لفظ ”سلیکٹڈ” پر پابندی، کیا چور ڈاکو پر بھی۔۔۔۔۔۔؟

Parliament

Parliament

تحریر : اے آر طارق

پارلیمنٹ میں جب سے جنابِ اسپیکر نے وزیر اعظم کے لیے لفظ ”سلیکٹڈ”پر پابندی لگائی ہے،تب سے اِس لفظ کے پارلیمنٹ میں چرچے کچھ زیادہ ہی ہیں،ہر کوئی کسی نہ کسی بہانے سے لفظ سلیکٹڈ کا استعمال کر رہا، کوئی بات ہو، کوئی ذکر ہو،کوئی تقریر ہو،پابندی کے باوجود لفظ سلیکٹڈ کو خوبصورت پیرائے میں الفاظ کے گورکھ دھندوں میں چھپائے ،بڑے دھڑلے سے استعمال کیا جارہاہے،اب تویہ تمام صورتحال کو دیکھ کر یوں لگتا کہ جیسے لفظ سلیکٹڈ اپوزیشن نے حکومتی چڑ بنارکھی اور یہ کہ حکومت کو اِس لفظ سلیکٹڈ سے کراہت محسوس ہوتی۔

جنابِ اسپیکر اپنی طرف سے کہہ چکے کہ” لفظ سلیکٹڈ استعمال نہ کیا جائے ،ہر ایک معزز رکنِ ِپارلیمنٹ ہے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آیا ہے،لہذا آئندہ ایسا کوئی نہ بولے”۔مگر وہ اپوزیشن ہی کیا ہوئی ،جو مان جائے یا ہار جائے۔حکومتی افراد کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مختلف تاویلات تلاش کرکے دانستہ طور پر لفظ سلیکٹڈ پر اپنی بات ختم کرتے۔اب تو یہ لفظ ”سلیکٹڈ ”شوشل میڈیا پر بھی ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا،ہر جانب اِس کا ہی چرچا۔حکومت و اِس کے افراد چاہتے کہ وزیر اعظم کے لیے لفظ سلیکٹڈ استعمال نہ کیا جائے،اسپیکر کی جانب سے اِس لفظ پر پابندی کی کی وجہ یہی بات تھی،جو اُنھوں نے لفظ سلیکٹڈ پر پابندی کا بُول دیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ ایک اِس لفظ کو لے کر پارلیمنٹ میں طوفانِ بد تمیزی برپا ہے،ہر اپوزیشن کے فرد کی تان بالآخر لفظ سلیکٹڈ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے،چاہے بات کوئی بھی ہو،ایشوز جو بھی ہو،لفظ سلیکٹڈ پر پابندی کے باوجود اِس لفظ کی بازگشت کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوگئی ہے۔کیا اِس لفظ سلیکٹڈ پر حقیقی پابندی لگے گی؟اور یہ کہ لفظ ”سلیکٹڈ”پر پابندی ہے تو کیا لفظ” چور ڈاکو” پر بھی کوئی مثبت ایکشن لیا جائے گا؟۔

یہ سوال غور طلب ہے۔اِس لیے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اُس کے وزیر اعظم کے لیے لفظ سلیکٹڈ استعمال نہ کیا جائے تو اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ اُن کی جماعت کے لیڈران کے لیے چور ڈاکو کا لفظ نہ بولا جائے۔کیالفظ سلیکٹڈ پر پابندی کے بعد کیا لفظ چور ڈاکو پر بھی پابندی لگے گی کیا؟۔لفظ سلیکٹڈ اگر حکومت کو چڑانے کے لیے ہے تو لفظ چور ڈاکو اپوزیشن کے لیے شرمندگی اور طعنے کی حیثیت رکھتا ہے۔

تلخ حقیقتیں اور سچی باتیں ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں،اِن پر پردہ پڑا رہے،اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہر شخص یہی چاہتا ہے۔یقینا سخت باتیں اور تلخ حقیقتیں ناقابلِ برداشت اور سہی نہیں جاتیں ۔اِسے ایک بدقسمتی کہیے یا المیہ کہ تلخ حقیقتوںاور سچی باتوں سے ہم آنکھیں چراتے ہیںاور اِس پر پردہ چاہتے۔اگر حکومت چاہتی کہ اُس کے ”ایماندار”وزیر اعظم کو لفظ سلیکٹڈ سے بچایا جائے تو حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی اپوزیشن کے ”کرپٹ”لیڈران کو چور ڈاکو کہنے سے اجتناب کریں،جوکہ اگر ایمانداروں کا حق ہے تو چوروں ڈاکوئوں کا بھی استحقاق ٹھہرا۔

وگرنہ یہ سلیکٹڈ اور چور ڈاکو کہنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا،پارلیمنٹ میں اِس کی گونج گاہے بگاہے سنائی دیتی رہے گی،شیر آیا کی صدا کے ساتھ چور آیا کی آوازیں معزز پارلیمنٹ میں مہذب ارکانِ پارلیمنٹ کے منہ سے نکلتی رہے گی اورہماری غموں سے نڈھال، بجٹ کی وجہ سے شدید بیمار،ہوشرباء مہنگائی سے بُری طرح پسی ہوئی بیچاری عوام کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ معزز پارلیمنٹ کے مہذب ارکان ،جنہیں نہ تو مُلک کی عزت کا خیا ل ہے اور نہ ہی اپنے وقار کی کوئی پرواہ،ہر بھلائی اور خیر سے بے بہرہ ہوئے ،نجانے کس سمت ،کون سی منزل،ہر شے سے ہوئے بے پرواہ، شیدائی بنے بس چلے جا رہے ہیں،اِن کا اور اِس دیس میں بسنے والے باسیوں کامستقبل کیا،کچھ پتا نہیں۔#

A R Tariq

A R Tariq

تحریر : اے آر طارق
artariq2018@gmail.com
03074450515