تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی لفظوں اور جملوں کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے، لہجوں کا دارومدار بھی ان ہی لفظوں کی مرہون منت ہوتا ہے جو زبان سے ادا کیے جاتے ہیں، لفظوں کا زہر اتنا سخت نہیں ہوتا جتنے لہجے زہر ہوتے ہیں اور لہجے ہی لفظوں کو اپنے زہر میں گھولتے ہیں، بقول شاعر لہجے کی تاثیر کا یارو کیا کہنا لفظوں کی بدمست روانی مت پوچھو سارا کلیجہ کٹ جائیگا یار نبیل عہد جنوں کی بات پرانی مت پوچھو
یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جن سے انسانی عمارت کے کردار کا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے،لفظ اگر موتی ہوں اور لہجے راکھ تو موتی بھی بے وقعت،بے قیمت ہو کر رہ جاتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ لفظوں کی تاثیر ختم ہونے لگے تو انہیں زبان کی بجائے دل سے کہو اور درد میں ڈبو کے لکھو…کیونکہ دل سے نکلی اور درد میں بھیگی بات سیدھی دل پہ لگتی ہے اور ہمیشہ اثر کرتی ہے ،آج کل لفظوں کے جملے بطور کاروبار استعمال ہونے لگے ہیں، کہیں مدح سرائی کے طور پر اور کہیں دوچار لفظوں کے جملے بنا کر دیہاڑی کے طور پر،،کسی بھی سرکاری محکمے، ادارے حتی کہ اب تو میڈیا بھی ان ہی لفظوں کے کاروبار میں پیش پیش ہو چکا ہے۔
لفظوں کی سوداگریاں کرنے والی کاروباری دنیا موتی جیسے لفظوں اور سونے جیسے جملوں کو کڑکتے نوٹوں اور چمکتے سکوں کی طرح استعمال کرتے ہیں، جس کے پاس دو لفظ جوڑے اور مروڑنے کا اختیار کیا ہو،وہاں خوشامدی جملے کام کر دکھاتے ہیں اور جہاں خوشامد اثر نہ کرے تو وہ بینک دولت پاکستان والے صاف کاغذوں کی چمک والے لفظ بمعہ تصویر کے کام کر جاتے ہیں، خوشامد لفظوں کی مدد سے نااہل کو اہل ثابت کرنے کی کوشش بھی اعلیٰ منصبوں پر فائز بااختیار حضرات کے ہاں ہمارے قانون کے رکھوالے قانون استاد نااہل کو اہل قرار دینا گویا اہل کو نااہل قرار دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو حالانکہ لفظوں میں تاثیر اخلاص کے دم سے ہے۔
Words
ایک بے جان لفظ کے جسد میں جب اخلاص کی روح پھونک دی جاتی ہے تو وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، چلنے لگتا ہے اور اس کی چال زمانے کی طرح قیامت کی چال ہوتی ہے،یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جن سے رشتے بنتے،سنورتے اور ٹوٹتے بھی ہیں ایک معلم اور متعلّم کے درمیان لفظ کا رشتہ ہی تو ہوتا ہے، لفظ معانی سے رشتہ نبھانا چھوڑ دیں تو درس و تدریس اور اخلاق کا سارا نظام بحیرہ عرب میں غرق ہو جائے،اسی طرح وقت کے بادشاہوں اور وقت کے بااختیاروں کو جب عزت مآب ،و ظلِ سبحانی وغیرہ سے پکارنا سبحان جیسے لفظ کے تقدس کی پامالی ہے مگر اب تو روایت چل نکلی ہے کہ لفظوں کی مالا بنتے جائو اور مطلب نکالتے جائو، لفظ انسانیت کی ایک مشترکہ میراث ہے۔
ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے میں لفظ اور معانی کا رشتہ ہی تعلق بناتا ہے اور یہی تعلق ہی کردار کی مالا کے ساتھ نسل انسانی کو وہ امتیاز بخشتے ہیں جو اسے انسانیت کی معراج تک لیجاتے ہیں لفظوں میں تاثیرپیداکرنے کیلئے لازم ہے کہ ہم لفظوں کی مدد سے مال اور مرتبے میں اضافے کی تدبیر نہ کریں بلکہ دل و دماغ پرسچ کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے جھوٹ سے نجات لازم ہے، اپنے وقت، وجود اور خیال کی حفاظت کیلئے اپنی زندگی میں جھوٹ سے اجتناب اور سچ کا ہونا ضروری ہے۔
خوشامد جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے اور جھوٹ کو سچ کہنے والا سچ کو جھوٹ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے، صداقت میں کڑواہٹ ضرور ہوتی ہے لیکن سچ ہمیشہ تابندہ و جاوید رہتا ہے،ویسے بھی لفظوں کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب کہنے والے کی آپ کی زندگی میں اہمیت ہو،الفاظ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اپنے لفظوں کی اہمیت سمجھنا بہت ضروری ہے مگر دو چیزیں انسان کی کمزوری ظاہر کرتی ہیں،ایک جہاں بولنا ہو وہاں خاموش رہنا اور دوسرا جہاں خاموش رہنا ہو وہاں بولنا۔