تحریر: سید انور محمود سو لفظوں کی کہانی نمبر 41۔۔۔۔ روٹی ۔۔۔۔۔۔ دونوں کا انتقال ایک ہی دن ہوا وزیر کا انتقال لندن کے مہنگے اسپتال میں اور شرفو کا انتقال کراچی کے سول اسپتال میں سوئم تک رشتہ دار کھانا کھلاتے رہے اب شرفو کے گھر میں کھانے کےلیے کچھ نہیں تھا شرفو کی بیوی وزیر کی گھریلو ملازمہ ہے وزیر کی میت آئی اور تدفین ہوگئی وزیر کی بیوہ عدت گذار رہی تھی اس کا فون آیا کام بہت ہے کل جلدی آجانا جب وہ کام پر جارہی تھی تو رشتہ دار پوچھ رہے تھے وہ عدت کیوں نہیں کررہی کیا وجہ ہے؟ اس نے سب کی طرف دیکھا اور کہا ‘‘روٹی’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو لفظوں کی کہانی نمبر 42۔۔۔۔گندا انڈا ۔۔۔۔۔۔ میں غفور کو بتارہا تھا کہ انڈا بہت کام کی چیز ہے انڈا کھانے سے طاقت آتی ہے کھانے کی بہت ساری ڈشیں بنتی ہیں مگر جو گنداانڈا ہوتا ہے اس سے کچھ نہیں بنتا غفور بولا میری اماں گندے انڈے کا استمال جانتی ہیں کیا کرتی ہیں گندے انڈے کا تماری اماں؟ میری اماں گندے انڈےسے میری نظر اتارتی ہیں ان کو جمع کرتی ہیں اور گندی جگہ پر پھینک دیتی ہیں گندے انڈے پھرجمع ہورہے تھے لیکن آج ختم ہوگئے ہمارئے علاقے میں ماضی کے ضمیر فروش آئے تھے اماں نے گندے انڈے ان ضمیرفروشوں پر پھینک دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو لفظوں کی کہانی نمبر 43۔۔۔۔موچی دروازہ ۔۔۔۔۔۔ قادر بلوچ نے اپنے دوست گلو بٹ کو لاہورفون کیا اڑے گلو بٹ کیا حال ہے کل تو تمارےلیڈر نے سب کو اڑا دیا اڑے کیا عمران خان، کیا مشرف، کیا دوسرے سب کو دھوبی پاٹ مارا ڑے گلو بٹ: شکریہ کل تو ساڈا شیر گرج رہا تھا قادر بلوچ: گھر پر لائٹ نہیں تھی، تقریر سیل والے ریڈیوپر سنا کارکنوں کےنعرئے نہیں سنائی دیے کیوں؟ گلوبٹ: یار قادر بلوچ ، نواز شریف وزیر اعظم ہاوس سے قوم سے خطاب کررہے تھے قادر بلوچ: نہیں ڑے، قسم سے ہم تو سمجھا نواز شریف موچی دروازے سے تقریر کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو لفظوں کی کہانی نمبر 44۔۔۔۔سنگدل ۔۔۔۔۔۔ جیب میں صرف 10 روپے تھے پیچھے سے کسی نے میرئے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے جیب میں سے 10 روپے نکال کر اس کو دے دیے تھوڑی دیر بعد ایک فقیر اللہ کے نام پر مانگ رہا تھا وہ آگے بڑھا توایک اور بندہ آکر بولا ٹکٹ ابھی تو دیا تھا مجھے نہیں پہلے والےفقیر کو دیا تھا میرئے پاس اب پیسے نہیں ہیں کنڈکٹر بولا پھرنیچے اترو دوسرےفقیر نے کنڈکٹر کو دس روپے دیکر کہا یہ ان صاحب کا ٹکٹ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولا میں فقیر ضرور ہوں سنگدل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Edhi
سو لفظوں کی کہانی نمبر 45۔۔۔۔بھیک ۔۔۔۔۔۔ اس نے دو نامی گرامی بھکاریوں ڈار اور ایدھی کے نام بتائے ڈار ملک کے نام پر بھیک اور قرضہ مانگ کرلاتے ہیں ڈار کے قرضے اور بھیک کی وجہ سے ہر پاکستانی لاکھ روپے کا مقروض ہے ایدھی صرف اپنے ملک میں ہی بھیک مانگتے ہیں ایدھی کی مانگی ہوئی بھیک سے لاکھوں ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے بھکاری تو دونوں ہیں، ان میں خاص فرق کیا ہے؟ ڈار کی نگاہیں قرضہ یا بھیک مانگتے وقت جھکی ہوتی ہیں ایدھی کو بھیک دینے والے کی نگاہوں میں التجا ہوتی ہے کہ وہ انکی بھیک کو قبول کرلیں
تیرے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا ہم خوشی سے مر نہ جاتے،گر اعتبار ہوتا
جناب!اسحاق ڈار صاحب ایسی باتیں نہ کریں غریبوںکو تو پہلے ہی مہنگائی نے مار کھاہے اب آپ خوشی سے مارنا چاہتے ہیں آپ تو اچھے بھلے ہوا کرتے تھے کب سے عوام کے دشمن بن گئے؟۔۔۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ کنکشن کی سیکورٹی فیس35000مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25-20پہلے کنکشن لگوانے والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔ جب بھی بجٹ آتا ہے ۔
ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے اس کی آڑ مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے قیمتوں میں کمی ہوجائے تو اعلان ہونے کی دیرہے پٹرول پمپ بند ہوجاتے ہیں اور گراں فروش من مانی قیمت پر پٹرول خریدتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ چلو مل تورہاہے نا اگر بالفرض پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کی اخبارمیں خبر ہی آتی ہے پٹرول پمپ پھر بند اور عوام کی لمبی لمبی قطاریں مہنگائی کو پر لگ جاتے ہیں اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ ۔
روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے۔
Budget
حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔ ایسا بجٹ آئیگا جس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو ورنہ عوام میاں نوازشریف سے یہ کہنے میں حق بجانب ہوںگے ۔
بیزار یوں ہوئے کہ تیرے عہد میں ہمیں سب کچھ ملا،سکون کی دولت نہیں ملی
حکمرانوں کو ہمارا مشورہ نہیں بلکہ التجا سمجھ لیں جناب ایسا بجٹ پیش کرنے کی منصوبہ بندی کریں پورا سال کوئی منی بجٹ نہ آئے اسے ہم بجٹ مانیں گے ورنہ اب خالی وعدوں اور بلند بانگ دعوئوں پر کوئی یقین نہیں کرتا۔