”افضل گورو شہید نہیں ہوا مجھے تو ایسا لگا جیسے میرا پانچواں بیٹا شہید ہوا ہے لیکن آزادی تو قربانیاں مانگتی ہے۔ افضل کی شہادت نے ہماری تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے”۔ یہ الفاظ ایک ایسی ماں کے ہیں جس کی عمر 78 سال ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے قصبہ ترہگام کی رہنے والی اس ماں کا نام شاہ مالی بیگم ہے جنہیں شاہ بیگم بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت کیخلاف سینہ سپر اس ماں ایک بیٹا مقبول بٹ تھا جسے 11 فروری 1984ء کو بھارت نے اپنی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ تحریک آزادی کا آغاز اسی پھانسی سے ہوا… اسی لئے تو بھارت مقبول بٹ کے جسد خاکی سے بھی اس قدر خوفزدہ ہے۔
وہ اسے بھی اس کے وارثوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں اور مقبول بٹ کا جسد خاکی دفن کرنے کے بعد بھی اس پر تہہ در تہہ پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ شاہ بیگم کا ایک بیٹا شہید ہوا تو انہوں نے ساری اولاد کو اسی راہ میں لٹانے کا ارادہ کر لیا۔ یوں ان کے دوسرے بیٹے حبیب اللہ بٹ کو بھارتی افواج اٹھا کر لے گئیں کہ اس کا تعلق مجاہدین سے ہے اور بھائی مقبول بٹ سے ملنے جانے والا حبیب اللہ بٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ”لاپتہ” ہو گیا۔ ان کا تیسرا بیٹا غلام نبی بٹ اور چوتھا بیٹا منظور احمد بٹ سرینگر اور ترہگام میں بھارتی افواج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ پانچواں بیٹا ظہور بٹ بھی ”جرم جہاد” میں جیل کاٹ چکا ہے۔
شاہ بیگم عمر کے اس حصے میں بھی جب بھارت کو للکارتی ہیں تو نئی دہلی کے ایوان لرز اٹھتے ہیں۔ کشمیری قوم انہیں مادر ملت اور مادر تحریک آزادی کہہ کر پکارتی ہے کیونکہ وہ آج بھی تحریک آزادی میں پیش پیش ہیں۔ گزشتہ سال 2013ء کے ماہ جنوری کا وہ منظر تو سب کے سامنے ہے کہ جب شاہ بیگم شہداء کے خون کی آواز دنیا بھر تک پہنچانے کے لئے جیل بھرو تحریک میں سرینگر پہنچی تھیں تو انہیں بھارتی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر کے جیل منتقل کیا تھا۔
جی ہاں! یہ ہے وہ کشمیری قوم کہ جسے شکست دینے کے لئے بھارت اپنے تمام تر لائو لشکر اور اپنے سارے شیطانی دوست اور حربے لے کر میدان میں 27 سال سے اترا ہوا ہے لیکن رسوائی اور شکست ہی اس کا مقدر ہے اور کیوں نہ ہوں یہاں ایک ایسی ماں شاہ بیگم ہی نہیں ہیں یہاں تو ایسی بے شمار مائیں ہیں۔ انہی مائوں میں سے ایک سرینگر کی سعیدہ بیگم بھی ہیں۔
40 سال پہلے کی بات ہے۔ سعیدہ بیگم کے شوہر ایک ٹریفک حادثے میں چل بسے۔ سعیدہ بیگم کو سسرال چھوڑنا پڑا تو وہ اپنے ننھے بچے لے کر میکے آ گئیں جہاں انہیں رہنے کے لئے ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی ملی۔ سعیدہ بیگم نے اس کوٹھڑی میں رہ کر اور لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے چار بیٹے پال پوس کر جوان کئے۔ بیٹے کمانے کے قابل ہوئے تو مقبوضہ کشمیر کی مسلح تحریک آزادی تیز تر ہو گئی۔ سعیدہ بیگم نے ایک ایک کر کے تین بیٹے نذیر احمد، طارق احمد اور مشتاق احمد راہ جہاد میں روانہ کر دیئے جو باری باری شہید ہو گئے۔ چوتھا بیٹا نثار احمد بھارتی مظالم کے نتیجے میں پہلے ذہنی مریض بنا اور پھر بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار اور پھر ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو گیا تو سعیدہ ہمیشہ کے لئے تنہا ہو گئیں۔
سعیدہ نے 25 سال کا عرصہ لالٹین کی روشنی میں گزارا تو ان کی بینائی بھی ختم ہو گئی اور آج سعیدہ بیگم نے اپنے سہارے اور کشمیر کی تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے رشتہ داروں سے ایک 7 سالہ بچہ گود لیا ہے اور وہ اسے جیسے تیسے پال رہی ہیں اور آخری سانس تک اس کی حفاظت کا عہد کر رہی ہیں تو بھارتی قبضے کے خاتمے کے لئے دعا بھی کر رہی ہیں۔
کشمیر یوںکے ان جذبوں کی یہ کہانیاں یہیں تک نہیں ۔ گزشتہ ہفتے ہی کی تو بات ہے،لشکر طیبہ کے ڈویژنل کمانڈر بلال للہاری جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کا جسد خاکی ان کے گھر پہنچا تو کہیں آنسو نہ تھے۔ معصوم بہن اپنے بھائی کے مسکراتے لاشے کے پاس مطمئن بیٹھی تھی۔ ایسی کتنی لاشیں روزانہ کشمیر میں آج بھی اٹھ رہی ہیں۔ روزانہ معرکے پہ معرکے لڑے جا رہے ہیں لیکن سبھی شہداء کے لواحقین مطمئن… سبھی پرسکون… بھارت کی مسلح افواج اپنی تمام تر توانائیاں انہی جذبوں کو کچلنے، مسلنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں لیکن کچھ بن نہیں پا رہا۔
Kashmiri People
اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والوں کی جانوں کی قربانیاں بھارت کو پہلے سے زیادہ دہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ کشمیری قوم بھی کیسی قوم ہے کہ جس کے قائدین جیلوں میں پڑے ہیں۔ ساری قوم پر مقدمات بنے پڑے ہیں، کوئی گھر ایسا نہیں جہاں سے کوئی لاشہ نہ اٹھا ہو… جہاں کوئی زخمی یا اپاہج یا جہاں کا کوئی فرد لاپتہ نہ ہو… بھارت نے انہیں چار اطراف سے گھیر رکھا ہے لیکن شاہ بیگم اور سعیدہ بیگم کے سامنے بے بس ہے… یہ مائیں اپنے جذبے کہاں سے لاتی ہیں…؟ جب اس کی کھوج کی تو سلسلہ صحابیات سے جڑا پایا اور میدان قادسیہ میں چار بیٹے لٹانے والی ماں ،حضرت خنسائ نظر آئیں۔ کون خنسائ؟جن کے والد اور بھائی ایک جنگ میں قتل ہو گئے تو وہ ان کے غم میں دن رات شعر کہتے کہتے شاعری میں کمال درجہ پا گئیں۔ سیدہ خنسائ اپنے بیٹوں کے ساتھ جناب رسول اللہۖ سے ملنے آئیں اور ان سب لوگوں نے بارگاہ رسالت میں اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
ان کی زندگی میں ہی دور فاروقی آتا ہے ۔ زمانے کی سپرپاور ایران کے خلاف سب سے بڑا میدان قادسیہ سجتا ہے۔ سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ نہایت کڑا امتحان تھا، ان کی اس امتحان میں کامیابی کی کوئی نظیر نہیں۔جب سیدہ خنسائ اور ان کے چاروں بیٹوں نے قادسیہ کی طرف جہاد میں نکلنے کا اعلان سنا تو یہ چاروں شیر نوجوان اپنے کچھارسے نکل آئے اور جنگی ہتھیار پہن لئے پھر اپنی شیرنی بڑھی ماں کے سامنے جا کھڑے ہوئے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے راہِ خدا میں قربان ہونے کیلئے رخصت کرے۔ ماں کی آنکھیں بھر آئیں تووہ کہہ رہی تھی ”ان شاء اللہ ،جب صبح ہو گی تو صحیح سلامت تم جہاد کی طرف جاؤ گے اور نہایت بصیرت اور سمجھداری کے ساتھ اپنے دشمن سے مقابلہ کرو گے۔ جب تم دیکھو کہ لڑائی شروع ہو گئی ہے اور لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔
تو تم بھی لڑائی کی آگ میں بے دھڑک کود جاؤ اور بڑے بڑے جنگجوؤں اور سرداروں سے مقابلہ کرو اور تلوار کے جوہر دکھاؤ” پھر تاریخ نے دیکھا کہ مسلمان بہادر مجاہدین فتح یاب ہو کر قادسیہ سے واپس لوٹتے ہیں لیکن سیدہ خنسائ کے چاروں شیر جوان ان میں شامل نہیں ہیں۔ ان کی ماں معرکہ سے آنے والے مجاہدین کی طرف جا رہی ہے اور اپنے بیٹوں کے بارے معلوم کرنا چاہتی ہیں۔ ایک شخص جوان کی کیفیت جانتا تھا۔ سیدہ خنسائ اب انہوں نے دین اسلام کا دامن اپنی خوشی سے تھاما تھا وہ کسی صورت ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتی تھیں وہ اپنے مومن ہونٹو کے ساتھ سچائی سے فرما رہی تھیںخنسائ کے قریب آیا اور کہنے لگا بڑی اماں! تمہارے بیٹے شہید ہو گئے ہیں۔
وہ میدان جنگ میں آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ واپس بھاگتے ہوئے مارے نہیں گئے ہیں، وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔اس موقعہ پر سیدہ خنسائ نے فرمایا”اس اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے ان تمام کی شہادت کا شرف بخش مجھے امید ہے کہ میرا پروردگار اپنی رحمت کے ساتھ جنت الفردوس میں مجھے ان کے ساتھ اکٹھا کرے گا۔
جی ہاں! خنساء کی اسی روایت کو زندہ کرنے والی کشمیری مائیں آج بھی میدانوں میں اسی طرح ڈٹی ہوئی ہیں اور تاریخ دیکھ رہی ہے کہ بھارت پر غزوہ ہند کا خوف سب سے زیادہ سوار ہے اور وہ اس کے لئے اپنے شل اعصاب کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے لیکن میدان قادسیہ کی فاتح سیدہ خنسائ کی طرح ان شاء اللہ اس باربھی فاتح شاہ بیگم اور سعیدہ بیگم ہی ہیں۔ دیر ضرورہے لیکن اندھیر نہیں۔