تحریر : شیخ خالد ذاہد ایک زمانہ تھا جب ہر شے خالص ہوا کرتی تھی۔ سوچ بھی خالص اور جذبے بھی سچے، خالص سوچ اور جذبے کا مرکب تحریر پڑھنے والے کے اندر تک اتر جاتی تھی اور ہلچل مچا دیتی تھی۔ مگر اب حالات و واقعات بدل چکے ہیں، الفظ چاہئیں چاہے جذبات سے عاری ہی کیوں نا ہوں۔ لفظوں کی گونج ہے شور ہے مگر کچھ سمجھ نہیں ہے۔
آج کل سب لفظوں سے متعلق ہے الفاظ ہماری آواز اور لہجے کی بدولت دوسروں کی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں اور اپنی اہمیت اور چناؤ کی بدولت ہمارے لئے فائدے مند یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اچھے الفاظ یا پھر برے الفاظ، ٹیلی میڈیا ہو یا سوشل میڈیا سب جگہ لفظوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ہم ان میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہم سب کے اندر قدرت نے چھاننے والا (فلٹر) نصب کیا ہوا ہے، جو ہمیں اچھے اور برے کی تمیز بتانے کا کام کرتا ہے، آگے ہماری مرضی کہ ہم اس فلٹر کو اہمیت دیں یا نا دیں۔ اس فلٹر کی کارگردگی استعمال ہوتے رہنے میں ہے، ورنہ یہ چوک ہوجاتا ہے یعنی کام کرنا بند کردیتا ہے۔
ہم لفظوں کی مدد سے اپنی باتیں دوسروں تک منتقل کرتے ہیں۔ یہ لفظ اور آواز مل کر بات کی تشکیل کرتے ہیں۔ الفاظ ہمارے ساتھ ساتھ سامنے والے کی بھی اہمیت ظاہر کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا آسان نہیں کہ کون کس نظرئیے اور پیرائے میں کون سی بات کر رہا ہے، کس بات کے پسِ پشت کیا راز پوشیدہ ہے یا بات کرنے والا کسی خاص نظرئیے کی ترجمانی کر رہا ہے۔ بولنے والا بولتا رہے اور سننے والے سنتے رہیں، ایسا کرنا وقت کو برباد کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
Social Media
ایک بہت مشہور کہاوت ہے “ہر بات کی گہرائی میں ایک بات ہوتی ہے اور وہی ساری بات ہوتی ہے”۔ اب گہرائی میں جانے کی فرصت تو ہر کسی کو میسر نہیں، دو وقت کی روٹی کی مشقت میں تھکان ہر وقت ہی گھیرے رکھتی ہے ، ایسی صورت میں گہرائی میں جانے کے تصور سے بھی خوف آتا ہے (کیونکہ تلاش نیند کی گہرائی کی ہوتی ہے)۔ ہم اپنی مرضی کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں اور اپنی مرضی شامل کر کے وہی آگے بڑھا دیتے ہیں، اب وہ بات اپنا حقیقی مضمون کھو چکی ہوتی ہے اور ایک نئی سوچ ایک نئی زہن سازی کی مہم اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ کسی بات کی گہرائی تک پہنچنا ہر ذہن کے بس کی بات نہیں۔ سننے والے کی اپنی سمجھ اور اپنی ذہنی صلاحیت ہے اور کہنے والے کی اپنی سوچ اور اپنی ذہنی اہلیت اور قابلیت ہے۔
لفظوں کی طاقت کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے، کیونکہ جب تک یہ ادا نہیں ہونگے آپ کو انکی اہمیت کا پتہ نہیں چل سکتا۔ بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ لفظ بہت طاقتور ہوتے ہیں لفظ زنجیر بن کر ہاتھ پیروں کی بیڑیاں بھی بن جاتے ہیں۔
بہت معذرت کیساتھ، کوئی مانے یا نا مانے ہم مفادات کے غلام ہوتے جارہے ہیں، جہاں ہمیں اپنا مفاد پورا ہوتا دیکھائی دیتا ہے ہمارا رجحان اور دھیان اس طرف متوجہ ہو ہی جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کے قلم میں قدرت نے ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ وہ کچھ بھی لکھیں پڑھنے والا پڑھتا ہے اور پڑھ کر سحر ذدہ ہوتا ہے۔ لکھنے والے معاشرے کی ذہن سازی کا کام سرانجام دیتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں (دورِ حاضر میں) ہم لوگ استعمال ہورہے ہیں، تعلیمی نظام کی بدولت، سیاسی نظام کی بدولت، نوکریوں کی بدولت، مذہب کی بدولت، میڈیا کی بدولت، خودکش بمباروں کی بدولت، غرض یہ کہ ہمیں بانٹ بانٹ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔
Writing
جس کا قد ذرا سا نمایاں ہوا اس قدآور شخص کی بولی لگ جاتی ہے اور وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ قدرت کی دی گئی نعمت کو کسی مخصوص مقصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ کبھی ایسا مفادات کی وجہ سے ہوتا ہے یا جذباتی ہمدردی ایسے محرکات کا سبب بنتی ہے۔ کسی بھی کام کو خوش اسلوبی سے نبھانے کیلئے جہاں آپکی علمی قابلیت بہت ضروری ہے وہیں آپ کے اندر موجود اس کام کو کرنے کا جذبہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ الفاظ ہی ہوا کرتے تھے جن کی بنیادوں پر تحریکیں چلتی تھیں، ان لفظوں ہی کی مدد سے انقلابی شاعری ہوتی تھی، بڑے بڑے مقرر ہوتے تھے۔ سوئی ہوئی مردہ قوموں میں ان الفاظوں کی مرہونِ منت روح پھونکی گئی اور ان قوموں نے تاریخ رقم کی۔ ایسی ہی ایک قوم تھی جس نے پاکستان تشکیل دیا ایک خواب کو حقیقت بنایا۔ اب الفاظ بکتے ہیں، بے روح، بے اثر، ایک شور ہر وقت ہماری سماع خراشی کئے رکھتا ہے۔
ایک لفظ سنائی نہیں دیتا۔ سب اپنے اپنے مفاد کی زبان بول رہے ہیں۔ ان لفظوں کی بولیاں لگ رہی ہیں جو جتنا بڑا لفظوں کا سوداگر ہے وہ اتنا مول لیتا ہے بس دکھ اس بات ہوتا ہے کہ جذبات اور احساسات سے عاری الفاظ مخصوص نظرئیے کی ترجمانی پر لگ جاتے ہیں۔ آج ساری دنیا میں لفظوں کی بولی لگ رہی ہے اور الفاظ بک رہے ہیں۔ اب سب کچھ ہی تو بکتا ہے الفاظ بک رہے ہیں تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔