات یہ پتہ چلی کہ جماعت اسلامی نے زیریں دیر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جبکہ کراچی میں ووٹ حاصل کرنے کےلیے خواتین کا ایک بڑا جلسہ کیا،گویا جماعت اسلامی کے نزدیک زیریں دیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام جبکہ کراچی میں خواتین کا ووٹ دینا حلال تھا ۔
پی کے 95 زیریں دیر میں جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے دو جون 2015ء کوچیف الیکشن کمشنر نے اُسے خواتین کی عدم شرکت کی وجہ سے کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دےدیاتھا ۔ لیکن بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ انتخابات کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے احکامات معطل کرتے ہوئے اعزازالملک کو ان کی نشست پر بحال کر دیا۔ پی کے 95 زیریں دیر کےانتخابات کے بعد الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نےکافی شور مچایا، اخبارات اور پرنٹ میڈیا میں کافی مضامین لکھے گئے، لکھنے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ خواتین لکھاریوں میں سابق امیرجماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد کی صابزادی محترمہ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی نے “عورت، انتخابات اور پشتون روایات” کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔
Musharraf
جس میں انہوں نے اس بات کی صفائی دینے کی کوشش کی ہے کہ دیر کی خواتین نے تو کبھی ووٹ ڈالا ہی نہیں۔ یہ تو سب کو معلوم کہ مشرف کی بانٹی ہوئی ریوڑیوں سے ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی اورمنور حسن کی بیگم عائشہ منور جب 2002ء میں رکن قومی اسمبلی بنیں تو انہوں نے خواتین کے حقوق کے بل کی شدید مخالفت کی تھی۔ خاتون مصنف لبنیٰ ظہیراپنے ایک مضمون ‘دیر کے انتخابات اور خواتین’ میں لکھتی ہیں کہ “اگرچہ سیاسی جماعتیں تسلیم نہیں کرتیں لیکن مقامی اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے پس پردہ ایک غیر تحریری معاہدہ کر لیا تھا کہ کسی بھی خاتون کو ووٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے فاتح امیدوار اعزاز الملک نے فخریہ انداز میں کہا ہے کہ خواتین کا ووٹ نہ ڈالنا کوئی نئی بات نہیں۔ 1985 سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس صورتحال کو نرم سے نرم لفظوں میں شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے”۔
محترمہ کشور ناہید نےاپنے مضمون’خواتین کے حقوق اور قومی اداروں کی تنزلی’ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں زیریں دیر میں الیکشن ہوئے۔ جماعت اسلامی اس لیے جیتی کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا۔ جب کہ الیکشن کمیشن نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے نہ روکا جائے۔ اس حکم نامے کے باوجود ہوا کیا، خواتین کے ووٹنگ بوتھ بنے ہوئے تھے مگر خواتین کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا گیا ۔ ایک اور خاتون مصنف مسزجمشیدخاکوانی نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر کچھ یوں لکھا تھا کہ ‘ اپنی خواتین کو برقعے کے پیچھےچھپاکررکھو اُنہیں ووٹ کا حق بھی نہ دو لیکن جب کراچی میں جلسہ کرو تو سندھیوں، مہاجروں، بلوچوں اورکشمیریوں کی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دو، اپنے کارکنوں کو خواتین کو جلسوں میں لانے کی ترغیب دو! یہ کہاں کا اسلام ہے؟کیا اسلام خیبر پختونخوا اور کراچی میں الگ الگ ہوتا ہے؟ واہ رے منافقت تیرا ہی آسرا’۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پی کے 93 کےضمنی انتخابات میں بظاہر شکست تو جماعت اسلامی کو ہوئی ہے اور جیت پیپلز پارٹی کی، لیکن اگر آپ سنجیدگی سے اس کا تجزیہ کریں تو خواتین کے ووٹ ڈالنے سے یہ شکست قدامت پسندوں اور دہشت گردوں کو ہوئی ہے۔ یہ شکست اُنہیں ہوئی ہے جو بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، یہ شکست اُن کی بھی ہے جو جرگوں میں بیٹھ کر خواتین کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اُنہیں ووٹ ڈالنے سے بھی روکتے ہیں۔ یہ شکست اُس سوچ کی بھی ہے جو معاشرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔پی کے 93 کےضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اگر آپ نے اس ملک کو ترقی دینی ہے تو قدامت پسندوں اور دہشت گردوں کو شکست دینا لازمی ہے۔ملک کی تمام خواتین اور بچیوں کو یکساں حقوق دینے ہوں گے، ملک کی خواتین کو بھی ملکی معاملات میں برابر کا حصہ دار بنانا ہوگا،تاکہ اُ س سوچ کو شکست دی جاسکے جو ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے۔