آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں اتفاق رائے اور پاکستان میں مناظرہ بازی کی پر انتشا ر فضاوں میں منایا جاتا ھے، جسمیں خواتین کے مسائل اور حقوق پر بات کی جاتی ہے،یہ سلسلہ ایک صدی سے چلتا آرہا ہے،مگر عورت آج تک کما حقة اپنے تمام حقوق اور مراعا ت حاصل نہیں کر سکی جسکی وہ حقدار تھی ،یہ فرق ترقی یافتہ ممالک میں بھی کسی حد تک آج بھی موجود ہے، یعنی تعلیم ترقی وکاروبار اور ملازمتوں میں اس کا تناسب اب بھی مردوں سے کم ہے لیکن اسکو بطورر صنف کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں؛انیسویں صدی میں جب مغربی دنیا میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا،شہر وں کی آبادی بڑھنے لگی، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، سر مایہ داروں کی آمدن میں اضافہ ہوا ،قدر زائد نے نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کا بھی استحصال شروع کر دیا،تو اس وقت آزادی حقوق نسواں کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا۔ جسمیں انکے بنیادی سیاسی و معاشی حقوق سر فہرست تھے۔ ١٩٠٨ کو امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی سر براہی میں پندرہ ہزار خواتین نے احتجاجی ریلی نکالی جسمیں اپنے بنیادی حقوق حق رائے دہی اور مردوں کے برابر تنخواہوں کا مطالبہ کیا گیا،اسی دورانیہ میں امریکہ میں ایک سو چالیس کام کرنے والی خواتین فیکٹری میں ناقص انتظامات ہونے کیوجہ سے جل کر خاکسٹر ہو گئی تھیں۔
عورتوں کی یہ تحریکیں صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں بلکہ انکا دائرہ کار دنیا بھر تک پھیل گیا،لندن میں احتجاج کی تیاریوں کے سلسلہ میں اس تحریک کی روح رواں رہنما سلون کو چئرنگ کراس پر گرفتار کر دیا گیا تاکہ قریب ٹریفالگر اسکوائر میں یہ جلسہ نہ کر سکیں۔ اسے عورتوں کی معاشرے میں کمتر حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انکو اپنی آواز بلند کرنے کا حق برطانیہ میں بھی نییں تھا باقی دنیا کے ممالک میں بھی حالت ایسے ہی تھی،برطانیہ میں جب پہلی بار ١٩٠١٩ کو خاتون ممبر پارلیمنٹ کا انتخاب ھوا تو اسکا تعلق بھی ورکنگ کلاس سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک جاگیر دارخاتون تھی،مگر خواتین کے حقوق کے حصول کے لئے چلنے والی تحریکوں میں روس کے سوشلسٹ انقلاب نے اہم کردار ادا کیا،سوشلسٹ انقلاب میں عورت اور مرد کو ایک کھاتے میں ڈالا گیا ،سرمایہ دارانہ نظام کیوجہ سے ورکنگ کلاس کو استحصال زدہ قرار دیا گیا جسمیں عورت مظلوم بطور ایک صنف نہیں تھی بلکہ بطور ایک طبقہ تھی،سوشلسٹ انقلاب نے خواتین کے بنیادی حقوق بطور ایک طبقہ شروع سے ہی حاصل کر لئے تھے اب وہاں خواتین بہتر زندگی گذارنے کے لئے بطور ایک طبقہ مردوں کیساتھ جدوجہد کر رہی تھیں، اس عرصہ میں عورتوں نے سوشلسٹ تحریکوں کے زیر اثر دنیا بھر میں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی اور انکو ان میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہویئں۔جبکہ سرمایہ دار مغربی ممالک میں خواتین کے احتجاج کرنے کا انداز قدرے مختلف تھا،یہ بطور طبقہ احتجاج نہیں کرتی تھیں بلکہ بطور ایک صنف کے حق رائے دہی برابر تنخواہ،یکساں معاشی مواقع کے حصول کے لئے جدو جہد کرتی تھیںجبکہ مزدور کلاس کا بطور طبقہ ہر جگہ استحصال ہو ا اور ہنوز جاری ہے مگر خواتین کا نہ صرف بطور طبقہ بلکہ بطور صنف استحصال مختلف شکلوں میں ہوا اور یہ سلسلہ کم وبیش دنیا بھر میں جاری ہے۔
مغربی ممالک میں خواتین اپنے حقوق لینے میں کامیاب ہوئیں مگر انکی صنفی کمزوری کا فائدہ ابھی تک مرد اٹھا رہے ہیں۔اب انکو حق رائے دہی بھی مل چکا ہے،یکساں معاشی ترقی کے مواقع بھی مل چکے ہیں،آزادی رائے کا حق بھی مل چکا ہے،اپنی مرضی سے عائلی زندگی گزارنے کے لئے بھی راہ ہموار ہو چکی ہے،جنسی اور گھریلو تشدد سے بھی نجات مل چکی ہے۔سماجی سرگرمیوں اور کلچرل ایونٹ میں بھی اسکی شرکت یقینی ہو چکی ہے،جائیداد میں بھی برابر کی مالک ہے اور یہ حق ملکیت مسلمان معاشروں کی طرح صرف کتابوں میں درج نہیں ھے بلکہ عملی طور پر اسکو حاصل بھی ہے،سرمایہ دار معاشروں میں سیاسی اور سماجی ارتقا نے عورت کو بعض امور میںبرتری بھی دلائی ہے،جسکے بعض جگہوں پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔مساوی ترقی کے مواقعوں کی فراہمی نے اسکوایک بازاری جنس بھی بنا دیا ہے، جہاں جنسی تشدد و استحصال سے محفو ظ رہنے کے لئے قانون سازی اور ریگولیشن ھو چکی ہے ۔ اب جسم فروشی ایک اخلاقی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اسکو سیکس ورکر کا نام دیا گیا کہ یہ بھی ایک روزی کمانے کاذریعہ ہے اب جہاں یہ بطور جنس بھی متعارف ہوئی ہے گرچہ اسکا ایک طویل تاریخی تسلسل بھی ہے۔مگر بہ حیثیت مجموعی عورت روایتی قبائلی و جاگیردارانہ معاشرے کے جبر سے آزاد بھی ہوئی ہے اور اسکو بطور ایک صنف کے حقوق بھی حاصل ہوئے ہیں۔
جبکہ پسماندہ سماج میںیہ آج بھی ہر طرح کی سماجی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ تقدیس ثنا خوان مشرق عورت کی آزادی اور اسکے حقوق کی باز یابی کو بے حیائی اور بے غیرتی سے تعبیر کرتے ہیں جسمیں انکی اپنی انا اور ذاتی فائدہ و لالچ و برتری کا زعم نمایاں ہوتا ہے۔ ملا وصوفی کا دین ذاتی تسکین وائدہ تک محدود ہے ۔جاگیرداری وقبائلی روایات و پسمنظر رکھنے والے عورت کا جائیداد میں حصہ دینے کے لئے تیار نہیں اورچادر وچار دیواری کا پائمال ہونے کا رونا روتے ہیں،اسمیں کوئی شک نہیں کہ غیر ترقی یافتہ معاشروں میں عورت کا وجود خطرے کی زد میں ہے،معاشرہ کلی طور پرسائنسی ترقی کے نظم میں نہیں ڈھلا ہے،جہاں اسکی آزادانہ حمل و حرکت کو خطرات لا حق ہیں ،مگر چادر وچار دیواری کا قدیم روائتی تصور جدید ٹیکنالوجی کے ہاتھوں پاہمال ہو چکا ہے،اب لٹھ لیکر کوئی اسکے جذباتی ونفسانی اظہار پر پہرے نہیں بٹھا سکتا۔اب اگر اسکو احسن انداز سے آزادی نییں دی جا سکتی تو یہ ریت کی دیواریں ٹیکنالوجی کے سیلاب کے آگے خود بخود ڈھیر ہو جایئں گیاسلام نے بھی عورت کو پہلی بار تاریخ عالم میں برابر کے حقوق دیے،مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ حقوق عورت کو حاصل ہیں۔
مجھے تو کہیں نظر نہیں آتا کہ خواتین کووہ تماتر قانونی حقوق کی بازیابی ایک عادت کی طڑح حاصل ہے اسکے کچھ مظاہر شہروں میں نظر آتے ہیں مگر عورت قبائلی وخاندانی رسم ورواج کے اندر رہنے پر مجبور ہے اسکی بڑی وجہ قانون کا سقم نہیں،معاشرے میں وسیع طبقاتی تقسیم،بورژوازی کلچر، مذہبی انتہا پسندی ،فرسودہ نظام تعلیم ا ور معاشی ترقی کے مواقعوں کی عدم دستیابی ہے،ہمارے جاگیردارنہ نظام میں عورت کی تمامتر زندگی بھائیوں کی جایئداد اور انکی ناک کی بھینٹ چڑ جاتی ہے،جب تک جاگیر دارانہ نظام باقی ہے عورت تو کیا مرد بھی بدترین استحصال کا شکار رہیں گے۔یہاں صرف عورت کے حقوق اور آزادی کا مسلہ نہیں بلکہ مرد اور عورت کو ایک ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے،بطور ایک استحصال زدہ طبقہ ، استحصالی طبقے کے کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے،کیونکہ پاکستان میںجاگیردار سیاسی طبقہ کا ہر جگہ مکمل کنٹرول ہے۔سیاسی راہنما اپنے مفادات کے لئے کہیں لبرل اور کہیں ترقی پسندوں کی شکل میں اکھٹے ہوئے ہیں۔یہ صرف خواتین کا نہیں بلکہ عام ورکنگ کلاس کا بھی استحصال کرتے ہیں۔موڈریٹ مذہبی طبقہ کی فکر تصوراتی حقوق دینے تک محدود ہے،یا ماضی کا کوئی ایک واقعہ بیان کر دیتے ہیں۔
مسلمانوں نے ابھی تک عورت کو وہ حقوق نہیں دیئے جو اسلام چودہ سو سال پہلے دے چکا تھا، سعودی عرب میں بمشکل اب عورت کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی ہے اب ترقی یافتہ دور میں سورج سے آنکھیں ملاتے ہوئے انکی آنکھیں چندھیا ھنے لگی ہیں،جو عورت کے سماجی تفاعل اور سرگرمیوں کو تہذیب اور عائلی زندگی کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔قانون کی کتاب میں عورتوں کے حقوق متعین کرنے سے اسکو آزادی نہیں مل سکتی جب تک معاشی اور قانونی نظام میں وسیع انقلابی سطح پر اصلاحات نہیں کی جا سکتیں،معاشی ثمرات کے حصول کے بغیر عورت کی با اختیار وجودی آزادی کا تصور ناممکن ہے،اور یہ آزادی کا تصور ایک احساس زمہ داری کے دائرے کا بھی متقا ضی ہے،مشرقی تہذیبی اقدار اور سماجی ڈھانچہ کی تشکیل نو اسکے اندر رہ کر کرنا ہو گی،نہ کہ ہر معاملہ میں مغرب کی نقالی کیونکہ تصادم اور انتشارو ہاں پیدا ہو رہا ہے جہاں ہمارا نام نہاد لبرل طبقہ اپنی اقدار کو یکسر بھول جاتا ہے،مغرب میں عورت مکمل طور پر اپنے خاندان سے بغاوت کر کے رہ سکتی ہے اسکو سماجی تحفظ حاصل ہے جبکہ ہمارے ہاں سماجی تحفظ جاگیر دار،سرمایہ دار،قدامت پسند اور قبائلی طبقہ کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے،جہان اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں پہلے اپنی شہادت دینی پڑتی ہے۔اور صرف اس سسٹم میں عورتں استحصال کا شکار نہیں بلکہ مرد بھی برابر سطح پر متاثر ہو رہے ہیں۔
صنفی امتیاز بھی گرچہ قائم ہے مگر یہ جدوجہد بطور ایک طبقہ کی جانی چائیے نہ کہ بطور ایک صنف کے۔موجودہ حکومت بھی جاگیردار اور سرمایہ دار زاغوں کے نر غے میں ہے،مگر اسکی ترقی اور آگے بڑھنے کاامکان موجود ہے کیونکہ تحریک انصاف کا سیاسی فلسفہ اصلاحات کیساتھ رد تشکیل کی طرف گامزن ہے جسے فرسودہ ڈھانچہ ژکست وریخت کا شکار ہو رہا ہے،تحریک انصاف میں بھی خواتین کا ایک طبقہ منصحہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے،جسکے مظاہر ایک نمائشی جنس سے زیادہ کچھ نہیں مگر پھر بھی ان سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ متمول خواتین کا طبقہ شہروں سے زیادہ دیہی خواتین کی محرومیوں،غربت،گھریلو تشددبے روزگاری کا خاتمہ،جبری شادیاں،آبادی میں اضافے، جنسی امتیاز ،ہراساں کرنے کا رجحان، وراثت میں حق جائیداد سے محرومی جیسے مسائل کے لئے نہ صرف جدوجہد کریں گی بلکہ دیہی علاقوں میں اس موضوع پر خواتین کا ایک الگ پلیٹ فارم بھی بنائیں گی۔ اور انکے حقوق کی باز یابی کے لئے متحرک بھی ھوں گی۔،تبدیلی یکسر نہیں آتی اسکا عمل سست رو اور بتدریج ہوتا ہے۔پہلے اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں انکو تو یقینی بنایا جائے،مغربی عورت کی آزادی کے تصور اور جدوجہد کو مورد الزام ٹھرانا تو بعدکی بات ہے۔
مرد اور عورت کی جنسی اور فطری تفریق سرے سے ایشو نہیں ہے اور نہ ہی ایک کی دوسرے پر برتری کا سوال کیونکہ تمدنی ترقی میں دونوں کا یکساں کردار ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد بھی کی جاتی ہے کہ نہیں ،گھریلو تشدد کے واقعات سے میڈیا کا پیٹ بھی بھر دیا جاتا ہے۔جنسی تشدد پر قانون بھی حرکت میں آجاتا ہے۔جایئداد میں اسکا حصہ بھی متعین کیا جاتا ہے،قانونی طور پرصنفی امتیاز کا بل بھی منظور ہو جاتا ہے۔مذہبی طبقہ اسکو ایک مقدس تصوراتی صنف کے طور پر بھی متعارف کرا دیتا ہے،جو ایک ریت کے طور پر پہلے سے چلا آرہا ہے بلکہ یہ لوگ تو اسکی شناخت مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔تو کیا عورت کو اپنے تماتر حقوق حاصل ہو جائیں گے۔اسکے امکانات بہت کم ہیں۔معاشرے میں عورت ہو یا مرد اسکی صنفی اور طبقاتی تفریق و امتیاز کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشی سطح پر عدل اجتماعی قائم نہیں ہو جاتا،اور حکومت انقلابی سطح پر کم از کم ٹیکس کے نظام کو موثر بنا کر متاثرہ محروم طبقات تک معاشی شمرات نہیں پہنچاتی۔کیونکہ معاشی آزادی کے بغیر ارادے شعوراور وجود کی آزادی کا احساس نہیں پیدا ہوتا اور کسی بھی ،معاشرے میں یہ آزادی اسوقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وسیع طبقاتی خلیج کا خاتمہ نییں ہو جاتا۔