تحریر: پروفیسر رفعت مظہر آج حلقہ 122 لاہور کے ضمنی الیکشن میں جہاں ایک طرف شیر دہاڑ رہاہے تودوسری طرف بَلّا رَنز اُگل رہاہے۔ ابھی پولنگ جاری ہے لیکن بے صبرے لاہوریے نتیجے کے لیے بے چین۔ ہمیں چونکہ پیشین گوئیاںکرنے کاشوق ہی بہت ہے اِس لیے بتائے دیتے ہیںکہ ایازصادق نے میدان مارلینا ہے لیکن اگر جیت ایازصادق کے حصّے میںنہ آئی توپھر عبدالعلیم خاں کی سیٹ پکّی البتہ پیپلزپارٹی کے بیرسٹر عامرحسن کاکوئی چانس نہیں کیونکہ ہمیں تو ابھی تک اُن کانام بھی ”مُنہ زبانی”یادنہیںہوا۔ ویسے سیانے کہتے ہیںکہ کبھی کبھی ریس میںلنگڑاگھوڑا بھی ”اَپ سیٹ” کرجاتاہے اِس لیے اگربیرسٹر جیت گیاتو پھرنہ کہناہمیں خبرنہ ہوئی۔ ہماری اِس پیشین گوئی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اگلے کالم میںاپنی گردن میںسَریا بلکہ ”گاڈر” ڈال کرکہنا ہے ”دیکھا ! ہم نے توپہلے ہی کہہ دیاتھاکہ ”اُس” نے ہی جیتناہے حالانکہ ہمارے پاس کوئی چڑیاہے نہ کوّا، کوئی طوطاہے نہ مینا، ہمیںتو بَس اپنے تجزیوںپر اعتماد ہے جوہمیشہ سَو فیصد سچ ثابت ہوتے ہیں”۔ اگریقین نہ آئے تو نتیجے کے بعدہمارا کالم دوبارہ پڑھ لیں،ہاتھ کنگن کوآرسی کیا۔
ہمارے افلاطونی تجزیے میںایازصادق کی جیت اِس لیے یقینی ہے کہ وہ شریف النفس آدمی ہے۔اُس کی مونچھوں پر مت جائیے ،وہ تو محض اپنی سرداری کا ”رُعب شعب” ڈالنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں ، اندرسے تووہ ”پکّے مولوی” ہیں ۔ویسے بھی وہ اسی حلقے سے تین بارجیت چکے۔ 2002ء کے الیکشن میں جب میاں برادران جَلاوطن تھے، ہمارے کپتان صاحب کو پرویزمشرف کی مکمل اشیرباد حاصل تھی ،تب بھی ایازصادق نے اپنے پرانے ”بیلی” کوتقریباََ دوگنے ووٹوں کے فرق سے شکست دی، 2008ء کے الیکشن میں اسی حلقے سے پیپلزپارٹی کے عمرمصباح الرحمٰن کو 55 ہزار ووٹوںکے فرق سے شکست سے دوچارکیا اور 2013ء کے الیکشن میںتقریباََ 9 ہزار ووٹوںکے مارجن سے ایک دفعہ پھر کپتان صاحب کی اِسی حلقے سے دَوڑیںلگوا دیںلیکن کپتان صاحب کاچونکہ ذاتی گھربھی اسی حلقے میںہے اِس لیے محمودغزنوی کی طرح باربار حملہ آورہوتے رہتے ہیں۔ شاید اُنہیں شرم آتی ہوگی کہ لوگ کہیں گے ”اپنے گھرسے بھی ہارگیا”۔اب کی بارکپتان صاحب اپنی طاقتاورعلیم خاں کی دولت کا سہارا لے کر میدان میں اُترے ہیں۔
ہماراارسطوانہ تجزیہ کہتاہے کہ عبدالعلیم خاںبھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی صوبائی اسمبلی کے اسی حلقے سے جماعت اسلامی کے امیرالعظیم کو شکست دے چکے (وہ شکست کیسے دی ؟ یہ ایک الگ کہانی ہے جوپھر کبھی) ۔مزیدیہ کہ عبدالعلیم ہمارے کپتان صاحب کوبہت مرغوب اوراُن کے محبوب ہیںکیونکہ وہ ”کھُلاڈُلا” کھاتے اورکھلاتے ہیں(یہ الگ بات کہ جسٹس وجیہ الدین کمیشن نے اُن کی تحریکِ انصاف کی رکنیت ہمیشہ کے لیے ختم کررکھی ہے)۔ دروغ بَرگردنِ راوی عبدالعلیم خاں نے 5 کروڑروپے تو بینرز ،فلیکس اور ہورڈنگز پرہی لگادیئے ۔بھائی عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں اُن کی ”شاہ خرچی” کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ”حلقہ NA-122 کے جملہ مومنین کونوید پہنچے کہ اب اُنہیں صبح کے ناشتے ،دوپہر کے کھانے ،شام کی چائے اوررات کے کھانے کی فکرکرنے کی ضرورت نہیں ۔
Abdul Aleem
اللہ مسبب الاسباب ہے اوراُس نے آنے والے تین دنوں یعنی 11 اکتوبر کی شام تک پی ٹی آئی کے اُمیدوار علیم خاں کویہ توفیق عطاء فرمائی ہے کہ وہ اِس حلقے کے جملہ مومنین کی کفالت فرمائیں میں نے گڑھی شاہو کے علاقے میںی ہ انتظام وانصرام دیکھاہے ،باقاعدہ ویٹرزیہ خدمات سَرانجام دے رہے ہیں”۔ عطاء بھائی نے اِس ”دعوتِ شیراز” کاجِس اندازمیں ذکرکیا ہے اُسے پڑھ کرتو یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے علیم خاںنے حاتم طائی کی قبرپر بھی لات مار دی ہواِس لیے علیم خاںکی جیت توبنتی ہے دوستو ! لیکن عطاء بھائی نے ساراکریڈٹ عمران خاںکی جھولی میںڈالتے ہوئے لکھ دیا ”جملہ خواتین وحضرات ! عمران خاںکی درازیٔ عمرکی دعاکرتے رہیںکہ ملک بھرمیں انشاء اللہ ہرویک اینڈپر کہیںنہ کہیںالیکشن ہوتے ہی رہیںگے اورعوام کے کام ودہن کی تواضع کابندوبست ہوتاہی رہے گا”۔ ویسے عطاء بھائی سے پوچھاجاسکتا ہے کہ وہ گڑھی شاہو میںعلیم خاںکی دعوتِ شیرازمیں کرنے کیاگئے تھے؟۔میاں برادران ہوشیارباش کہ ”مُنڈابِگڑا جائے”۔
حلقہ 122 کادرجہ حرارت اپنے عروج پرپہنچ چکا، الزامات کی بوچھاڑ دونوںطرف۔ میاںبرادران الیکشن کمیشن کی پابندی کی بناپر اِس حلقے میںکسی جلسے سے خطاب تونہیں کرسکے لیکن ”چورچوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے” کے مصداق میاںنواز شریف صاحب نے 9 اکتوبرکو بھکھی پاورپلانٹ کاافتتاح کرتے ہوئے فرمایا”کنٹینرپر چڑھ کربِل جلانے سے بجلی نہیںآتی۔ عمران خاںصاحب! آپ کی گالیوںپر دعادیتا ہوںکہ اللہ آپ کوہدایت دے۔ کھیل کودوالے سیاستدان گالیوںکی سیاست چھوڑدیں ،ملکی ترقی کنٹینرپر چڑھنے والوں کے بَس کی بات نہیں”۔ 9 اکتوبرکو ہی نوازلیگ نے ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد اور تحریکِ انصاف نے قرطبہ چوک مزنگ چونگی پر”محافلِ سیاست”کااہتمام کیا۔کپتان صاحب نے جتنے الزامات اُنہیں”مُنہ زبانی” یاد تھے میاںنوازشریف کی ذات پردھر دیئے لیکن ساتھ ہی حفظِ ماتقدم کے طورپر یہ بھی کہہ دیاکہ دھاندلی کی توحکومت کاچلنا مشکل کردیں گے۔
Hamza-Shahbaz
گویاعلیم خاں جیت گیا تو ٹھیک بصورتِ دیگرد مادم مست قلندر ۔ڈونگی گراؤنڈ کے جلسے میں حمزہ شہبازبھی خوب گرجے برسے لیکن اخلاقی حدیںتوڑ کرباہر نہیںنکلے۔ ہمارے ”ٹھنڈے ٹھار” وزیرِقانون واطلاعات پرویزرشید نے بھی غصّے سے کھولتے ہوئے عمران خاںکو چور ،پاکستان کادشمن ،یہودی وہندولابی کا ایجنٹ اورغدار قراردیتے ہوئے کہا”تحریکِ انصاف نے یہودی اورہندولابی کی طرف سے فراہم کیے گئے لاکھوںڈالر پاکستان میںجمہوریت کاتختہ الٹنے ،وزیرِاعظم ہاؤس ،پارلیمنٹ اورسرکاری ٹی وی پرحملے اور 2013ء کے عوامی مینڈیٹ کوچرانے کے لیے استعمال کیے۔ اگروہ جھوٹااور چورنہیں تووہ اُن امریکی دستاویزات کوغلط ثابت کرے جن پر اُس کے دستخط موجودہیں۔
اگر عمران خاںپاکستان مخالف قوتوںکا آلہ کار نہیںتو صبح مجھے عدالت میںلے کرجائے”۔ اُنہوںنے یہ بھی کہا ”الیکشن کمیشن عمران خاںسے ملّی بھگت کرکے 13 ماہ سے معاملے کوعوام سے چھپانے کا انتظام کرتارہا۔ الیکشن کمیشن انتخابی مہم پر جانے پرہمیں تونوٹس دینے میںتاخیر نہیںکرتا مگر عمران خاں یہودیوں اور ہندوؤں کی غیر ملکی فرموں سے فنڈزلے کرگھیراؤ جلاؤ کی سیاست میں مصروف رہا” ۔پرویز رشید صاحب خوب جانتے ہیںکہ یہ آرٹیکل چھ کاکیس ہے جو صرف مرکزی حکومت ہی دائرکر سکتی ہے اِس لیے یہ اُن کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کوچیلنج کرنے کی بجائے خودیہ کیس سپریم کورٹ میںلے کرجائیں تاکہ دودھ کادودھ ارپانی کاپانی ہوسکے۔