تحریر: علی عمران شاہین ”سب کو گھیر لو، کوئی بچنا نہیں چاہئے، سب کا کام تمام کر دو، ہم آ ہی رہے ہیں، ایس پی صاحب بھی آنے ہی والے ہیں۔” یہ الفاظ بھارت کی بھوپال سنٹرل جیل سے” فرار” ہونے والے ان آٹھ مسلم نوجوانوں کے قتل کیلئے جاری مہم میں پولیس افسران نے آپس میں بولے جس کی ریکارڈنگ گزشتہ دنوں سننے کو ملی۔31اکتوبر کی شب بھوپال جیل انتظامیہ نے بتایا کہ سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) سے وابستہ یہ نوجوان بھوپال جیل کے محافظ کو قتل کر کے بھاگ نکلے تھے۔ انہوں نے بھاگنے کیلئے کھانے کے چمچوں، پلیٹوں اور کپڑے کا استعمال کیا۔ ان سے انہوں نے ایک محافظ مار گرایا اور پھر فرار ہوگئے۔ کمال حیرت دیکھئے کہ ”فرار”کے آٹھ گھنٹے بعد جب انہیں مار ڈالا گیا تو وہ جیل سے دس کلومیٹر دور پہاڑی علاقے میں تھے۔ یعنی انہوں نے آٹھ گھنٹوں میں محض دس کلومیٹر کا سفر طے کیا اور سب ایک ساتھ ایک ہی جگہ جمع رہے حتیٰ کہ قتل ہو گئے۔ قتل کے بعد ان نوجوانوں کے غم کے مارے لواحقین اور مسلم قائدین نے احتجاج کیا تو جواباً پولیس نے پینترا بدلا اور کہا کہ ان کے پاس سے چار دیسی ساختہ بندوقیں اور بعض تیز دھار آلے بھی برآمد ہوئے ہیں اور یہ کہ ”سخت مقابلہ” بھی ہوا۔ کیسا سخت مقابلہ ہوا؟ جس میں کسی پولیس اہلکار کو خراش نہیں آئی، البتہ مارے جانے والے نوجوانوں کے سر اور سینے گولیوں سے چھلنی تھے۔ شہید نوجوانوں کے وکیل پرویز عالم نے بتایا کہ انہوں نے ان نوجوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی دیکھی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سب کے جسم کے کمر سے اوپر کے حصوں میں ہی گولیاں لگی ہیں۔
بھوپال کا علاقہ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں واقع ہے جس کے وزیراعلیٰ کا نام شیوراج سنگھ چوہان ہے۔ عین اس وقت جب بھارتی مسلمان اس واقعہ میں غم میں ڈوبے ہوئے تھے، ریاستی وزیراعلیٰ نے بیان داغا کہ ”انہوںنے اندرون ملک سرجیکل سٹرائیک جیسی کارروائی انجام دی ہے۔” اس سے یاد آیا ،لارڈ کرزن نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ہندوستانی جھوٹے ہوتے ہیں، اس پر اکبر الہ آبادی نے فوری جواب دیا تھا: جھوٹے ہیں ہم تو آپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ۔ وہ بادشاہ تو چلے گئے لیکن ان کے جھوٹے چلن کو آج کے بھارتی حکمرانوں نے سینے سے لگا رکھا ہے۔ بھوپال کے اس واقعہ اور وزیراعلیٰ کے بیان نے کم از کم بھارت کے اپنے لوگوں کی زبان سے ایک بار پھر یہ عقدہ کھول دیا کہ ان کی ”سرجیکل سٹرائیک” کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ 29ستمبر 2016ء کو بھارتی ڈی جی ایم او لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے دن کے 12بجے یوں فخر و انبساط کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں داخل ہو کر ایک ”سرجیکل سٹرائیک” کی ہے جس میں انہوں نے لشکرطیبہ کے 35مجاہدین کو شہید کیا ہے اور ان کے تمام فوجی بحفاظت واپس بھی آ گئے ہیں۔ جب ان سے اور ان کے دعوے کی تصدیق کرنے والے ان کے وزیراعظم نریندر مودی سے پوچھا جاتا کہ اس سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت کہاں ہیں؟ تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے، ثبوت ہوتا تو دیا جاتا، حتیٰ کہ ”خواجہ دے گواہ ڈڈو” کے طور پر وہی امریکہ جو محض پاکستان دشمنی میں بھارت کے تلوے چاٹتا ہے،۔
Prisoner
وہ بھی بھارتی دعوے کی تصدیق کرنے سے قاصر رہا۔مہینہ بھراٹھانے کے بعد ان بھارتیوں کو برسوں سے جیل میں پڑے مسلمان قیدی یاد آ گئے اور سرجیکل سٹرائیک کو سچ ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ان مسلمانوں پر ہاتھ ڈالا ۔بھوپال کی وہ جیل جہاں سے ان قیدیوں کو جو اسی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع کھنڈوا کے رہنے والے تھے، نکال کر مارا گیا، اس کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے بھاگنے کیلئے جن چابیوں کا استعمال کیا وہ تو ٹوتھ برش کے پلاسٹک سے گھڑ کر بنائی گئی تھیں۔ اس جیل کی سکیورٹی 7دائروں پر مشتمل ہے اور جدید سے جدید آلات بھی نصب ہیں لیکن جب بھارت کا ”سرجیکل سٹرائیک” کا ارادہ ہو تو یہ حفاظتی انتظامات مٹی ہو جاتے ہیں، اسی لئے تو قتل میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے لئے فوری انعامات کا اعلان کر دیا گیا لیکن جب معاملے پر انگلیاں اٹھیں تو شیوراج چوہان نے کہہ دیا کہ جو کوئی اس معاملے میں چشم دید گواہی دے گا، اسے بھاری انعام ملے گا۔ ”لو! کر لو گل” کیسے چشم دید گواہ اور کون سی گواہی…؟
بھارتی مسلمانوں کو نئی دہلی سرکار کی نگرانی میں ایسے ہی مارا جاتا ہے تو ان کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔ گزشتہ سال 7اپریل کو اس تنظیم سے وابستہ پانچ نوجوان اس وقت پولیس کی گاڑی میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گئے تھے جب انہیں عدالت لے جایا جا رہا تھا۔ قتل کے بعد پولیس نے” انکشاف” کیا کہ مارے جانے والے نوجوان اگرچہ ہتھکڑیوں میں تھے لیکن انہوں نے پھر بھی پولیس سے اسلحہ چھیننے اور انہیں قتل کر کے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جس پر انہیں ڈھیر کرنا پڑا تھا۔
بھارتی ریاست کے ہاتھوں بدترین جبر کا سامنا کرنے والی تنظیم سیمی 25اپریل 1977ء میں علی گڑھ شہر میں قائم ہوئی تھی جس کے بانی سربراہ محمد احمد اللہ صدیقی تھے۔ تنظیم کا مقصد بھارتی مسلمانوں کو مغربی تہذیب و اقدار سے بچا کر اسلامی طرز زندگی کی جانب راغب کرنا تھا۔ اس تنظیم کا ماٹو ”اللہ ہمارا معبود، قرآن ہمارا آئین، محمدۖ ہمارے رہنما، جہاد ہمارا راستہ اور شہادت ہماری آرزو” بنایا گیا۔ 1981ء میں جب فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو سیمی نے اس دورے کی مخالفت میں اس کا سیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا تھا کہ ان کے بقول یاسر عرفات مغرب کا ایجنٹ تھا، اس لئے انہیں اس کا بھارت آنا قبول نہیں تھا۔ 2001ء میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد بھارت نے سب سے پہلے اسی مسلم تنظیم پر پابندی عائد کی۔ پابندی عائد کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا جہاد کا نام لینا اور خلافت کو اپنا طرز حکومت قرار دینا تھا جو مغرب کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا تھا۔
Hindus Attack Muslims
اپنے قیام کے بعد بھارت میں مسلمانوں پر جب بھی بھارت میں ظلم و ستم ہوتا تو یہ تنظیم اس کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش نظر آتی۔ خاص طور پر بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیمی نے بھارت کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا اور مسجد کی دوبارہ تعمیر کو اپنا مقصود بنایا تھا۔ یوں بھارتی مسلم نوجوانوں اور طلبہ نے سیمی کو اپنا مرکز نگاہ بنا لیا تو یہ بھارت کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی تھی۔ تنظیم پر کالے قانون لگائے گئے۔ اسے عدالتوں سے کچھ رعایت ملتی تو ساتھ ہی اگلا پھندا تیار ہوتا تھا۔ یوں2014ء میں سیمی کو اگلے پانچ سال کے لئے کالعدم قرار دیا گیا تو 18مئی 2014ء کو بھوپال پولیس نے الزام لگایا کہ تنظیم کے چند کارکنان جنہیں جیل سے عدالت پیشی کے لئے لے جایا جا رہا تھانے نعرے لگائے ”طالبان(افغان مجاہدین) زندہ باد’ اب مودی کی باری ہے۔” سوا دو سال بعد ان مسلم نوجوانوں کو جن کے طویل مقدمات اب ختم ہونے والے تھے، گولیوں سے بھون کر ختم کر دیا گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس دیس کے ہندوئوں کی اول روز سے روایت ایسی ہی رہی ہے۔ اسی بنیاد پر تو محمد بن قاسم کو سمندر پار سے دیبل کے ساحل پر اترنا پڑا تھا۔ اسی بنیاد پر محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کو بار بار افغانستان چھوڑ کر ہندوستان کے طول و عرض میں مہمات سر کرنی پڑیں۔ اور احمد شاہ ابدالی کو اگر نئی دہلی پر بڑی یلغار کرنا پڑی تو وجہ ہندو مرہٹوں کے کمزور و بے بس مسلمانوں پر مظالم اور دہلی کی مرکزی جامع مسجد کو بتکدے میں بدلنے کا اعلان تھا۔ کشمیر سے بھوپال اور بھارت کے کونے کونے میں مسلمانوں پر ٹوٹتی قیامتیں اہل ایمان کو ایک بار پھر اپنے اسلاف کی تاریخ دُہرانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ دیکھئے کہ اب کی بار یہ خوش قسمتی کس مسلمان سالار کے ہاتھ آتی ہے اور وہ ہند کے مسلمانوں نجات دلاتا ہے۔